الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
سیر کے مسائل
9. باب في الإِغَارَةِ عَلَى الْعَدُوِّ:
9. دشمن پر حملہ کرنے کے وقت کا بیان
حدیث نمبر: 2482
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "يغير عند صلاة الفجر، وكان يستمع، فإن سمع اذانا، امسك، وإن لم يسمع اذانا، اغار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يُغِيرُ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا، أَمْسَكَ، وَإِنْ لَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا، أَغَارَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے وقت (دشمن پر) حملہ کرتے تھے اور سننے کی کوشش کرتے تھے، اگر (فجر کی) اذان سن لیتے تو پھر حملہ نہ کرتے اور اذان سنائی نہ دیتی تو پھر حملہ کر دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2489]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 610]، [مسلم 382]، [أبوداؤد 2634]، [ترمذي 1618]، [أبويعلی 3307]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2479 سے 2482)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس بستی میں مسلم اور غیر مسلم ایک ساتھ رہتے ہوں اس پر حملہ کرنا درست نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
10. باب في الْقِتَالِ عَلَى قَوْلِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ:
10. لا إلہ إلا اللہ کے لئے جنگ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2483
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن النعمان بن سالم، قال: سمعت اوس بن ابي اوس الثقفي، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في وفد ثقيف، قال: وكنت في اسفل القبة ليس فيها احد إلا النبي صلى الله عليه وسلم نائم إذ اتاه رجل فساره، فقال:"اذهب فاقتله"، ثم قال:"اليس يشهد ان لا إله إلا الله؟". قال شعبة: واشك محمدا رسول الله؟. قال: بلى. قال: "إني امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فإذا قالوها، حرمت علي دماؤهم واموالهم إلا بحقها". قال: وهو الذي قتل ابا مسعود. قال: وما مات حتى قتل خير إنسان بالطائف.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَوْسَ بْنَ أَبِي أَوْسٍ الثَّقَفِيَّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ، قَالَ: وَكُنْتُ فِي أَسْفَلِ الْقُبَّةِ لَيْسَ فِيهَا أَحَدٌ إِلا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمٌ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَسَارَّهُ، فَقَالَ:"اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ"، ثُمَّ قَالَ:"أَلَيْسَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟". قَالَ شُعْبَةُ: وَأَشُكُّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ؟. قَالَ: بَلَى. قَالَ: "إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا، حَرُمَتْ عَلَيَّ دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلا بِحَقِّهَا". قَالَ: وَهُوَ الَّذِي قَتَلَ أَبَا مَسْعُودٍ. قَالَ: وَمَا مَاتَ حَتَّى قَتَلَ خَيْرَ إِنْسَانٍ بِالطَّائِفِ.
سیدنا اوس بن ابی اوس ثقفی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بنوثقیف کے وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں اس قبہ کے ایک کونے میں تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے، اچانک ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سرگوشی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اسے قتل کر دو۔ اس نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ اس کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ شعبہ نے کہا: مجھے اس میں شک ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کے بارے میں کہا یا نہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں (اس کی گواہی دیتا ہے)، فرمایا: مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا إلہ إلا الله نہ کہہ دیں، اور جب وہ یہ کہہ دیں تو پھر میرے اوپر ان کا خون ان کے مال حرام ہیں سوائے حق اسلام کے (یعنی حد یا قصاص کے)، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ راوی نے کہا: اس شخص نے ابومسعود کو قتل کیا تھا اور اس وقت تک اس کو موت نہ آئی جب تک کہ طائف کے سب سے اچھے انسان فوت نہ ہوئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2490]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طيالسي 37]، [طبراني 218/1، 594]، [ابن ماجه 3929]، [أبويعلی 6862، وغيرهم وأصله فى الصحيحين]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2482)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہو جائے گی، اب اس کو دشمنِ اسلام ہونے کے سبب نہ قتل کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کا مال و متاع زبردستی لیا جاسکتا ہے سوائے حقِ اسلام کے، یعنی حد یا قصاص میں جان کا بدلہ جان، اور مال میں سے زکاة و صدقات وغیرہ، کیونکہ یہ کلمہ کہہ کر وہ مسلمانوں کے زمرے میں داخل ہوگیا، اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو مارنا یا اس کا مال ہڑپ کرنا حرام ہے۔
جیسا کہ: «أَلَا إِنَّ دِمَاءَ هُمْ وَأَمْوَالَهُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا فِيْ بَلَدِكُمْ هٰذَا فِيْ سَهْرِكُمْ هٰذَا ..... (أو كما قال عليه السلام)» مروی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
11. باب لاَ يَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ:
11. جو شخص لا إلہ إلا اللہ کی گواہی دے اس کا خوں بہانا جائز نہیں
حدیث نمبر: 2484
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يحل دم رجل يشهد ان لا إله إلا الله إلا إحدى ثلاثة نفر: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والتارك لدينه المفارق للجماعة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَحِلُّ دَمُ رَجُلٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِلَّا إِحْدَى ثَلَاثَةِ نَفَرٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون جو کلمہ لا إلہ إلا الله (محمد رسول اللہ) کا ماننے والا ہو حلال نہیں ہے، البتہ تین آدمیوں کا خون حلال ہے: جان کے بدلے جان لینے والا، شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا، اور دین چھوڑ کر اسلام سے نکل جانے والا (مرتد) جماعت کو چھوڑ دینے والا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2491]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6878]، [مسلم 1676]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
12. باب في بَيَانِ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصَّلاَةُ جَامِعَةٌ» :
12. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ» کا بیان
حدیث نمبر: 2485
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا الاسود بن شيبان، عن خالد بن سمير، قال: قدم علينا عبد الله بن رباح الانصاري، وكانت الانصار تفقهه. قال: حدثنا ابو قتادة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"بعث جيش الامراء، قال: فانطلقوا فلبثوا ما شاء الله، ثم صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر، فامر فنودي: الصلاة جامعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ تُفَقِّهُهُ. قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"بَعَثَ جَيْشَ الْأُمَرَاءِ، قَالَ: فَانْطَلَقُوا فَلَبِثُوا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَأَمَرَ فَنُودِيَ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ".
خالد بن سمیر نے کہا: عبداللہ بن رباح انصاری ہمارے پاس تشریف لائے۔ انصار ان کو فقیہ جانتے تھے، انہوں نے کہا: سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ نے ہم سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء کا لشکر روانہ کیا، وہ چلے اور جتنا اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور حکم دیا، چنانچہ اعلان کیا گیا: «الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ» یعنی نماز تیار ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2492]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 299/5]، [النسائي فى الكبريٰ 8249]، [البيهقي فى دلائل النبوة 367/4]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2483 سے 2485)
«الصلاة جامعة» یہ کہنا «صلاة الكسوف والخسوف» یا ہنگامی حالت کے لئے خاص ہے، پنج وقتہ نمازوں کے لئے اذان اور اقامت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
13. باب: «الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ» :
13. صاحب مشورہ کے امانت دار ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 2486
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الاسود بن عامر، حدثنا شريك، عن الاعمش، عن ابي عمرو الشيباني، عن ابي مسعود الانصاري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "المستشار مؤتمن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ".
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے مشورہ لیا جائے اس کا امانت دار ہونا ضروری ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2493]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2823]، [أبوداؤد 5128]، [ابن ماجه 3745]، [الحاكم 121/4]، [شرح السنة 521/4]، [موارد الظمآن 1991]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2485)
یعنی اس مشیر کو افشائے راز نہ کرنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
14. باب في الْحَرْبِ خُدْعَةٌ:
14. لڑائی میں چالبازی کا بیان
حدیث نمبر: 2487
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الحزامي، حدثنا ابن المبارك، عن معمر، عن الزهري، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن كعب بن مالك، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "إذا اراد غزوة ورى بغيرها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "إِذَا أَرَادَ غَزْوَةً وَرَّى بِغَيْرِهَا".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں لڑائی کا ارادہ کرتے تو توریہ (غیر سے چھپانا) کرتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وابن المبارك هو: عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 2494]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2636]، [أحمد 456/3]، [ابن أبى شيبه 18851]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2486)
توریہ سے مراد یہ ہے کہ جانا کسی طرف ہوتا لیکن اشارہ اور توجہ کسی اور طرف کرتے، تاکہ کی جاسوس کو معلوم نہ ہو سکے کہ کس طرف جانے کا پروگرام ہے اور دشمن محتاط نہ ہو جائے، مثلاً جانا جنوب کی طرف ہو اور دریافتِ احوال یا پیش قدمی شمال یا مشرق کی طرف ہوتا کہ دشمن کو بے خبری اور غفلت میں جا لیں، یہ حربی اور جنگی حکمتِ عملی ہے، اس کو دھوکہ نہیں کہا جاسکتا ہے، اور الحرب خدعۃ کا مطلب چالبازی، حیلہ سازی ہے، یعنی جو فریق جنگ میں چستی و چالاکی سے کام لے گا جنگ کا پانسہ اس کے ہاتھ میں ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وابن المبارك هو: عبد الله
15. باب الشِّعَارِ:
15. جنگ میں خاص علامت کے اختیار کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2488
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا وكيع، عن ابي عميس، عن إياس بن سلمة بن الاكوع، عن ابيه، قال:"بارزت رجلا فقتلته، فنفلني رسول الله صلى الله عليه وسلم سلبه، فكان شعارنا مع خالد بن الوليد: امت، يعني: اقتل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:"بَارَزْتُ رَجُلًا فَقَتَلْتُهُ، فَنَفَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلَبَهُ، فَكَانَ شِعَارُنَا مَعَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ: أَمِتْ، يَعْنِي: اقْتُلْ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ایک شخص سے مقابلہ کیا اور اسے قتل کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا مال و متاع دے دیا اور اس دن سیدنا خالد بن الوليد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہمارا کوڈ ورڈ تھا امت یعنی اقتل (قتل کر ڈالو)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2495]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2596]، [ابن حبان 4839]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2487)
اس حدیث میں شعار کا مطلب وہ علامت یا کلمہ ہے جس سے فوجی ایک دوسرے کو پہچان لیں، اور اشتباه نہ ہو، اور بھائی بھائی کو قتل نہ کر ڈالے۔
شبِ خون کے وقت ایسا ہو سکتا ہے اس لئے کوڈ ورڈ مقرر کر لیا جاتا ہے، جیسا کہ مذکور بالا حدیث میں «أَمِتْ» کا لفظ ہے۔
دوسری احادیث میں «حم لا ينصرون» اور دیگر الفاظ آتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
16. باب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «شَاهَتِ الْوُجُوهُ» :
16. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «شاهت الوجوه» کا بیان
حدیث نمبر: 2489
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، وعفان، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن يعلى بن عطاء، عن عبد الله بن يسار ابي همام، عن ابي عبد الرحمن الفهري، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة حنين، فكنا في يوم قائظ شديد الحر، فنزلنا تحت ظلال الشجر،...... فذكر القصة، ثم اخذ كفا من تراب، قال: فحدثني الذي هو اقرب إليه مني انه ضرب به وجوههم، وقال: "شاهت الوجوه"فهزم الله المشركين. قال يعلى: فحدثني ابناؤهم ان اباءهم. قالوا: فما بقي منا احد إلا امتلات عيناه وفمه ترابا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ أَبِي هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ حُنَيْنٍ، فَكُنَّا فِي يَوْمٍ قَائِظٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلَالِ الشَّجَرِ،...... فَذَكَرَ الْقِصَّةَ، ثُمَّ أَخَذَ كَفًّا مِنْ تُرَابٍ، قَالَ: فَحَدَّثَنِي الَّذِي هُوَ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنِّي أَنَّهُ ضَرَبَ بِهِ وُجُوهَهُمْ، وَقَالَ: "شَاهَتِ الْوُجُوهُ"فَهَزَمَ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ. قَالَ يَعْلَى: فَحَدَّثَنِي أَبْنَاؤُهُمْ أَنَّ أَبَاءَهُمْ. قَالُوا: فَمَا بَقِيَ مِنَّا أَحَدٌ إِلا امْتَلَأَتْ عَيْنَاهُ وَفَمُهُ تُرَابًا.
سیدنا ابوعبدالرحمٰن الفہری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سخت گرمی کے دن جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا اور ہم نے درختوں کے سایے میں پڑاؤ ڈالا۔ اس کے بعد پورا قصہ بیان کیا اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی میں مٹی بھری اور مجھے اس شخص نے خبر دی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب تھا کہ اس مٹی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی طرف پھینکا اور فرمایا: ان کے منہ خراب ہوں، پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی۔
یعلی نے کہا: ان کے بیٹوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے آباء نے کہا کہ ہم میں سے اس وقت کوئی ایسا نہ بچا کہ اس کی آنکھیں اور منہ مٹی سے نہ بھر گئے ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2496]»
اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 286/5]، [ابن أبى شيبه 18844]، [أبويعلی 6708]، [ابن حبان 7049]، [الحميدي 464]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2488)
جنگِ حنین ہوازن و ثقيف کے قبائل سے فتح مکہ کے بعد 8ھ میں وقوع پذیر ہوئی، جس میں مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی، اور کافروں کی تعداد 4 ہزار کے قریب تھی، مسلمانوں کو اپنی طاقت پر بھروسہ ہو گیا اور سوچنے لگے کہ ہماری تھوڑی سی تعداد بڑی سے بڑی تعداد پر غالب آ جاتی ہے تو اس بڑے لشکر کو کون شکست دے سکے گا، لیکن فتح و نصرت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ اور آزمائش ڈالدی، شروع میں مسلمان پسپا ہو گئے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور کہا: «شَاهَتِ الْوُجُوهُ» یعنی بد دعا کی، الله تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور دشمن کو ہزیمت و شکست ہوئی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
17. باب في بَيْعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
17. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا بیان
حدیث نمبر: 2490
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا يونس، عن الزهري، عن ابي إدريس، عن عبادة بن الصامت، قال: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن معه في مجلس: "بايعوني على ان لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا , ولا تقتلوا اولادكم، ولا تاتوا ببهتان تفترونه بين ايديكم وارجلكم، فمن وفى منكم، فاجره على الله، ومن اصاب من ذلك شيئا، فستره الله، فامره إلى الله، إن شاء، عاقبه، وإن شاء عفا عنه، ومن اصاب من ذلك شيئا فعوقب به في الدنيا، فهو كفارة له". قال: فبايعناه على ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مَعَهُ فِي مَجْلِسٍ: "بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا , وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ، فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، فَسَتَرَهُ اللَّهُ، فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ، عَاقَبَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ بِهِ فِي الدُّنْيَا، فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ". قَالَ: فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِكَ.
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کروگے، اور نہ عمداً کسی پر کوئی بہتان باندھو گے، پس جو کوئی تم میں سے (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے، اور کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا (یعنی زنا چوری وغیرہ سرزد ہوگئی) اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اگر چاہے تو سزا دے اور اگر چاہے تو اس کو معاف کر دے، اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں سزا دی گئی تو یہ سزا اس کے گناہ کا کفارہ ہے۔ چنانچہ ہم نے آپ سے ان باتوں پر بیعت کرلی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2497]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 18]، [مسلم 1709]، [ترمذي 1439]، [نسائي 4221]، [ابن حبان 4405]، [موارد الظمآن 1506]، [الحميدي 391]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2489)
یہ اسلامی بیعت تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک سے بچنے، اور دیگر اخلاقی برائیوں سے دور رہنے، اور اولاد کو قتل نہ کرنے کا وعدہ لیا، کیونکہ یہ برائیاں عربوں میں عام تھیں۔
اس حدیث سے حاکم یا امیر کا بیعت لینا ثابت ہوا، ہر ایک ایرا غیرا بیعت نہیں کر سکتا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے مطابق اگر کسی کو سزا مل جائے تو وہ سزا آخرت میں اس کے لئے کفارہ ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ الله تعالیٰ ہر گناہ کی سزا دے اسی طرح اللہ تعالیٰ پر ہر نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں، اگر وہ ہر گناہ پر سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف، اور گناہ معاف کر دے تو اس کی عین رحمت ہے۔
نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شانِ بے نیازی ہے، اور ثواب عطا فرما دے تو یہ اس کا عین کرم ہے، لیکن وہ ہر نیکی پر ثواب ضرور دیتا ہے: «‏‏‏‏ ﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ﴾ [الزلزال: 7] » ۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرتکبِ کبیرہ اگر بلا توبہ کئے مر جائے تو الله کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تو اس کے ایمان کی برکت سے بلا سزا دیئے ہوئے جنّت میں داخل کر دے، اور چاہے تو سزا دے کر پھر جنّت میں داخل کرے، مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے: « ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ﴾ [النساء:116] » ۔
کسی مومن کا خونِ ناحق بھی نصِ قرآنی سے یہی حکم رکھتا ہے، اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، جب تک وہ بندے ہی (جن پرظلم ہوا) معاف نہ کر دیں معافی نہیں ملے گی۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یا قطعی دوزخی کہنا جائز نہیں، یہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایمان دل میں ہے تو محض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا، مگر ایمانِ قلبی کے لئے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوتِ ایمان دینا بھی ضروری ہے، اس سے واضح ہوگیا کہ نیکی و بدی یقیناً ایمان کی کمی و بیشی پر اثر انداز ہوتی ہے، جو لوگ ایمان میں کمی و بیشی نہیں مانتے وہ غلطی پر ہیں۔
اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یا ہمیشہ کے لئے دوزخی بتلاتے ہیں (راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
18. باب في بَيْعَتِهِ أَنْ لاَ يَفِرُّوا:
18. اس بات پر بیعت کا بیان کی نہیں بھاگیں گے
حدیث نمبر: 2491
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا ليث بن سعد، عن ابي الزبير، عن جابر بن عبد الله، انه قال: "كنا يوم الحديبية الفا واربع مائة، فبايعناه وعمر آخذ بيده تحت الشجرة وهي: سمرة، وقال: بايعناه على ان لا نفر، ولم نبايعه على الموت".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: "كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ، فَبَايَعْنَاهُ وَعُمَرُ آخِذٌ بِيَدِهِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ وَهِيَ: سَمُرَةٌ، وَقَالَ: بَايَعْنَاهُ عَلَى أَنْ لَا نَفِرّ، وَلَمْ نُبَايِعْهُ عَلَى الْمَوْتِ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: حدیبیہ کے موقع پر ہم ایک ہزار چار سو آدمی تھے۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے ہوئے درخت کے (سایہ) تلے تھے، وہ سمرہ تھا (جنگلی درخت جو ریگستان میں ہوتا ہے اور غالباً اس کو کیکر کا درخت کہتے ہیں) ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہ بھاگنے کی بیعت کی ہے، مرنے کی بیعت نہیں کی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2498]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1856]، [بخاري جزء منه 4154]، [أبويعلی 1838]، [ابن حبان 4875]، [الحميدي 1312]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.