الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
حدود کے مسائل
18. باب في الْمَمَالِيكِ إِذَا زَنَوْا يُقِيمُ عَلَيْهِمْ سَادَتُهُمُ الْحَدَّ دُونَ السُّلْطَانِ:
18. لونڈی اور غلام اگر زنا کریں تو حاکم وقت کے بجائے ان کے مالک ہی ان پر حد نافذ کر سکتے ہیں
حدیث نمبر: 2363
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن زيد بن خالد الجهني وابي هريرة: ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن الامة تزني ولم تحصن، فقال: "إن زنت، فاجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها". قال: فما ادري في الثالثة او في الرابعة"فبيعوها ولو بضفير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْأَمَةِ تَزْنِي وَلَمْ تُحْصَنْ، فَقَالَ: "إِنْ زَنَتْ، فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا". قَالَ: فَمَا أَدْرِي فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ"فَبِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ".
سیدنا زید بن خالد جہنی اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر شادی شدہ لونڈی کے بارے میں پوچھا گیا جو زنا کر بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے لگاؤ پھر زنا کرے پھر کوڑے لگاؤ، پھر زنا کرے پھر کوڑے لگاؤ، راوی نے کہا: یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے کے لئے تیسری بار میں فرمایا یا چوتھی بار میں کہ اگر پھر زنا کرے تو اس کو بیچ دو، گرچہ ایک رسی کے عوض ہی وہ فروخت ہو (یعنی رسی جیسی کم قیمت میں ہی بیچ دو)۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في الحدود، [مكتبه الشامله نمبر: 2371]»
اس حدیث کی سند قوی اورمتفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2152]، [مسلم 1704]، [أبوداؤد 4469]، [ترمذي 1433]، [ابن ماجه 2565]، [ابن حبان 4444]، [الحميدي 831]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2362)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لونڈی اور غلام پر اس کا مالک حد نافذ کر سکتا ہے، اہل الحدیث کا یہی ملک ہے، اور آزاد کے مقابلے میں ان پر آدھی حد نافذ کی جائے گی یعنی 50 کوڑے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ .....﴾ [النساء: 25] » اور اگر لونڈی شادی شدہ ہے تو اس پر حد نافذ کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ اس پر حکومت حد نافذ کرے گی یا خود مالک، جمہور کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی مالک حد لگائے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے کیونکہ شادی شدہ ہونے کی وجہ سے وہ مالک کی لونڈی ہے تو کسی اور کی بیوی بھی ہے، ہاں اگر خاوند بھی غلام ہو تو پھر مالک حد لگا سکتا ہے۔
ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ اگر لونڈی محصنہ ہو تو اس کو سنگسار کرو حالانکہ لونڈی پر بالاجماع رجم نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں ہے (کہ ان پر پاک دامن عورتوں کی سزا سے نصف (آدھی) سزا ہے، اور رجم کا نصف نہیں ہو سکتا تو کوڑوں کا نصف مراد ہوگا یعنی پچاس کوڑے مارو)۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في الحدود
19. باب في تَفْسِيرِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً}:
19. آیتِ شریفہ: «أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا» کی تفسیر
حدیث نمبر: 2364
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا بشر بن عمر الزهراني، حدثنا حماد بن سلمة، عن قتادة، عن الحسن، عن حطان بن عبد الله، عن عبادة بن الصامت: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "خذوا عني خذوا عني. قد جعل الله لهن سبيلا: البكر بالبكر، والثيب بالثيب: البكر جلد مائة ونفي سنة، والثيب جلد مائة والرجم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "خُذُوا عَنِّي خُذُوا عَنِّي. قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا: الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ: الْبِكْرُ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے (احکامِ شریعت) حاصل کرلو، مجھ سے (دین کا حکم) حاصل کرلو، الله تعالیٰ نے ان عورتوں کے لئے راہ نکال دی ہے، کنوارہ لڑکا کنواری لڑکی سے زنا کرے تو اس کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور اگر شادی شدہ عورت کے ساتھ شادی شدہ مرد زنا کرے تو اس کی سزا سو کوڑے اور رجم ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2372]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1690]، [أبوداؤد 4415]، [ترمذي 1434]، [ابن ماجه 2550]، [ابن حبان 4425]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2363)
«خُذُوْا عَنِّيْ» سے مراد یہ ہے کہ مجھ سے زنا کا حکم حاصل کر لو، اللہ نے ان کا راستہ واضح کر دیا، ان کے لئے راہ نکال دی، یہ اس لئے فرمایا کہ قرآن پاک میں نازل ہوا: « ﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيلًا﴾ [النساء: 15] » یعنی تمہاری جو عورتیں زنا کی مرتکب ہوں تو ان کے خلاف اپنے میں سے چار گواہ لاؤ، اگر وہ گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں روکے رکھو تا وقتیکہ ان کو موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راستہ پیدا فرمادے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو انتظار کا حکم دیا گیا ہے کہ اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے زنا کا حکم لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے راستہ نکال دیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کنواره غیر شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو دونوں کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے، اور شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو دونوں کے لیے سو کوڑے اور رجم ہے، اور اگر کنواره شوہر دیده (ثیبہ) سے زنا کرے تو کنوارے کی سزا سو کوڑے اور عورت کی سزا سو کوڑے پھر رجم ہے، ایک گروہ کا یہی مسلک ہے اور دیگر بہت سے علماء اس پر متفق ہیں، اہلِ کوفہ کے نزدیک جلاوطنی غیر شادی شدہ کے لئے ضروری نہیں حالانکہ ابن منذر نے کہا ہے کہ جلاوطن کرنے پر سب خلفائے راشدین کا اتفاق ہے تو گویا اجماع ہو گیا، ظاہر یہ ہے کہ غیر شادی شدہ زانیہ عورت بھی سو کوڑے لگائے جانے کے بعد جلاوطن کی جائے گی لیکن امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ نے کہا کہ عورت جلاوطن نہیں کی جائے گی۔
جمہور علماء کے نزدیک شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا صرف رجم ہی ہے (سو کوڑے نہیں)، ان کی دلیل سیدنا ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ اور غامدیہ اور یہودیہ کا واقعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أُغْدُ يَا أُنَيْسُ إِلَى امْرَأَةِ هٰذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا.» اس میں کوڑے لگانے کا نہیں صرف رجم کا حکم ہے، اسی طرح شیخین نے اپنے دورِ خلافت میں بھی صرف رجم کیا کوڑے نہیں لگائے، اور حق یہ ہے کہ امام کو اس باب میں اختیار ہے خواہ کوڑے لگا کر رجم کرے خواہ صرف رجم ہی پر اکتفا کرے۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2365
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا هشيم، عن منصور، عن الحسن، عن حطان بن عبد الله، عن عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ.
اس سند سے بھی سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكررسابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2373]»
تخریج اور ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكررسابقه
20. باب فِيمَنْ يَقَعُ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ:
20. جو آدمی اپنی بیوی کی لونڈی سے زنا کرے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2366
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حماد، حدثنا ابان بن يزيد، عن قتادة، قال: كتب إلي خالد بن عرفطة عن حبيب بن سالم: ان غلاما كان ينبز قرقورا، فوقع على جارية امراته، فرفع إلى النعمان بن بشير، فقال: لاقضين فيه بقضاء شاف: "إن كانت احلتها له جلدته مائة، وإن كانت لم تحلها له، رجمته"، فقيل لها: زوجك!، فقالت: إني قد احللتها له. فضربه مائة. قال يحيى: هو مرفوع.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ خَالِدُ بْنُ عُرْفُطَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ: أَنَّ غُلَامًا كَانَ يُنْبَزُ قُرْقُورًا، فَوَقَعَ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَرُفِعَ إِلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، فَقَالَ: لَأَقْضِيَنَّ فِيهِ بِقَضَاءٍ شَافٍ: "إِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَهُ جَلَدْتُهُ مِائَةً، وَإِنْ كَانَتْ لَمْ تُحِلَّهَا لَهُ، رَجَمْتُهُ"، فَقِيلَ لَهَا: زَوْجُكِ!، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَحْلَلْتُهَا لَهُ. فَضَرَبَهُ مِائَةً. قَالَ يَحْيَى: هُوَ مَرْفُوعٌ.
حبیب بن سالم سے روایت ہے کہ ایک لڑکا جس کا نام قرقور تھا وہ اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کر بیٹھا، یہ معاملہ (صحابی رسول) سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ (جو کوفہ کے حاکم تھے)، کے پاس لے جایا گیا، انہوں نے کہا: میں اس بارے میں شافی فیصلہ کروں گا، اگر اس کی بیوی نے اپنی لونڈی کو اس کے لئے حلال کر دیا ہو تو میں اس غلام کو سو کوڑے رسید کروں گا، اور اگر اس کی بیوی نے اس کو اس کی اجازت نہ دی ہو تو میں اس غلام کو رجم کر دوں گا، اس عورت سے پوچھا گیا: تم اپنے شوہر کیلئے کیا کہتی ہو، اس عورت نے کہا: میں نے اپنی لونڈی کو اپنے شوہر کے لئے حلال کر دیا تھا (یعنی اس سے جماع کی اجازت دیدی تھی)، چنانچہ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے اس کو سو کوڑے لگائے۔
یحییٰ بن حماد (شیخ الدارمی) نے کہا: یہ مرفوع ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف موقوفا، [مكتبه الشامله نمبر: 2374]»
اس روایت کی سند ضعیف و موقوف ہے اور مرفوع کہنا صحیح نہیں ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4458]، [ترمذي 1451]، [نسائي 3360]، [ابن ماجه 2551]، [أحمد 276/4]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2364 سے 2366)
مرد اپنی لونڈی سے جماع کر سکتا ہے کسی اور کی لونڈی سے نہیں، میاں بیوی کی لونڈی اگر مشترک ہو تو بھی مرد کے لئے اس لونڈی سے جماع کرنا جائز ہے جیسا کہ ابن ماجہ کی حدیث (2552) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے وطی کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حد نہیں لگائی۔
اس حدیث کے پیشِ نظر اکثر علماء نے کہا کہ اگر کوئی اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کرے تو اس کو حد نہیں لگائی جائے گی کیونکہ میاں بیوی کے املاک اکثر مشترک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی ملک سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اس لئے اس میں شبہ پڑ گیا اور حدیث کا قاعدہ ہے «إِدْرَؤُوا الْحُدُوْدَ بِالشُّبُهَاتِ.» شبہ پڑ جائے تو حدود کو ہٹادو۔
نیز یہ کہ مذکورہ بالا حدیث ضعیف بھی ہے اور احتمال ہے کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو دھوکہ ہوا ہو۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف موقوفا
حدیث نمبر: 2367
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا صدقة بن الفضل، اخبرنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن ابي بشر، عن خالد بن عرفطة، عن حبيب بن سالم، عن النعمان بن بشير، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
اس روایت کو صدقہ بن الفضل نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف خالد بن عرفطه، [مكتبه الشامله نمبر: 2375]»
اس روایت کی سند میں خالد بن عرفطہ ضعیف ہیں۔ تخریج کیلئے دیکھئے: [أبوداؤد 4459]، [ترمذي 1451]، [ابن ماجه 2551]، [أحمد 277/4]، [طيالسي 1529]۔ اور ترمذی و طیالسی کی سند میں خالد بن عرفطہ کا ذکر نہیں ہے، اس صورت میں ابوبشر کا لقا حبیب بن سالم سے ثابت نہیں، لہٰذا سند میں انقطاع ہے۔
بہر حال یہ روایت بھی ضعیف ہے، اس لئے صحیح یہی ہے کہ بیوی کی لونڈی سے جماع کرنے پر کوئی حد نہیں۔ واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف خالد بن عرفطه
21. باب الْحَدُّ كَفَّارَةٌ لِمَنْ أُقِيمَ عَلَيْهِ:
21. جس پر حد جاری کی جائے وہ اس کے لئے کفارہ ہے
حدیث نمبر: 2368
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مروان بن محمد الدمشقي، حدثنا ابن وهب، عن اسامة بن زيد، عن محمد بن المنكدر، عن ابن خزيمة بن ثابت، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من اقيم عليه حد، غفر له ذلك الذنب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنَكْدِرِ، عَنْ ابْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أُقِيمَ عَلَيْهِ حَدٌّ، غُفِرَ لَهُ ذَلِكَ الذَّنْبُ".
ابن خزیمہ بن ثابت اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس پر حد لگائی گئی (یعنی اس کو جرم کی سزا دی گئی) تو وہ گناہ اس سے معاف کر دیا جاتا ہے۔ (یعنی ایسا شخص جس پر حد جاری کی گئی وہ اس گناہ سے پاک ہو جاتا ہے۔)

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أسامة بن زيد وهو: الليثي، [مكتبه الشامله نمبر: 2376]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ ابن خزیمہ کا نام: معاویہ ہے اور اسامہ بن زید لیثی ہیں، تخریج کے لئے دیکھئے: [طبراني 88/4، 3731، 3828]، [التاريخ الكبير للبخاري 206]، [أحمد 214/5]، [ابن حبان 4405]، [الحميدي 391]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2366 سے 2368)
گناہِ کبیرہ پر اگر کسی کو حد لگائی جائے یا اور سزا دی جائے تو حدیث کے مطابق وہ اس کے لئے اس گناہ کا کفارہ ہے۔
اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، دو بار اس کو عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ سچی توبہ کر لے، اور اگر ایسے مجرم پر حد نہیں لگائی جا سکی اور وہ مر گیا تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے، چاہے تو بخش دے اور کہہ دے: جا دنیا میں تیرے جرم کو میں نے چھپا دیا، اب آخرت میں بھی تجھے معاف کرتا ہوں، یا چاہے تو عذاب میں مبتلا کرے۔
« ﴿إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ [المائده: 118] » اگر تو انہیں عذاب میں مبتلا کرے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو (اے رب) تو غالب اور حکیم ہے ہی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أسامة بن زيد وهو: الليثي

Previous    1    2    3    4    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.