الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
سیر کے مسائل
28. باب في فِدَاءِ الأُسَارَى:
28. قیدیوں کا فدیہ لینے اور دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2502
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابي المهلب، عن عمران بن حصين: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "فادى رجلا برجلين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "فَادَى رَجُلًا بِرَجُلَيْنِ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دو آدمی کے بدلے فدیہ لے کر چھوڑ دیا (یعنی ایک کافر کو دو مسلمان قیدیوں کے عوض چھوڑ دیا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد وأبو المهلب هو: عمرو بن معاوية، [مكتبه الشامله نمبر: 2509]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 4391]، [الحميدي 851]۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں اس قیدی کا قصہ مفصل بیان کیا ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1641]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2501)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسیرانِ جنگ کا تبادلہ درست ہے، اور جمہور علماء کی یہی رائے ہے، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تبادلہ درست نہیں، ان کی رائے میں قیدی کو مار ڈالنا یا غلام بنا لینا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو قلابة هو: عبد الله بن زيد وأبو المهلب هو: عمرو بن معاوية
29. باب الْغَنِيمَةِ لاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ قَبْلَنَا:
29. مال غنیمت ہم سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھا
حدیث نمبر: 2503
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حماد، حدثنا ابو عوانة، عن سليمان، عن مجاهد، عن عبيد بن عمير، عن ابي ذر: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "اعطيت خمسا لم يعطهن نبي قبلي: بعثت إلى الاحمر والاسود، وجعلت لي الارض مسجدا وطهورا واحلت لي الغنائم، ولم تحل لاحد قبلي، ونصرت بالرعب شهرا، يرعب مني العدو مسيرة شهر. وقيل لي: سل تعطه. فاختبات دعوتي شفاعة لامتي، وهي نائلة منكم إن شاء الله تعالى من لم يشرك بالله شيئا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي: بُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ شَهْرًا، يُرْعَبُ مِنِّي الْعَدُوُّ مَسِيرَةَ شَهْرٍ. وَقِيلَ لِي: سَلْ تُعْطَهْ. فَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، وَهِيَ نَائِلَةٌ مِنْكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ لَمْ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا".
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کونہیں دی گئیں، مجھے سرخ و سیاہ ہر شخص کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے، اور میرے لئے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاک کردی گئی، اور میرے لئے غنائم (مالِ غنیمت) حلال کر دیئے گئے جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہ تھے، اور مجھے مدد دی گئی رعب سے ایک ماہ کی مسافت تک، دشمن مجھ سے ایک مہینے کی مسافت تک ڈرتا ہے، اور مجھ سے کہا گیا: مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، لیکن میں نے اپنی اس دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لئے چھپا کر رکھ لیا ہے جو ان شاء الله تم میں سے ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2510]»
اس حدیث کی سند صحیح اور اس حدیث کا شاہد متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 335]، [مسلم 521، عن جابر رضي الله عنه]، [ابن حبان 6462]، [أحمد 148/5، 61]، [الحميدي 975]، [البزار 3461، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2502)
اس حدیث میں پانچ خصوصیات ذکر کی گئی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی پیغمبر کو نہیں ملیں: (1) پہلے نبی ہر قوم کے لئے خاص ہوتا تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سب اقوام جن و انسان کے لئے عام ہے: « ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ﴾ [سبأ: 28] » احمر اور اسود سے مراد روئے زمین کے تمام افراد ہیں چاہے گورے ہوں یا کالے، سرد ملکوں کے لوگ سرخ گورے اور گرم ملکوں کے باشندے کالے ہوتے ہیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سب کے لئے عام ہے۔
(2) ساری زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سجدہ گاہ بنادی گئی، اب جہاں کہیں بھی نماز کا وقت ہو جائے، پانی بھی نہ ملے تو تیمّم کر کے ہر پاک زمین پر نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
(3) مالِ غنیمت پہلی امتوں کے لئے حلال نہ تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے حلال کر دیا گیا۔
(4) ایک ایک ماہ کی مسافت تک دشمن کے دلوں میں خوف ڈال دیا گیا۔
(5) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت عطا کی گئی جو روزِ محشر کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچا کر اپنی امت کے لئے رکھ لی ہے، جس وقت سارا عالم پریشانی میں مبتلا ہوگا، نفسی نفسی اور اللہم سلم سلم ہر فرد پکار رہا ہوگا، اور کسی بھی رسول یا نبی کو شفاعت کی جرأت نہ ہوگی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم الله تعالیٰ کی اجازت سے سفارش کریں گے اور وہ قبول کی جائے گی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
30. باب قِسْمَةِ الْغَنَائِمِ في بِلاَدِ الْعَدُوِّ:
30. دشمن کی سرزمین پر مال غنیمت کی تقسیم کا بیان
حدیث نمبر: 2504
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن عاصم، عن ابي وائل، قال: "قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائم حنين بالجعرانة". قال عبد الله: عبد الله بن مسعود في الإسناد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: "قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ بِالْجِعِرَّانَةِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فِي الْإِسْنَادِ.
سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے مالِ غنیمت کو جعرانہ میں تقسیم کیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس کی اسناد میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2511]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 427/1]، [أبويعلی 4992]، [ابن حبان 6576]۔ مزید دیکھئے: [فتح الباري 521/6]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2503)
غزوۂ حنین طائف کی وادیوں میں تھا، اور جعرانہ طائف اور مکہ کے درمیان ایک مقام ہے، اس جگہ تقسیمِ غنائم سے یہ نکلا کہ دشمن کی سرزمین پر بھی غنائم کی تقسیم کی جاسکتی ہے، ضروری نہیں کہ اپنے مستقر پر پہنچ کر غنائم تقسیم کئے جائیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
31. باب في قِسْمَةِ الْغَنَائِمِ كَيْفَ تُقَسَّمُ:
31. مال غنیمت کس طرح تقسیم کیا جائے؟
حدیث نمبر: 2505
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن جعفر الرقي، حدثنا عبيد الله بن عمرو، عن زيد، عن الحكم، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابيه، قال: "شهدت فتح خيبر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فانهزم المشركون، فوقعنا في رحالهم، فابتدر الناس ما وجدوا من جزور. قال: فلم يكن ذلك باسرع من ان فارت القدور فامر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فاكفئت. قال: ثم قسم بيننا رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعل لكل عشرة شاة. قال: وكان بنو فلان معه تسعة، وكنت وحدي فالتفت إليهم فكنا عشرة بيننا شاة"، قال عبد الله: بلغني ان صاحبكم يقول: عن قيس بن مسلم: كانه يقول: إنه لم يحفظه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "شَهِدْتُ فَتْحَ خَيْبَرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، فَوَقَعْنَا فِي رِحَالِهِمْ، فَابْتَدَرَ النَّاسُ مَا وَجَدُوا مِنْ جَزُورٍ. قَالَ: فَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ بِأَسْرَعَ مِنْ أَنْ فَارَتِ الْقُدُورُ فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُكْفِئَتْ. قَالَ: ثُمَّ قَسَمَ بَيْنَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ لِكُلِّ عَشْرَةٍ شَاةً. قَالَ: وَكَانَ بَنُو فُلَانٍ مَعَهُ تِسْعَةً، وَكُنْتُ وَحْدِي فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِمْ فَكُنَّا عَشْرَةً بَيْنَنَا شَاةٌ"، قَالَ عَبْد اللَّهِ: بَلَغَنِي أَنَّ صَاحِبَكُمْ يَقُولُ: عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ: كَأَنَّهُ يَقُولُ: إِنَّهُ لَمْ يَحْفَظْهُ.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا: میں خیبر کی فتح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ مشرکین کو شکست ہوئی۔ ہم ان کی قیام گاہوں پر قابض ہو گئے تو لوگوں نے جو اونٹ پائے ان کی طرف جلد بازی کی اور فوراً ہی ہانڈیوں میں ابالنے لگے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور تمام ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان (گوشت کی) تقسیم کی اور ہر دس آدمی میں ایک بکری عطا کی، ابولیلیٰ نے کہا: بنوفلاں صرف نو تھے اور میں اکیلا تھا، چنانچہ میں ان کی طرف متوجہ ہوا اور ہم دس افراد ہو گئے، ہمارے لئے بھی (تناول کرنے کو) ایک بکری تھی۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: مجھے خبر لگی ہے کہ زید بن ابی انیسہ نے یہ روایت قیس بن مسلم سے روایت کی، ان کا مقصد تھا کہ زید کو یاد نہ رہا (یہ روایت حکم سے ہے) (لیکن امام دارمی رحمہ اللہ کا یہ استغراب محل نظر ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے زید نے حکم سے بھی سنا ہو اور قیس بن مسلم سے بھی سنا ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2512]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن امام دارمی رحمہ اللہ نے اسے معلول گردانا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2506
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا زكريا بن عدي، عن عبيد الله بن عمرو، عن زيد وهو ابن ابي انيسة، عن قيس بن مسلم، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، قال: فالفت إليهم. قال ابو محمد: الصواب عندي ما قال زكريا في الإسناد.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدٍ وهُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ: فَأُلِّفْتُ إِلَيْهِمْ. قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: الصَّوَابُ عِنْدِي مَا قَالَ زَكَرِيَّا فِي الْإِسْنَادِ.
زید بن ابی انیسہ نے قیس بن مسلم سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلی سے، انہوں نے اپنے والد سے ایسے ہی روایت کیا اور فرمایا: میں ان کی طرف متوجہ ہوگیا (یعنی 9 افراد کی طرف)۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: زکریا بن عدی والی سند میرے نزدیک درست ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2513]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 348/4]، [طبراني فى الأوسط 509]، [أبويعلی 930]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2504 سے 2506)
اس حدیث سے معلوم ہوا جب تک مالِ غنیمت تقسیم نہ ہو جائے اس سے کچھ بھی لینا درست نہیں، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہانڈیوں کو الٹنے کا حکم دیا تھا کہ بلا اجازت تقسیم سے پہلے اونٹ یا اور کوئی جانور ذبح کئے گئے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دس آدمی پر ایک بکری تقسیم کی تاکہ اسے ذبح کریں اور کھائیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
32. باب سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى:
32. جنگ میں قرابت داروں کے حصے کا بیان
حدیث نمبر: 2507
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا جرير بن حازم، حدثني قيس بن سعد، عن يزيد بن هرمز، قال: كتب نجدة بن عامر إلى ابن عباس يساله عن اشياء، فكتب إليه:"إنك سالت عن سهم ذي القربى الذي ذكر الله، وإنا كنا نرى ان قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم هم، فابى ذلك علينا قومنا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ بَنُ عَامِرٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ:"إِنَّكَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ، وَإِنَّا كُنَّا نَرَى أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا".
یزید بن ہرمز نے کہا: نجده بن عامر نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس لکھ کر کچھ چیزوں کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا، چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب میں لکھا کہ تم نے قرابت داروں کے حصے کے بارے میں دریافت کیا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے (قرآن میں) کیا ہے؟ ہم سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار وہی رشتہ دار ہیں (یعنی ہم لوگ) لیکن ہماری قوم نے اس کا انکار کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو النعمان هو: محمد بن الفضل، [مكتبه الشامله نمبر: 2514]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1812]، [أبوداؤد 2727]، [ترمذي 1556]، [أبويعلی 2550]، [ابن حبان 4824]، [الحميدي 542]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2506)
مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ الله، اور اس کے رسول، اور ان کے قرابت داروں کا ہے، اور باقی چار حصے مجاہدین کے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ﴾ [الأنفال: 41] » اس آیت میں ذی القربیٰ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناطے دار، سیدنا عباس اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہم ہیں، لیکن نسائی شریف میں مزید وضاحت ہے: «كَتَبْتَ تَسْأَلُنِيْ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَىٰ لِمَنْ هُوَ؟ وَهُوَ لَنَا أَهْلُ الْبَيْتِ .....» نیز اس میں تفصیل ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مالِ غنیمت کے لئے ہمیں بلایا اور ہمارے حق سے کم دینا چاہا تو ہم نے (اہلِ بیت نے) اس کے لینے سے انکار کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سہم خلیفہ اور بیت المال کے لئے ہے۔
لیکن سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے اس کے لینے سے انکار کر دیا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو النعمان هو: محمد بن الفضل
33. باب في سُهْمَانِ الْخَيْلِ:
33. گھوڑے کے حصے کا بیان
حدیث نمبر: 2508
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن عيسى، حدثنا محمد بن خازم ابو معاوية، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "اسهم يوم خيبر للفارس ثلاثة اسهم، وللراجل سهما".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَسْهَمَ يَوْمَ خَيْبَرَ لِلْفَارِسِ ثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ، وَلِلرَّاجِلِ سَهْمًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھوڑ سوار کو تین اور پیدل کو ایک حصہ (غنیمت میں سے) دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2515]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2863]، [مسلم 1762]، [أبوداؤد 2733]، [ترمذي 1554]، [ابن ماجه 2854]، [ابن حبان 4810]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2509
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، نحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوَهُ.
اس طریق سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2516]»
اس کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2507 سے 2509)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سوار کے تین حصے اور پیدل کا ایک حصہ ہے۔
بخاری شریف میں ہے کہ دو حصے گھوڑے کے اور ایک حصہ گھوڑے کے مالک کا۔
اگر کئی گھوڑے اس کے پاس ہوں تب بھی تین ہی حصے مالِ غنیمت سے ملیں گے۔
اور گھوڑے کا حصہ زیادہ اس لئے رکھا گیا کہ اس کی دیکھ بھال اور خوراک پر کافی خرچ کرنا پڑتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
34. باب في الذي يَقْدَمُ بَعْدَ الْفَتْحِ هَلْ يُسْهَمُ لَهُ:
34. کوئی شخص فتح حاصل ہونے کے بعد شریک ہو، کیا اس کو حصہ دیا جائے گا؟
حدیث نمبر: 2510
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن عمار بن ابي عمار، عن ابي هريرة، قال: "ما شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مغنما إلا قسم لي، إلا يوم خيبر، فإنها كانت لاهل الحديبية خاصة، وكان ابو موسى وابو هريرة جاءا بين الحديبية وخيبر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "مَا شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَغْنَمًا إِلَّا قَسَمَ لِي، إِلا يَوْمَ خَيْبَرَ، فَإِنَّهَا كَانَتْ لِأَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ خَاصَّةً، وَكَانَ أَبُو مُوسَى وَأَبُو هُرَيْرَةً جَاءَا بَيْنَ الْحُدَيْبِيَةِ وَخَيْبَرَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس مالِ غنیمت کی تقسیم کے وقت بھی حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حصہ دیا سوائے یومِ خیبر کے جو صرف حدیبیہ والوں کے لئے خاص تھا، اور سیدنا ابوموسیٰ و سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما حدیبیہ اور خیبر کے درمیان آ ئے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف علي بن زيد وهو: ابن جدعان، [مكتبه الشامله نمبر: 2517]»
یہ روایت علی بن زید بن جدعان کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أحمد 535/2] و [المعرفة و التاريخ للفسوي 160/3]۔ نیز یہ روایت خلافِ واقع ہے کیونکہ سیدنا ابوموسیٰ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما خیبر فتح ہونے کے بعد خیبر میں پہنچے تھے۔ اسی طرح سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی حبشہ سے آئے تھے اور ان سب کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ دیا تھا۔ بعض علماء نے کہا: ان سب کو حصہ اس لئے دیا تھا کیونکہ اس وقت تک مالِ غنیمت تقسیم نہیں ہوا تھا، اور بعض نے کہا کہ اس خمس میں سے دیا تھا جو اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے، اور بعض نے کہا: کیونکہ یہ حضرات بڑی مشقت و مصیبتیں برداشت کر کے خیبر آئے تھے اس لئے ان کو حصہ دیا گیا۔ (وحیدی - [شرح سنن أبى داؤد 2725])

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف علي بن زيد وهو: ابن جدعان
35. باب في سِهَامِ الْعَبِيدِ وَالصِّبْيَانِ:
35. مال غنیمت میں غلام اور بچوں کے سہم (حصے) کا بیان
حدیث نمبر: 2511
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن خليل، اخبرنا حفص، حدثنا محمد بن زيد، عن عمير مولى آبي اللحم، قال: شهدت خيبر وانا عبد مملوك فاعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم من خرثي المتاع، واعطاني سيفا، فقال: "تقلد بهذا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا حَفْصٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: شَهِدْتُ خَيْبَرَ وَأَنَا عَبْدٌ مَمْلُوكٌ فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ، وَأَعْطَانِي سَيْفًا، فَقَالَ: "تَقَلَّدْ بِهَذَا".
عمیر ابواللحم کے آزاد کردہ غلام نے کہا: میں جب (جنگ) خیبر میں حاضر ہوا اس وقت (اپنے مالک کا) غلام تھا، چنانچہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانگی اسباب میں سے ایک تلوار عطا فرمائی اور فرمایا: اسے لٹکا لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2518]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2730]، [ترمذي 1557]، [ابن ماجه 2855]، [ابن حبان 4831]، [موارد الظمآن 1669]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2509 سے 2511)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالِ غنیمت میں سے غلاموں کا کوئی حصہ نہیں۔
ہاں انعام کے طور پر انہیں کچھ دیا جا سکتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر کو تلوار عطا فرمائی، اسی طرح بچے اور عورتوں کا بھی مالِ غنیمت میں سے کوئی حصہ نہیں ہے، انہیں انعام کے طور پر کچھ دیا جائے گا۔
جمہور علماء اور اہلِ حدیث کا یہی مسلک ہے، جیسا کہ ابوداؤد میں تشریح ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.