الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حدود کے مسائل
حدیث نمبر: 2353
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن سماك، انه سمع جابر بن سمرة يقول: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بماعز بن مالك رجل قصير في إزار ما عليه رداء، ورسول الله صلى الله عليه وسلم متكئ على وسادة على يساره فكلمه، فما ادري ما يكلمه به، وانا بعيد منه، بيني وبينه القوم، ثم قال: "اذهبوا به فارجموه"، ثم قال:"ردوه"، فكلمه ايضا وانا اسمع غير ان بيني وبينه القوم، فقال:"اذهبوا به فارجموه"، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم فخطب وانا اسمعه، ثم قال:"كلما نفرنا في سبيل الله، خلف احدهم له نبيب كنبيب التيس يمنح إحداهن الكثبة من اللبن؟ والله لا اقدر على احد منهم، إلا نكلت به".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ رَجُلٍ قَصِيرٍ فِي إِزَارٍ مَا عَلَيْهِ رِدَاءٌ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ عَلَى يَسَارِهِ فَكَلَّمَهُ، فَمَا أَدْرِي مَا يُكَلِّمُهُ بِهِ، وَأَنَا بَعِيدٌ مِنْهُ، بَيْنِي وَبَيْنَهُ الْقَوْمُ، ثُمَّ قَالَ: "اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ"، ثُمَّ قَالَ:"رُدُّوهُ"، فَكَلَّمَهُ أَيْضًا وَأَنَا أَسْمَعُ غَيْرَ أَنَّ بَيْنِي وَبَيْنَهُ الْقَوْمُ، فَقَالَ:"اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ"، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ وَأَنَا أَسْمَعُهُ، ثُمَّ قَالَ:"كُلَّمَا نَفَرْنَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَلَفَ أَحَدُهُمْ لَهُ نَبِيبٌ كَنَبِيبِ التَّيْسِ يَمْنَحُ إِحْدَاهُنَّ الْكُثْبَةَ مِنَ اللَّبَنِ؟ وَاللَّهِ لَا أَقْدِرُ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ، إِلَّا نَكَّلْتُ بِهِ".
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو لایا گیا جو پستہ قد ازار باندھے ہوئے تھے اور ان پر چادر نہیں تھی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں طرف رکھے تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات چیت کی، میں دور تھا اور بیچ میں لوگ بیٹھے تھے، مجھے پتہ نہیں کیا بات ہوئی؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں لے جاؤ اور رجم کر دو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو واپس لاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگو کی جو میں نے دیکھی لیکن ہمارے درمیان لوگ بیٹھے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو لے جاؤ اور رجم کردو، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، میں سن رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: ہم جب اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتے ہیں تو کوئی پیچھے رہ جاتا ہے اور بکری کی سی آواز میں ممیاتا ہے (یعنی جس طرح بکری جفتی کے وقت آواز نکالتی ہے) اور ان کے لئے تھوڑا سا دودھ ٹپکا دیتا ہے (دودھ سے مراد منی ہے یعنی زنا کرتا ہے) اللہ کی قسم ایسے کسی آدمی پر مجھے قدرت حاصل ہوئی تو اس پر میں اس کو سزا دوں گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2362]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1692]، [أبويعلی 7446]، [ابن حبان 4436]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2352)
اس حدیث میں زنا کی سزا شادی شدہ کے لئے رجم کی ہے، نیز اس میں بھی دو بار اعتراف کا اشارہ ملتا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ سے بار بار بات کی اور ان سے اعراض کیا، اس میں مقصد یہ تھا کہ یہ امر متحقق ہو جائے یا شاید وہ اپنے قول سے پھر جائیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2354
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابي هريرة، وزيد بن خالد، وشبل، قالوا: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: انشدك الله إلا قضيت بيننا بكتاب الله، فقال خصمه وكان افقه منه: صدق، اقض بيننا بكتاب الله، واذن لي يا رسول الله ان اتكلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"قل"، فقال: إن ابني كان عسيفا على اهل هذا، فزنى بامراته، فافتديت منه بمائة شاة وخادم، وإني سالت رجالا من اهل العلم، فاخبروني ان على ابني جلد مائة وتغريب عام، وان على امراة هذا الرجم، فقال:"والذي نفسي بيده، لاقضين بينكما بكتاب الله: المائة شاة والخادم رد عليك، وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام، ويا انيس اغد على امراة هذا فسلها، فإن اعترفت، فارجمها"، فاعترفت، فرجمها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ، قَالُوا: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ: صَدَقَ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَتَكَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"قُلْ"، فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى أَهْلِ هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ: الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنْ اعْتَرَفَتْ، فَارْجُمْهَا"، فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا.
سیدنا ابوہریرہ، سیدنا زید بن خالد اور ایک نوجوان رضی اللہ عنہم نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کریں، اس پر اس کے مقابل نے کہا جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا: اس نے سچ کہا، آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کیجئے لیکن اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ بات کرنے کی اجازت دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو کیا کہتے ہو؟ چنانچہ وہ گویا ہوا کہ میرا بیٹا اس شخص کے گھر میں نوکر تھا اور اس کی بیوی سے اس نے زنا کیا، میں نے اس کے بدلے میں اس کو سو بکریاں اور ایک خادم دے دیا اور میں نے اہلِ علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال شہر بدر ہونے کی حد (سزا) واجب ہے، اور اس کی بیوی کا رجم واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا، سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ملیں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے اسے جلا وطن کیا جائے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انیس! صبح کو اس کی بیوی کے پاس جانا اور اس سے پوچھنا، اگر وہ (زنا کا) اقرار کر لے تو اس کو رجم کر دینا۔ اس عورت نے اعتراف کر لیا اور انیس نے اسے رجم کردیا۔

تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2363]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2314، 6827]، [مسلم 1697، 1698]، [أبوداؤد 4445]، [ترمذي 1433]، [نسائي 5425]، [ابن ماجه 2549]، [ابن حبان 4437]، [الحميدي 830]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2353)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے، اور غیر شادی شدہ کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے، علمائے احناف جلاوطنی کے قائل نہیں، مگر یہ صریح اور صحیح حدیث ان کے خلاف ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زنا کے مقابلے میں راضی نامہ کرنا بھی غلط ہے کیونکہ عزت و مصلحت کا تحفظ روپے سے نہیں حدود سے ہے۔
اس حدیث سے قانونی پہلو یہ بھی نکلا کہ اگر مجرم اپنے جرم کا خود اقرار کر لے تو اس پر قانون لاگو ہو جاتا ہے، اس صورت میں گواہوں کی ضرورت نہیں، اور اس سے زنا پر حدِ شرعی سنگساری بھی ثابت ہوئی۔
قرآن پاک میں زانی غیر محصن کی سزا صرف سو کوڑے ہے، اس حدیث میں کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور یہی صحیح ہے۔
تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے سوائے اہلِ کوفہ کے، وہ کہتے ہیں جلاوطنی ضروری نہیں، لیکن خلفائے راشدین کا بھی اسی پر عمل رہا، ہاں غیر شادی شدہ زانیہ عورت کے لئے صرف کوڑوں کی سزا ہے جلاوطنی نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه
13. باب الْمُعْتَرِفِ يَرْجِعُ عَنِ اعْتِرَافِهِ:
13. زنا کا اعتراف کر کے پھر کوئی اس کا انکار کر دے
حدیث نمبر: 2355
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا محمد هو ابن إسحاق بن يسار، حدثنا محمد بن إبراهيم التيمي، عن ابي الهيثم بن نصر بن دهر الاسلمي، عن ابيه، قال: كنت فيمن رجمه، قال ابو محمد: يعني ماعز بن مالك، فلما وجد مس الحجارة، جزع جزعا شديدا، قال: فذكرنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "فهلا تركتموه؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَاق بْنِ يَسَارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ نَصْرِ بْنِ دَهْرٍ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ، قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: يَعْنِي مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، فلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ، جَزِعَ جَزَعًا شَدِيدًا، قَالَ: فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "فَهَلَّا تَرَكْتُمُوهُ؟".
ابوہیثم بن نصر بن دہر اسلمی نے اپنے والد سیدنا نصر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے ان کو رجم کیا (امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا) یعنی ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ کے رجم کے وقت اور جب انہیں پتھر لگے تو اذیت سے بہت گھبرائے، ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔

تخریج الحدیث: «في إسناده أبو الهيثم بن نصر ترجمة البخاري في الكبير 79/ 9، وابن أبي حاتم في " الجرح والتعديل " 453/ 9 ولم يوردا فيه جرحا ولا تعديلا وما رأيت فيه جرحا، [مكتبه الشامله نمبر: 2364]»
اس روایت کی سند میں ابوالھیثم فقط ایسے راوی ہیں جن کے بارے میں جرح و تعدیل موجود نہیں، باقی رجال ثقات ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں کہا ہے کہ نسائی نے ان کی روایت ماعز کے قصہ میں بسند جید روایت کی ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [أبوداؤد 4422، 4423]، [نسائي فى الكبرىٰ 7207]، [ابن ماجه 2554]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2354)
ابوداؤد میں ہے کہ پتھر لگے تو وہ بھاگے لیکن انہیں پکڑ کر رجم کر دیا گیا، اور آخر میں ہے کہ تم اسے چھوڑ دیتے شاید وہ توبہ کرتے اور اللہ تعالیٰ ان کوبخش دیتا۔
امام مالک و امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کا یہی قول ہے کہ اگر حد لگانے کی حالت میں وہ بھاگ نکلے تو بھی اس کو نہ چھوڑیں بلکہ سمجھا کر اس کو رجم کر ڈالیں، امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ اور اکثر علماء کے نزدیک اگر زنا اس کے اقرار سے ثابت ہوا تو چھوڑ دیں اور حد موقوف رکھیں، پھر اگر وہ اقرار کرے تو رجم کیا جائے ورنہ نہیں (وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده أبو الهيثم بن نصر ترجمة البخاري في الكبير 79/ 9، وابن أبي حاتم في " الجرح والتعديل " 453/ 9 ولم يوردا فيه جرحا ولا تعديلا وما رأيت فيه جرحا
14. باب الْحَفْرِ لِمَنْ يُرَادُ رَجْمُهُ:
14. رجم کرنے کا ارادہ ہو تو گڑھا کھود لیا جائے
حدیث نمبر: 2356
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا يحيى بن ابي زائدة، عن داود، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "انطلقوا بماعز بن مالك، فارجموه". فانطلقنا به إلى بقيع الغرقد، فوالله ما اوثقناه ولا حفرنا له، ولكن قام فرميناه بالعظام والخزف والجندل.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "انْطَلِقُوا بِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، فَارْجُمُوهُ". فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَوَاللَّهِ مَا أَوْثَقْنَاهُ وَلَا حَفَرْنَا لَهُ، وَلَكِنْ قَامَ فَرَمَيْنَاهُ بِالْعِظَامِ وَالْخَزَفِ وَالْجَنْدَلِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماعز بن مالک کو لے جاؤ اور اسے رجم کردو، چنانچہ ہم انہیں لے کر بقیع الغرقد کے پاس گئے اور قسم اللہ کی نہ ہم نے انہیں باندھا، نہ گڑھا کھودا، صرف وہ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان پر ہڈی، ٹھیکری اور پتھر پھینک کر مارے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2365]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1694]، [أبويعلی 1215]، [ابن حبان 4438]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2355)
رجم کے وقت باندھنا کسی کے نزدیک ضروری نہیں، گڑھا کھودنے میں اختلاف ہے۔
امام مالک، ابوحنیفہ اور احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مرد، عورت کسی کے لئے گڑھا نہیں کھودنا چاہیے، قتادہ، ابوثور، ابویوسف کے نزدیک دونوں کے لئے گڑھا کھودنا چاہیے اس کی دلیل آگے آتی ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جس کا رجم شہادت سے ثابت ہو اس کے لئے گڑھا کھودیں اور جس کا اقرار سے ہو اس کے لئے نہ کھودیں، شافعیہ کے نزدیک مرد کے لئے نہ کھودیں لیکن عورت کے باب میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ سینے تک گڑھا کھودنا مستحب ہے تاکہ اس کا ستر نہ کھلے، دوسرے نہ مستحب ہے نہ مکروہ بلکہ حاکم کی رائے پر منحصر ہے۔
تیسرے یہ کہ گواہی کی صورت میں وہ مستحب ہے تاکہ اس کو بھاگنے کا موقع نہ ملے، (نووی مختصراً)۔
اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے کہ کسی کے لئے گڑھا نہیں کھودنا، نیز یہ کہ مرد کو کھڑے کھڑے رجم کرنا اور عورت کو بٹھا کر رجم کرنا چاہیے تاکہ اس کی بے پردگی نہ ہو۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2357
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا بشير بن المهاجر، حدثني عبد الله بن بريدة، عن ابيه، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فجاءه رجل يقال له ماعز بن مالك، فاعترف عنده بالزنا، فرده ثلاث مرات، ثم جاء الرابعة فاعترف، "فامر به النبي صلى الله عليه وسلم فحفر له حفرة فجعل فيها إلى صدره، وامر الناس ان يرجموه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ، فَاعْتَرَفَ عِنْدَهُ بِالزِّنَا، فَرَدَّهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ جَاءَ الرَّابِعَةَ فَاعْتَرَفَ، "فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحُفِرَ لَهُ حُفْرَةٌ فَجُعِلَ فِيهَا إِلَى صَدْرِهِ، وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَرْجُمُوهُ".
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد (سیدنا بریده رضی اللہ عنہ) سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا جب وہ شخص آیا جس کا نام ماعز بن مالک تھا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کرنے کا اعتراف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تین بار رد کر دیا، پھر وہ چوتھی بار آیا اور اعتراف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اس کیلئے گڑھا کھودا گیا جو ان کے سینے تک تھا، اس میں انہیں اتار دیا گیا اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں رجم کریں، چنانچہ لوگوں نے انہیں اس طرح مار ڈالا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل بشير بن المهاجر، [مكتبه الشامله نمبر: 2366]»
اس روایت کی سند میں بشیر بن مہاجر ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث حسن کے درجہ میں ہے، اور اسے بھی امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1695]، [أحمد 347/5]، [طحاوي فى مشكل الآثار 182/1]، [دارقطني 92/3، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2356)
اس حدیث میں ہے کہ سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ کے لئے گڑھا کھودا گیا تھا لیکن اوپر والی روایت اس سے قوی اور اصح ہے، اس لئے یہی قول راجح اور صحیح معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے لئے گڑھا کھودنا ضروری نہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل بشير بن المهاجر
15. باب في الْحُكْمِ بَيْنَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِذَا تَحَاكَمُوا إِلَى حُكَّامِ الْمُسْلِمِينَ:
15. اگر اہل کتاب مسلم حکام سے فیصلہ کرائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 2358
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا زهير، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر: ان اليهود جاءوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل منهم وامراة قد زنيا، فقال: "كيف تفعلون بمن زنى منكم؟". قالوا: لا نجد فيها شيئا، فقال لهم عبد الله بن سلام: كذبتم، في التوراة الرجم، فاتوا بالتوراة فاتلوها إن كنتم صادقين فجاءوا بالتوراة، فوضع مدراسها الذي يدرسها منهم كفه على آية الرجم، فقال: ما هذه؟ فلما راوا ذلك قالوا: هي آية الرجم،"فامر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم"فرجما قريبا من حيث توضع الجنائز عند المسجد. قال عبد الله: فرايت صاحبها يخبئ عليها: يقيها الحجارة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا، فَقَالَ: "كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ؟". قَالُوا: لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: كَذَبْتُمْ، فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمُ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ فَجَاءُوا بِالتَّوْرَاةِ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يَدْرُسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ قَالُوا: هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ،"فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ تُوضَعُ الْجَنَائِزُ عِنْدَ الْمَسْجِدِ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يُخْبِئُ عَلَيْهَا: يَقِيهَا الْحِجَارَةَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے ایک آدمی اور ایک عورت کو لے کر آئے جنہوں نے زنا کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی زنا کرتا تو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہمیں تورات میں اس کا کوئی حکم نہیں ملتا، سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جھوٹے ہو، توریت میں آیت الرجم موجود ہے، اگر تم سچے ہو تو تورات لیکر آؤ اور پڑھو، چنانچہ وہ تورات لے کر آئے تو اس کے پڑھنے والے نے اپنا ہاتھ رجم والی آیت پر رکھ لیا تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ (ہاتھ اٹھایا) تو انہوں نے دیکھا کہ یہ تو رجم کرنے کی آیت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور ان کو مسجد کے قریب جہاں جنازے رکھے جاتے تھے وہاں رجم کر دیا گیا۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس عورت کے ساتھی کو دیکھا جو عورت کو پتھروں سے بچانے کی کوشش میں اس پر جھکا ہوا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وزهير هو: ابن معاوية والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2367]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1329]، [مسلم 1699]، [أبوداؤد 4446]، [ترمذي 1436]، [ابن حبان 4434]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2357)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچھلی کتابوں میں بھی شریعتِ اسلامیہ جیسے مسائل موجود تھے لیکن اہلِ کتاب نے انہیں پوشیدہ رکھا یا بدل ڈالا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا غالباً یہی تھا کہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لئے اسلام میں رجم کرنے کی سزا ہے اسی طرح تورات میں بھی ہے، معلوم ہوا اگر اہلِ کتاب بھی فیصلہ کرائیں تو اسلام کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، اس حدیث سے یہود کی بد دیانتی اور تحریف کا ثبوت ملا، سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بھی یہودی تھے لیکن اسلام لے آئے اور وہ توریت کے عالم تھے اس لئے انہوں نے قلعی کھول کر رکھ دی (رضی اللہ عنہ وارضاه)۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافر پر بھی زنا کی حد جاری کرنا واجب ہے، اور کافروں پر فروعِ دین کا بھی حکم واجب ہے، نیز کفار کا مقدمہ جب مسلمان کے پاس آئے تو شرع کے مطابق حکم دینا چاہیے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے تورات کا حکم حجت قائم کرنے کے لئے دریافت کیا تھا ان کی تقلید کے لئے نہیں۔
(انتہیٰ مختصراً)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وزهير هو: ابن معاوية والحديث متفق عليه
16. باب في حَدِّ الْمُحْصَنِينَ بِالزِّنَا:
16. شادی شدہ زنا کرنے والوں کی حد کا بیان
حدیث نمبر: 2359
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال: قال عمر: "إن الله تعالى، بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، وانزل عليه الكتاب، وكان فيما انزل آية الرجم، فقراناها ووعيناها وعقلناها، ورجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، فاخشى إن طال بالناس زمان ان يقول القائل: لا نجد حد آية الرجم في كتاب الله، والرجم في كتاب الله حق على من زنى من الرجال والنساء إذا احصن، إذا قامت عليه البينة، او كان الحبل او الاعتراف".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: "إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، وَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا، وَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ الْقَائِلُ: لَا نَجِدُ حَدَّ آيَةِ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا أُحْصِنَّ، إِذَا قَامَتْ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ أَوِ الِاعْتِرَافُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب (قرآن) اتاری جس میں رجم کی آیت موجود تھی جس کو ہم نے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا تھا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (زانی کو) رجم بھی کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی (زانی کو) رجم کیا، میں ڈرتا ہوں کہ لوگوں پر زمانہ بیتنے کے بعد کوئی کہنے لگ جائے کہ ہم کو تو قرآن پاک میں رجم کی آیت ملتی ہی نہیں ہے۔ حالانکہ کتاب الله میں رجم شادی شدہ زنا کرنے والے مرد و عورت کے لئے حق و ثابت ہے، جبکہ زنا پر دلیل مل جائے، یا حمل ظاہر ہو جائے یا اعتراف سے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2368]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6829]، [مسلم 1691]، [أبوداؤد 4418]، [ترمذي 1432]، [ابن ماجه 2553]، [أبويعلی 146، 151]، [الحميدي 25، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2358)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زنا کا ثبوت تین طرح سے ہوتا ہے: چار گواہ، مجرم کا اقرار، یا عورت کا حاملہ ہونا۔
اور اگر یہ صورت پیش آ جائے کہ ایک عورت نہ شادی شدہ اور نہ لونڈی مگر حاملہ ہو تو امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کے نزدیک اس پر زنا کی حد لگائی جائے گی۔
مگر امام شافعی و ابوحنیفہ رحمہما اللہ کے نزدیک محض حمل کی وجہ سے حد جاری نہیں کی جائے گی جب تک کہ زنا کے گواہ نہ مل جائیں یا زنا کا اقرار نہ کرے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں نسخ پایا جاتا ہے اور آیت الرجم قرآن میں موجود تھی لیکن اب اس کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سورۂ احزاب سورۂ بقرہ کے برابر تھی، جتنی اب موجود ہے اس کے علاوہ باقی منسوخ ہوگئی اور اس میں ہم پڑھتے رہتے تھے کہ (شادی شدہ مرد یا عورت جب زنا کریں تو ان کو سنگسار کر دو) بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہ گیا۔
امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اندیشہ صحیح ثابت ہوا، ابھی تھوڑا ہی زمانہ گزرا تھا کہ معتزلہ نے رجم کا انکار کر دیا کہ یہ کتاب میں موجود نہیں ہے، ان کے علاوہ امّت کے تمام علماء نے رجم کو ثابت و واجب العمل گردانا ہے اور جو اس کا انکار کرے وہ گمراہ قرار پائے گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2360
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الرفاعي، حدثنا العقدي، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن يونس بن جبير يحدث: عن كثير بن الصلت، عن زيد بن ثابت، قال: اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "الشيخ والشيخة إذا زنيا، فارجموهما البتة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ: عَنْ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا، فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ رہے تھے: «اَلشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوْهُمَا الْبَتَّةَ» (بض روایات میں یہ بھی ہے: «نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ»)۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2368]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أحمد 183/5]، [الحاكم 360/4]، [فتح الباري 65/9 و 143/12]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2359)
یعنی مرد و عورت جب زنا کریں تو ان دونوں کو بالکل سنگسار کر دو، یہ الله تعالیٰ کی طرف سے ان کی سزا ہے، اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔
اس حدیث سے اس آیت کا پتہ چلا جو تلاوت کی جاتی تھی اور اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی لیکن حکم باقی و ثابت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
17. باب الْحَامِلِ إِذَا اعْتَرَفَتْ بِالزِّنَا:
17. حاملہ عورت زنا کا اعتراف کر لے تو کیا کیا جائے؟
حدیث نمبر: 2361
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا بشير بن المهاجر، حدثني عبد الله بن بريدة، عن ابيه، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم فجاءته امراة من بني غامد، فقالت: يا نبي الله إني قد زنيت، وإني اريد ان تطهرني، فقال لها:"ارجعي". فلما كان من الغد، اتته ايضا، فاعترفت عنده بالزناء، فقالت: يا نبي الله، طهرني، فلعلك ان ترددني كما رددت ماعز بن مالك، فوالله إني لحبلى، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:"ارجعي، حتى تلدي". فلما ولدت، جاءت بالصبي تحمله في خرقة، فقالت: يا نبي الله هذا قد ولدت، قال:"فاذهبي فارضعيه، ثم افطميه". فلما فطمته، جاءته بالصبي في يده كسرة خبز، فقالت: يا نبي الله، قد فطمته، فامر النبي صلى الله عليه وسلم بالصبي فدفع إلى رجل من المسلمين، وامر بها فحفر لها حفرة، فجعلت فيها إلى صدرها، ثم امر الناس ان يرجموها، فاقبل خالد بن الوليد بحجر فرمى راسها، فتلطخ الدم على وجنة خالد بن الوليد، فسبها، فسمع النبي صلى الله عليه وسلم سبه إياها، فقال:"مه يا خالد، لا تسبها، فوالذي نفسي بيده، لقد تابت توبة، لو تابها صاحب مكس، لغفر له". فامر بها فصلي عليها، ودفنت.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي غَامِدٍ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهَا:"ارْجِعِي". فَلَمَّا كَانَ مِنْ الْغَدِ، أَتَتْهُ أَيْضًا، فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بِالزِّنَاء، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَلَعَلَّكَ أَنْ تَرْدُدَنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَحُبْلَى، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"ارْجِعِي، حَتَّى تَلِدِي". فَلَمَّا وَلَدَتْ، جَاءَتْ بِالصَّبِيِّ تَحْمِلُهُ فِي خِرْقَةٍ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَذَا قَدْ وَلَدْتُ، قَالَ:"فَاذْهَبِي فَأَرْضِعِيهِ، ثُمَّ افْطُمِيهِ". فَلَمَّا فَطَمَتْهُ، جَاءَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي يَدِهِ كِسْرَةُ خُبْزٍ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَدْ فَطَمْتُهُ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّبِيِّ فَدُفِعَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا حُفْرَةٌ، فَجُعِلَتْ فِيهَا إِلَى صَدْرِهَا، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَرْجُمُوهَا، فَأَقْبَلَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ بِحَجَرٍ فَرَمَى رَأْسَهَا، فَتَلَطَّخَ الدَّمُ عَلَى وَجْنَةِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَسَبَّهَا، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ:"مَهْ يَا خَالِدُ، لَا تَسُبَّهَا، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً، لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ، لَغُفِرَ لَهُ". فَأَمَرَ بِهَا فَصُلِّيَ عَلَيْهَا، وَدُفِنَتْ.
عبدالله بن بریدہ نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ قبیلہ بنوغامد کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھ سے زنا سرزد ہو گیا ہے اور چاہتی ہوں کہ آپ مجھے (اس گناہ سے) پاک کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس جاؤ، دوسرے دن وہ پھر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کا اعتراف کیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ شاید مجھے ویسے ہی وا پس کر رہے ہیں جیسے ماعز کو آپ نے لوٹایا تھا۔ اللہ کی قسم میں حاملہ ہوں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی واپس جاؤ جب ولادت ہو جائے تو آنا، چنانچہ جب ولادت ہوگئی تو وہ ایک کپڑے میں بچے کو لپیٹ کر لائی اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ لیجئے ولادت بھی ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اسے دودھ پلاؤ، جب دودھ چھوڑے تو پھر آنا، چنانچہ جب اس کا دودھ انہوں نے چھڑایا تو بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھما کر لائی اور عرض کیا: دیکھئے اے اللہ کے رسول! اب میں نے دودھ بھی چھڑا دیا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بچے کو ایک صحابی کے سپرد کر دیا اور اس عورت کے لئے گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کر کے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ سینے تک کے گڑھے میں کھڑی کر دی گئی۔ سیدنا خالد بن الوليد رضی اللہ عنہ سامنے آئے اور پتھر اٹھا کر سر پر پھینکا جس سے خون کے چھینٹے سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کے چہرے پر آ پڑے تو انہوں نے اس عورت کو برے لفظوں سے نوازا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی یہ بات سنی تو فرمایا: ٹھہرو اے خالد! اس کو برا نہ کہو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے اتنی زبردست توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا بھی (جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور مسکینوں کو ستاتا ہے) ایسی توبہ کرے تو اس کا گناہ بھی بخش دیا جائے (حالانکہ دوسری حدیث میں یہ ایسا شخص جنت میں نہ جائے گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اس پر نماز پڑھی گئی اور دفن کر دی گئی۔

تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2369]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1695]، [أبوداؤد 4441، وغيرهما]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2360)
اس حدیث سے ان پاک طینت غامدی خاتون کی فضیلت ثابت ہوئی کہ بتقاضۂ بشریت گناه سرزد ہوا، توبہ کی لیکن دل مطمئن نہ ہوا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں کہ مجھے پاک کر دیجئے، ایک بار نہیں بار بار آئیں اور آخر میں چھوٹے سے بچے کو روٹی کا ٹکڑا بھی ہاتھ میں پکڑا دیا کہ رحمت للعالمین دیکھ لیں اور ان کو رجم کرنے کا حکم فرما دیں۔
سبحان اللہ! ایک خاتون ہو کر کیا ہمت تھی، کیا قوی ایمان اور جوش و جذبہ تھا، پھر جب سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے کچھ برے الفاظ کہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا اور فضیلت بیان کی کہ اتنی سچی توبہ انہوں نے کی ہے کہ بڑے سے بڑا ظالم بھی ایسی توبہ کرے تو معاف کر دیا جائے۔
ایک روایت ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں میں ان کی توبہ تقسیم کر دی جائے تو ان کے لئے کافی ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زنا، چوری وغیرہ میں اگر توبہ کر لی ہے تب بھی حد جاری کی جائے گی۔
نیز اس حدیث میں ہے کہ ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور پھر وہ دفن کردی گئیں، اس سے بعض علماء نے کہا: زانی و زانیہ پر نماز پڑھی جائے گی۔
بعض نے کہا: زانی پر نماز پڑھنا مکروہ ہے جنہوں نے زنا کا ارتکاب کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ عوام و خواص سب کو اس پر نمازِ جنازہ پڑھنی چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2362
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، عن يحيى، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين: ان امراة من جهينة اتت النبي صلى الله عليه وسلم وهي حبلى من الزناء، فقالت: يا رسول الله، إني اصبت حدا فاقمه علي، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم وليها، فقال:"اذهب فاحسن إليها، فإذا وضعت حملها، فاتني بها". ففعل، فامر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكت عليها ثيابها ثم امر بها فرجمت ثم صلى عليها، فقال عمر: يا رسول الله اتصلي عليها وقد زنت؟، فقال: "لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين من اهل المدينة لوسعتهم، وهل وجدت افضل من ان جادت بنفسها لله عز وجل؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَت ِالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ حُبْلَى مِنَ الزِّنَاءِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِيَّهَا، فَقَالَ:"اذْهَبْ فَأَحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا، فَأْتِنِي بِهَا". فَفَعَلَ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ؟، فَقَالَ: "لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جو زنا کے نتیجے میں حاملہ ہوگئی تھی، اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے حد کا کام کیا ہے، مجھ پر حد قائم کیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو بلا کر فرمایا: اس کو لے جا کر اچھی طرح رکھو، جب ولادت ہو جائے تو میرے پاس لے کر آنا، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اس کے کپڑے مضبوطی سے باندھ دیئے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کو رجم کر دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے پیغمبر! آپ اس پر نماز پڑھ رہے ہیں جس نے زنا کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کی توبہ اہلِ مدینہ کے ستر آدمیوں میں تقسیم کر دی جائے تو وہ سب پر وسیع ہوجائے گی، کیا تم نے اس سے بہتر آدمی دیکھا جس نے اللہ کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2370]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1696]، [أبوداؤد 4440، 4441]، [ترمذي 1435]، [نسائي 1956]، [صحيح ابن حبان 4403]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2361)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ عورت پر زنا کی حد فوراً نافذ نہیں کی جائے گی بلکہ وضع حمل تک انتظار کرنا ہوگا، پھر اگر بچے کی رضاعت و پرورش کا کوئی ذمہ لے تو حد جاری ہوگی ورنہ دودھ چھڑانے تک انتظار کرنا ہوگا جیسا کہ اوپر والی حدیث سے ثابت ہوا، نیز اس حاملہ عورت سے حسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید ہے کیونکہ نادان مرد و عورتیں ایسی عورت کا طعن و تشنیع کرکے جینا دوبھر کر دیتی ہیں اور جینا مرنے سے زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو رجم کرتے وقت اس کے ستر کا خیال رکھا جائے اس لئے علمائے امّت نے مرد کو کھڑے کھڑے اور عورت کو گڑھے میں ڈال کر سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رجم کی سزا یافتہ عورت یا مرد دونوں کی نمازِ جنازہ عوام و خواص سب کو پڑھنی چاہیے جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.