الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
سیر کے مسائل
1. باب: «بَارِكْ لأُمَّتِي في بُكُورِهَا» :
1. اللہ برکت دے میری امت کے صبح کے وقت میں
حدیث نمبر: 2472
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن عمارة بن حديد، عن صخر الغامدي: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "اللهم بارك لامتي في بكورها". وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث سرية، بعثها من اول النهار. قال: فكان هذا الرجل رجلا تاجرا فكان يبعث غلمانه من اول النهار، فكثر ماله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَدِيدٍ، عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا". وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً، بَعَثَهَا مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ. قَالَ: فَكَانَ هَذَا الرَّجُلُ رَجُلًا تَاجِرًا فَكَانَ يَبْعَثُ غِلْمَانَهُ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ، فَكَثُرَ مَالُهُ.
سیدنا صخر الغامدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! برکت دے میری امت کو صبح سویرے کے وقت میں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی فوجی دستہ کو روانہ کرتے تو صبح کے وقت ہی روانہ کرتے۔
راوی نے کہا: اور یہ شخص (راویٔ حدیث سیدنا صخر رضی اللہ عنہ) تاجر تھے اور اپنے نوکروں کو (تجارت کے لئے) صبح کے وقت ہی روانہ کرتے تھے، جس سے ان کے مال میں بڑی برکت ہوئی اور ان کی دولت بہت زیادہ ہوگئی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2479]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2606]، [ترمذي 1212]، [ابن ماجه 2636]، [ابن حبان 4754، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2471)
اس باب سے امام دارمی رحمہ اللہ نے سریہ اور غزوات میں نکلنے کا ذکر کیا ہے۔
بعض شارحینِ حدیث نے کتاب السیر سے مراد سیرت، اور بعض نے السیر سے مراد سفر کے لئے نکلنا لیا ہے۔
والله اعلم بالصواب۔
اس کتاب میں کچھ ابواب سفر سے متعلق ہیں لیکن اکثر جنگ و جدال اورتقسیمِ مغانم سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس حدیث میں اوّل النہار سے مراد صبح کا وقت ہے جو بعد نمازِ فجر ہوتا ہے، اس کی بڑی فضیلت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی ہے اور صبح سویرے اٹھ کر نماز و اذکار سے فارغ ہو کر اپنے کام دھندے میں لگنے کی ترغیب بھی ہے۔
آج کل دن چڑھے تک سونا، نماز سے غفلت برتنا، عدم برکت کا موجب بنا ہوا ہے، جو لوگ شریعت کے احکام کی پابندی کریں وہ دیکھیں گے کسی طرح ان کی روزی روٹی میں قلت کے باوجود الله تعالیٰ کیسی برکت دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عاملِ شریعت بنائے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
2. باب في الْخُرُوجِ يَوْمَ الْخَمِيسِ:
2. جمعرات کے دن سفر پر نکلنے کا بیان
حدیث نمبر: 2473
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر، اخبرنا يونس، عن الزهري، عن عبد الرحمن بن كعب، عن ابيه، قال:"لقلما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج إذا اراد سفرا إلا يوم الخميس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:"لَقَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا إِلَّا يَوْمَ الْخَمِيسِ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: کم ایسا ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر کا ارادہ فرماتے تو جمعرات کے علاوہ کسی اور دن میں نکلتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2480]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2949، 2950]، [أبوداؤد 2605]، [ابن منصور 2380]، [طبراني 60/19، 110]، [ابن خزيمه 2517]، [أحمد 456/3، 390/6]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2472)
اس حدیث سے جمعرات کے دن سفر کرنا ثابت ہوا جو سنّتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
3. باب في حُسْنِ الصَّحَابَةِ:
3. سفر میں اچھی صحبت اختیار کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2474
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، وابن لهيعة، قالا: حدثنا شرحبيل بن شريك انه سمع ابا عبد الرحمن الحبلي يحدث , عن عبد الله بن عمرو بن العاص، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "خير الاصحاب عند الله خيرهم لصاحبه، وخير الجيران عند الله خيرهم لجاره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، وَابْنُ لَهِيعَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ يُحَدِّثُ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "خَيْرُ الأَصْحَابِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ، وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ".
سیدنا عبدالله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی (رفقائے سفر) وہ ہیں جو اپنے ساتھی کے لئے اچھے ہوں، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے بہتر ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح نعم ابن لهيعة ضعيف ولكنه متابع عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2481]»
اس روایت کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں لیکن دوسری سند سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1944]، [ابن حبان 518]، [الموارد 2051]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2473)
اس حدیث میں سفر کے لئے اچھے رفقاء اختیار کرنے اور اپنے ہم سفر ساتھیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی ترغیب ہے۔
اسی طرح پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم ہے، اور وہ پڑوسی اللہ کے نزدیک بہت پیارا ہے جو اپنے پڑوسی کا خیال رکھے، اسے ایذا نہ پہنچائے، اس کے دکھ سکھ میں شریک ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح نعم ابن لهيعة ضعيف ولكنه متابع عليه
4. باب في خَيْرِ الأَصْحَابِ وَالسَّرَايَا وَالْجُيُوشِ:
4. بہترین ساتھی اور بہترین فوجی دستہ اور بہترین فوج کا بیان
حدیث نمبر: 2475
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن الصلت، حدثنا حبان بن علي، عن يونس، وعقيل عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خير الاصحاب اربعة، وخير الجيوش اربعة آلاف، وخير السرايا اربع مائة، وما بلغ اثنا عشر الفا فصبروا، وصدقوا فغلبوا من قلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ يُونُسَ، وَعُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَيْرُ الأَصْحَابِ أَرْبَعَةٌ، وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ، وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُ مِائَةٍ، وَمَا بَلَغَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا فَصَبَرُوا، وَصَدَقُوا فَغُلِبُوا مِنْ قِلَّةٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین ساتھی چار ہوتے ہیں، اور بہتر لشکر وہ ہے جس میں چار ہزار آدمی ہوں، اور بہتر سریہ (فوجی دستہ) وہ ہے جس میں چار سو آدمی ہوں، اور بارہ ہزار تعداد ہو جائے اور وہ صبر و سچائی سے کام لیں تو قلت کی وجہ سے مغلوب نہ ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2482]»
اس حدیث کی سند حسن ہے، دوسری سند سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2611]، [ترمذي 1555]، [ابن ماجه 2827]، [أبويعلی 2587]، [ابن حبان 4717]، [موارد الظمآن 1663]۔ ابوداؤد و ابن ماجہ میں ہے: «لَنْ يَغْلِبَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ» ۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2474)
سفر کے لئے چار رفیق اور ساتھی اس لئے بہتر ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو اور وصیت کرنا چاہے کسی رفیق کو تو وہ گواہ ہو جائیں، اور علماء نے لکھا ہے کہ چار سے پانچ بھی بہتر ہیں بلکہ اس سے زیادہ بھی، کیونکہ حدیث میں اقل درجہ بیان کیا گیا ہے۔
اور بارہ ہزار ہوں تو ہرگز مغلوب نہ ہوں گے، اگر مغلوب ہوئے بھی تو کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے، عدم صبر، عدم خلوص، بزدلی یا عجب و غرور کی وجہ سے مغلوب ہوں گے۔
(وحیدی بتصرف)

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
5. باب وَصِيَّةِ الإِمَامِ لِلسَّرَايَا:
5. امام کا فوجی دستے کو رخصت کرتے وقت وصیت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2476
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا امر رجلا على سرية اوصاه في خاصة نفسه بتقوى الله، وبمن معه من المسلمين خيرا، وقال: "اغزوا بسم الله، وفي سبيل الله، قاتلوا من كفر بالله، اغزوا ولا تغدروا، ولا تغلوا، ولا تمثلوا، ولا تقتلوا وليدا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَبِمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، وَقَالَ: "اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا".
سلمان بن بریدہ نے اپنے والد سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا: انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی پلٹن کا امیر مقرر فرماتے تو اسے وصیت کرتے تھے کہ وہ خود اللہ کا تقوی اختیار کریں اور جو مسلمان ان کے ساتھ ہیں ان کے ساتھ بھی اللہ سے ڈرتے ہوئے اچھا سلوک کریں، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جو اللہ کا انکار کرے اس سے جنگ کرو، جہاد کرو لیکن غداری نہ کرو، اور نہ خیانت کرو، نہ مثلہ کرو، اور نہ بچے کو مارو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2483]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1731]، [أبوداؤد 2613]، [ترمذي 1617]، [ابن ماجه 2858]، [أبويعلی 1413]، [ابن حبان 4739]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2475)
ناک کان، دل جگر، ہاتھ پاؤں کاٹ کر الگ الگ کر دینے کو مثلہ کہتے ہیں۔
اس حدیث سے لشکرکشی ثابت ہوئی، اور روانگی کے وقت نصیحت کرنا بھی ثابت ہوا، نیز یہ کہ امیر اورمجاہدین راہِ جہاد میں تقویٰ و خلوص اختیار کریں، اور بدعہدی، غداری، خیانت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور رہنے کی تلقین کی ہے، نیز جوش و غضب میں آ کر میت کی بے حرمتی سے یعنی مثلہ کرنے سے بھی منع کیا، اور نابالغ بچوں کے قتل سے بھی، دوسری احادیث میں عورتوں اور بوڑھوں کا بھی اضافہ ہے۔
یہ اسلام کے وہ زریں اصولِ حرب ہیں جو اسلام کو معتدل، حقیقت پسندانہ مذہب بتاتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
6. باب: «لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ» :
6. دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2477
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا عبد الرحمن بن زياد، عن عبد الله بن يزيد، عن عبد الله بن عمرو: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "لا تتمنوا لقاء العدو، وسلوا الله العافية، فإن لقيتموهم، فاثبتوا، واكثروا ذكر الله، فإن اجلبوا وضجوا، فعليكم بالصمت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ، فَاثْبُتُوا، وَأَكْثِرُوا ذِكْرَ اللَّهِ، فَإِنْ أَجْلَبُوا وَضَجُّوا، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّمْتِ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دشمن سے لڑائی کرنے کی آرزو نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کرو، اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے تو پھر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرو، اور جب وہ چیخ و پکار کریں تو تم خاموش رہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الرحمن بن زياد هو: ابن أنعم الأفريقي، [مكتبه الشامله نمبر: 2484]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن دوسرے طرق سے اس کے متعدد جملے صحیح ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 2818، 2833، 2966]، [مسلم 1748]، [أبوداؤد 2631]، [ابن منصور 242/2]، [البيهقي 153/9، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2476)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاں تک ہو سکے لڑائی سے بچنا، اس کو ٹالنا اور عافیت کی دعا کرنی چاہیے، کیونکہ اسلام فتنہ و فساد کے سخت خلاف ہے۔
جب صلح صفائی کی کوئی صورت نہ بن سکے، اور دشمن مقابلہ ہی پرآمادہ ہو تو بزدلی نہیں دکھانی چاہیے بلکہ جم کر اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہے، اور صبر و استقامت اور پوری قوت سے دشمن کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
بزدلی اور فرار مومن کی شان سے بعید تر ہے، اور ہر حال میں الله کو یاد کرنا چاہیے، فتح و نصرت اسی کے ہاتھ میں ہے، اور موت سے ڈرنا نہیں چاہیے، اگر شہادت لکھی ہے تو یہ بڑی سعادت ہے، اور کوئی طاقت اس سے بچا نہیں سکتی اور موت مقدر نہیں تو یقیناً سلامتی کے ساتھ واپسی ہوگی۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کامیابی و ناکامی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اس کی مشیت کے سامنے سارے آلاتِ حرب، توپ و تفنگ، بم اور دھماکے رکھے رہ جاتے ہیں۔
«(وَهُوَ غَالِبٌ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الرحمن بن زياد هو: ابن أنعم الأفريقي
7. باب في الدُّعَاءِ عِنْدَ الْقِتَالِ:
7. جنگ کے وقت دعا کا بیان
حدیث نمبر: 2478
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد، عن ثابت، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن صهيب: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو ايام حنين: "اللهم بك احاول، وبك اصاول، وبك اقاتل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو أَيَّامَ حُنَيْنٍ: "اللَّهُمَّ بِكَ أُحَاوِلُ، وَبِكَ أُصَاوِلُ، وَبِكَ أُقَاتِلُ".
سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ حنین کے ایام میں یہ دعا کیا کرتے تھے: «اَللّٰهُمَّ بِكَ أُحَاوِلُ . . . . . . الخ» اے اللہ! میں تیری مدد سے کوشش کرتا ہوں، اور تیری مدد سے حملہ کرتا ہوں، اور تیری ہی مدد سے جنگ کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2485]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 332/4 و 16/6]، [الطبراني 48/8، 7318]، [سنن بيهقي 153/9]، [ابن حبان 1975]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2477)
جنگ کے وقت اس طرح کی دعا کرنا مستحب ہے۔
اس کے علاوہ بھی ایسے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائیں مذکور ہیں، جیسے: «اَللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ وَ مُجْرِيَ السَّحَابِ وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ اِهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ.» [بخاري 2966]، [مسلم 1742]، نیز اس سے ثابت ہوا کہ بندے کو ہر وقت مالک الملک اللہ رب العالمین سے دعا کرتے رہنا چاہیے، فتح و نصرت دینے والا وہی ہے، صرف اسی کو پکارنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
8. باب في الدَّعْوَةِ إِلَى الإِسْلاَمِ قَبْلَ الْقِتَالِ:
8. جنگ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2479
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا امر رجلا على سرية اوصاه: "إذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى إحدى ثلاث خلال او ثلاث خصال فايتهم ما اجابوك إليها، فاقبل منهم وكف عنهم ثم ادعهم إلى الإسلام، فإن هم اجابوك فاقبل منهم وكف عنهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واخبرهم إن هم فعلوا ان لهم ما للمهاجرين، وان عليهم ما على المهاجرين، فإن هم ابوا، فاخبرهم انهم يكونون كاعراب المسلمين، يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين وليس لهم في الفيء والغنيمة نصيب إلا ان يجاهدوا مع المسلمين. فإن هم ابوا ان يدخلوا في الإسلام، فسلهم إعطاء الجزية، فإن فعلوا، فاقبل منهم وكف عنهم، فإن هم ابوا، فاستعن بالله وقاتلهم. وإن حاصرت اهل حصن، فإن ارادوك ان تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه، فلا تجعل لهم ذمة الله، ولا ذمة نبيه، ولكن اجعل لهم ذمتك وذمة ابيك، وذمة اصحابك، فإنكم إن تخفروا بذمتكم وذمة آبائكم، اهون عليكم من ان تخفروا ذمة الله وذمة رسوله. وإن حاصرت حصنا فارادوك ان ينزلوا على حكم الله، فلا تنزلهم على حكم الله، ولكن انزلهم على حكمك، فإنك لا تدري اتصيب حكم الله فيهم ام لا، ثم اقض فيهم بما شئت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ رَجُلًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ: "إِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِلَالٍ أَوْ ثَلاثِ خِصَالٍ فَأَيَّتُهُمْ مَا أَجَابُوكَ إِلَيْهَا، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَخْبِرْهُمْ إِنْ هُمْ فَعَلُوا أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ، يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَلَيْسَ لَهُمْ فِي الْفَيْءِ وَالْغَنِيمَةِ نَصِيبٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ. فَإِنْ هُمْ أَبَوْا أَنْ يَدْخُلُوا فِي الْإِسْلامِ، فَسَلْهُمْ إِعْطَاءَ الْجِزْيَةِ، فَإِنْ فَعَلُوا، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَقَاتِلْهُمْ. وَإِنْ حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ، فَإِنْ أَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ، فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ، وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّهِ، وَلَكِنْ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَّةَ أَبِيكَ، وَذِمَّةَ أَصْحَابِكَ، فَإِنَّكُمْ إِنْ تُخْفِرُوا بِذِمَّتِكُمْ وَذِمَّةِ آبَائِكُمْ، أَهْوَنُ عَلَيْكُمْ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ. وَإِنْ حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوكَ أَنْ يَنْزِلُوا عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ لا، ثُمَّ اقْضِ فِيهِمْ بِمَا شِئْتَ".
سلیمان بن بریدہ نے اپنے باپ سے روایت کیا انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو کسی پلٹن کا سردار بناتے تو اسے وصیت کرتے تھے کہ جب تمہاری مشرک دشمن سے ملاقات ہو تو انہیں تین میں سے ایک بات کی دعوت دو، ان تینوں خصلتوں میں سے وہ جو بھی مان لیں اس کو قبول کر لو اور ان سے لڑائی نہ کرو، وہ تین باتیں یہ ہیں: ان کو اسلام کی دعوت دو، اگر وہ اس پر راضی ہوں تو تم قبول کر لو اور ان سے باز رہو (یعنی ان کے جان و مال کو تلف نہ کرو)، پھر ان سے کہو کہ وہ اپنے ملک سے مہاجرین کے ملک میں منتقل ہو جائیں اور انہیں بتاؤ کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو جو (حق فائدہ) مہاجرین کے لئے ہے وہ ان کو بھی ملے گا، جو سزائیں (قصور کے بدلے) مہاجرین کو دی جاتی ہیں وہی ان کو بھی دی جائیں گی، اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کر دیں تو ان کا حکم مسلم دیہاتیوں کا سا ہوگا اور الله کا حکم جو مسلمانوں پر جاری ہوتا ہے وہ ان پر جاری ہوگا اور ان کو مالِ غنیمت یا بلا جنگ کے حاصل شدہ مال میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا سوائے اس حالت کے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد کریں، اور اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو ان سے کہو کہ جزیہ ادا کریں، اگر وہ جزیہ دینے پر راضی ہوں تو قبول کر لو اور ان سے باز رہو (ان کے قتل یا مال سے کیونکہ وہ ذمی ہو گئے اور ان کا جان و مال محفوظ ہو گیا)، اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کر کے ان سے لڑائی کرو اور اگر تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور قلعہ کے لوگ تم سے الله اور اس کے رسول کا ذمہ طلب کریں (یعنی امان مانگیں) تو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ نہ دو بلکہ اپنا، اپنے باپ اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دیدو، اس لئے کہ اگر تم اپنا ذمہ یا اپنے باپ دادوں کا ذمہ توڑ ڈالو تو یہ اس سے آسان ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ توڑ ڈالو، اور اگر تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو پھر قلعہ والے یہ چاہیں کہ اللہ کے حکم پر وہ قلعہ سے نکل آئیں گے تو اس شرط پر انہیں نہ نکالو بلکہ اپنے حکم پر ہی انہیں نکلنے کو کہو، اس لئے کہ تم نہیں جانتے تم اللہ کے حکم پر چل سکو گے یا نہیں، پھر اس کے بعد جس طرح چاہو ان کا فیصلہ کر لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2486]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1731]، [أبوداؤد 2612]، [ترمذي 1617]، [ابن ماجه 2858]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2478)
اس حدیث سے بہت سے مسائل معلوم ہوئے۔
ایک یہ کہ جنگ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت دی جائے، انکار کریں تو جزیہ طلب کیا جائے، اس سے بھی انکار کریں تو پھر قتال کیا جائے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال فئ اور غنیمت میں دیہاتیوں کا حصہ نہیں ہے سوائے ان کے جو جہاد میں شہریوں کے ساتھ شریک ہوں، نیز یہ کہ اگر دشمن پہلی دو شرطوں میں سے کوئی ایک کو مان لے تو پھر ان سے جنگ نہیں کی جائے گی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2480
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) قال علقمة: فحدثت به مقاتل بن حيان، فقال: حدثني مسلم بن هيصم، عن النعمان بن مقرن، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.(حديث مرفوع) قَالَ عَلْقَمَةُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ مُقَاتِلَ بْنَ حَيَّانَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ هَيْصَمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
علقمہ نے کہا: میں نے اس حدیث کو مقاتل بن حیان سے بیان کی تو انہوں نے کہا: یہی حدیث مجھ سے مسلم بن ہیصم نے سیدنا نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے بیان کی اور انہوں نے ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده موصول بالإسناد السابق وهذا إسناد جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2487]»
اس روایت کی تخریج او پرگذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده موصول بالإسناد السابق وهذا إسناد جيد
حدیث نمبر: 2481
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: "ما قاتل رسول الله صلى الله عليه وسلم قوما حتى دعاهم"، قال عبد الله: سفيان لم يسمع من ابن ابي نجيح يعني: هذا الحديث.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "مَا قَاتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا حَتَّى دَعَاهُمْ"، قَالَ عَبْد اللَّهِ: سُفْيَانُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ يَعْنِي: هَذَا الْحَدِيثَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی قوم سے دعوت (اسلام) دینے سے پہلے قتال نہیں کیا۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث کو سفیان نے ابن ابی نجیح سے نہیں سنا۔ (یعنی یہ روایت منقطع ہے)۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات. ولكن سفيان لم يسمع هذا الحديث من ابن أبي نجيح كما قال الدرامي. والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2488]»
اس سند سے یہ روایت منقطع ہے، لیکن دوسری صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [أحمد 236/1]، [أبويعلی 2591]، [طبراني 132/11، 11270]، [بيهقي 107/9]، [الحاكم 38]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات. ولكن سفيان لم يسمع هذا الحديث من ابن أبي نجيح كما قال الدرامي. والحديث صحيح

1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.