الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
تقدیر کا بیان
The Book of Destiny
حدیث نمبر: 6733
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وابو سعيد الاشج ، قالوا: حدثنا وكيع . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا الاعمش . ح وحدثنا ابو كريب واللفظ له، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم جالسا وفي يده عود ينكت به، فرفع راسه، فقال: " ما منكم من نفس إلا وقد علم منزلها من الجنة والنار، قالوا: يا رسول الله، فلم نعمل افلا نتكل؟ قال: لا، اعملوا فكل ميسر لما خلق له، ثم قرا: فاما من اعطى واتقى {5} وصدق بالحسنى {6} سورة الليل آية 5-6 إلى قوله فسنيسره للعسرى سورة الليل آية 10 ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: " مَا مِنْكُمْ مِنْ نَفْسٍ إِلَّا وَقَدْ عُلِمَ مَنْزِلُهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلِمَ نَعْمَلُ أَفَلَا نَتَّكِلُ؟ قَالَ: لَا، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} سورة الليل آية 5-6 إِلَى قَوْلِهِ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى سورة الليل آية 10 ".
وکیع، عبداللہ بن نمیر اور ابومعاویہ نے کہا: ہمیں اعمش نے سعد بن عبیدہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ نے اپنا سر اقدس اٹھا کر فرمایا: "تم میں سے کوئی ذی روح نہیں مگر جنت اور دوزخ میں اس کا مقام (پہلے سے) معلوم ہے۔" انہوں (صحابہ) نے عرض کی: اللہ کے رسول! پھر ہم کس لیے عمل کریں؟ ہم اسی (لکھے ہوئے) پر تکیہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، تم عمل کرو، ہر شخص کے لیے اسی کی سہولت میسر ہے جس (کو خود اپنے عمل کے ذریعے حاصل کرنے) کے لیے اس کو پیدا کیا گیا۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: "تو وہ شخص جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور اچھی بات کی تصدیق کی" سے لے کر "تو ہم اسے مشکل زندگی (تک جانے) کے لیے سہولت دیں گے" تک پڑھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف فر تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، جس سے آپ کرید رہے تھےچنانچہ آپ نے سر اٹھا کر فرمایا:"تم میں سے ہر جاندار (شخص کی جگہ جنت اور دوزخ میں جانی جا چکی ہے۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو پھر عمل کس لیے ہیں؟ تو کیا ہم بھروسہ نہ کر لیں؟آپ نے فرمایا:"نہیں عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کو اس کی توفیق ملے گی۔جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔"پھر آپ نے پڑھا۔"جس نے اللہ کی راہ میں تقوی اختیار کیا، اچھی بات (دعوت اسلام قبول کر لیا تو ہم اس کے لیے دشواری اور تکلیف والی زندگی (دوزخ) کی طرف چلنا آسان کردیں گے۔"(اللیل آیت نمبر5تا10)
حدیث نمبر: 6734
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، والاعمش ، انهما سمعا سعد بن عبيدةيحدثه، عن ابي عبد الرحمن السلمي ، عن علي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنحوه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَالْأَعْمَشِ ، أَنَّهُمَا سَمِعَا سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَيُحَدِّثُهُ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
ہمیں شعبہ نے منصور اور اعمش سے حدیث بیان کی، ان دونوں نے سعد بن عبیدہ سے سنا، وہ ابوعبدالرحمٰن سلمی سے، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کر رہے تھے۔
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے اس کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 6735
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن يونس ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو الزبير . ح وحدثنا يحيي بن يحيي ، اخبرنا ابو خيثمة ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: جاء سراقة بن مالك بن جعشم، قال: يا رسول الله، بين لنا ديننا كانا خلقنا الآن، فيما العمل اليوم؟ افيما جفت به الاقلام وجرت به المقادير؟ ام فيما نستقبل؟ قال: لا، بل فيما جفت به الاقلام وجرت به المقادير، قال: ففيم العمل، قال زهير: ثم تكلم ابو الزبير بشيء لم افهمه، فسالت ما قال؟ فقال: اعملوا، فكل ميسر ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جَاءَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَيِّنْ لَنَا دِينَنَا كَأَنَّا خُلِقْنَا الْآنَ، فِيمَا الْعَمَلُ الْيَوْمَ؟ أَفِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ؟ أَمْ فِيمَا نَسْتَقْبِلُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ فِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ، قَالَ: فَفِيمَ الْعَمَلُ، قَالَ زُهَيْرٌ: ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو الزُّبَيْرِ بِشَيْءٍ لَمْ أَفْهَمْهُ، فَسَأَلْتُ مَا قَالَ؟ فَقَالَ: اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ ".
ابوخیثمہ زہیر (بن حرب) نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے دین کو اس طرح بیان کیجئے، گویا ہم ابھی پیدا کیے گئے ہیں، آج کا عمل (جو ہم کر رہے ہیں) کس نوع میں آتا ہے؟ کیا اس میں جسے (لکھنے والی) قلمیں (لکھ کر) خشک ہو چکیں اور جو پیمارنے مقرر کیے گئے ہیں ان کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے (ہم بس انہی کے مطابق عمل کیے جا رہے ہیں؟) یا اس میں جو ہم از سر نو کر رہے ہیں (پہلے سے ان کے بارے میں کچھ طے نہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ جسے لکھنے والی قلمیں (لکھ کر) خشک ہو چکیں اور جن کے مقرر شدہ پیمانوں کے مطابق عمل شروع ہو چکا۔" انہوں نے کہا: تو پھر عمل کس لیے (کیا جائے؟) زہیر نے کہا: پھر اس کے بعد ابوزبیر نے کوئی بات کی جو میں نہیں سمجھ سکا، تو میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا: (آپ نے فرمایا:) "تم عمل کرو، ہر ایک کو سہولت میسر کی گئی ہے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر دریافت کیا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے ہمارا دین (دستور زندگی)اس طرح بیان فرمائیں گویا ہم ابھی پیدا ہوئے ہیں (ہمیں کسی چیز کا پتہ نہیں)آج کل جو ہم کر رہے اس کی کیا صورت ہے؟ کیا یہ ان چیزوں میں سے ہے جسے قلم لکھ کر خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر طے ہو چکی ہے یا ہم نئے سرے سے کر رہے ہیں (تقدیر کا دخل نہیں ہے) آپ نے فرمایا:"نہیں بلکہ ان امور میں سے ہے جو قلم لکھ کر خشک ہو چکے ہیں اور تقدیر (فیصلہ) طے ہو چکا ہے۔"انھوں نے عرض کیا:تو پھر عمل کی کیا حیثیت؟ زہیر کہتے ہیں، پھر ابو زبیر نے کوئی بات کہی جو میں سمجھ نہ سکا تو میں نے پوچھا کیا کہا؟ انھوں نے کہا،آپ نے فرمایا:"عمل کرتے رہو ہر ایک کے لیے آسان کردئیے جائیں گے۔"
حدیث نمبر: 6736
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بهذا المعنى وفيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل عامل ميسر لعمله.حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْمَعْنَى وَفِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ عَامِلٍ مُيَسَّرٌ لِعَمَلِهِ.
عمرو بن حارث نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی معنی میں روایت کی اور اس میں یہ الفاظ ہیں: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر عمل کرنے والا اپنے عمل کے لیے آسانی پاتا ہے۔"
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے ہم معنی روایت کرتے ہیں، اس میں ہے، آپ نے فرمایا:"ہر عمل کرنے والے کے لیے اس کا عمل آسان کر دیا جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 6737
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، اخبرنا حماد بن زيد ، عن يزيد الضبعي ، حدثنا مطرف ، عن عمران بن حصين ، قال: قيل: يا رسول الله، اعلم اهل الجنة من اهل النار؟ قال: فقال: نعم، قال: قيل: ففيم يعمل العاملون؟ قال: " كل ميسر لما خلق له ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ الضُّبَعِيِّ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ: فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قِيلَ: فَفِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: " كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ ".
حماد بن زید نے یزید ضبعی سے روایت کی، کہا: ہمیں مطرف نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کیا یہ معلوم ہے کہ جہنم والوں سے (الگ) جنت والے کون ہیں؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔" کہا: عرض کی گئی: تو پھر عمل کرنے والے کس لیے عمل کریں؟ آپ نے فرمایا: "ہر ایک کو اسی (منزل کی طرف جانے) کی سہولت میسر کر دی جاتی ہے جس (تک اپنے اعمال کے ذریعے پہنچنے) کے لیے اسے پیدا کیا گیا تھا۔"
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، پوچھا گیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا ہل جنت اور اہل دوزخ سے الگ جان لیے گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:"ہاں۔"پوچھا گیا تو پھر عمل کرنے والے عمل کس کی خاطر کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:"ہر ایک کے لیے وہ عمل آسان کر دئیے گئے ہیں جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔"
حدیث نمبر: 6738
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا عبد الوارث . ح وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، وابن نمير ، عن ابن علية . ح وحدثنا يحيي بن يحيي ، اخبرنا جعفر بن سليمان . ح وحدثنا ابن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة كلهم، عن يزيد الرشك ، في هذا الإسناد بمعنى حديث حماد، وفي حديث عبد الوارث، قال: قلت: يا رسول الله.حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ كُلُّهُمْ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمَعْنَى حَدِيثِ حَمَّادٍ، وَفِي حَدِيثِ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ.
عبدالوارث، ابن علیہ، جعفر بن سلیمان اور شعبہ سب نے یزید رشک سے اسی سند کے ساتھ حماد کی حدیث کے ہم معنی روایت کی اور عبدالوارث کی حدیث میں (عرض کی گئی کے بجائے) اس طرح ہے: (عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول!
امام صاحب یہی روایت مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں عبدالوارث رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث یہی ہے میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
حدیث نمبر: 6739
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، حدثنا عثمان بن عمر ، حدثنا عزرة بن ثابت ، عن يحيي بن عقيل ، عن يحيي بن يعمر ، عن ابي الاسود الديلي ، قال: قال لي عمران بن الحصين : " ارايت ما يعمل الناس اليوم ويكدحون فيه اشيء قضي عليهم، ومضى عليهم من قدر ما سبق؟ او فيما يستقبلون به مما اتاهم به نبيهم وثبتت الحجة عليهم؟ فقلت: بل شيء قضي عليهم ومضى عليهم، قال: فقال: افلا يكون ظلما؟ قال: ففزعت من ذلك فزعا شديدا، وقلت: كل شيء خلق الله وملك يده فلا يسال عما يفعل وهم يسالون، فقال لي: يرحمك الله، إني لم ارد بما سالتك إلا لاحزر عقلك، إن رجلين من مزينة اتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالا: يا رسول الله، ارايت ما يعمل الناس اليوم ويكدحون فيه اشيء قضي عليهم ومضى فيهم من قدر قد سبق؟ او فيما يستقبلون به مما اتاهم به نبيهم وثبتت الحجة عليهم؟ فقال: لا، بل شيء قضي عليهم ومضى فيهم وتصديق ذلك في كتاب الله عز وجل: ونفس وما سواها {7} فالهمها فجورها وتقواها {8} سورة الشمس آية 7-8 ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ : " أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ أَشَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ، وَمَضَى عَلَيْهِمْ مِنْ قَدَرِ مَا سَبَقَ؟ أَوْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُونَ بِهِ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِيُّهُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ؟ فَقُلْتُ: بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى عَلَيْهِمْ، قَالَ: فَقَالَ: أَفَلَا يَكُونُ ظُلْمًا؟ قَالَ: فَفَزِعْتُ مِنْ ذَلِكَ فَزَعًا شَدِيدًا، وَقُلْتُ: كُلُّ شَيْءٍ خَلْقُ اللَّهِ وَمِلْكُ يَدِهِ فَلَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ، فَقَالَ لِي: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، إِنِّي لَمْ أُرِدْ بِمَا سَأَلْتُكَ إِلَّا لِأَحْزِرَ عَقْلَكَ، إِنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ مُزَيْنَةَ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ أَشَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فِيهِمْ مِنْ قَدَرٍ قَدْ سَبَقَ؟ أَوْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُونَ بِهِ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِيُّهُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ: لَا، بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضَى فِيهِمْ وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا {7} فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا {8} سورة الشمس آية 7-8 ".
یحییٰ بن یعمر نے ابو اسود دیلی سے روایت کی، کہا: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ جو عمل لوگ آج کر رہے ہیں اور اس میں مشقت اٹھا رہے ہیں، کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا اور پہلے ہی سے مقدر ہے جو ان میں جاری ہو چکا ہے یا وہ نئے سرے سے ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، جس طرح اسے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس لائے ہیں اور ان پر حجت قائم ہوئی ہے؟ میں نے جواب دیا: بلکہ جس طرح ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور اس کا سلسلہ ان میں جاری ہے۔ (دیلی نے) کہا: تو (عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو کیا یہ ظلم نہیں؟ (دیلی نے) کہا: تو اس بات پر میں سخت خوفزدہ اور پریشان ہو کیا اور میں نے کہا: ہر چیز اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی ملکیت ہے۔ جو بھی وہ کرے اس سے پوچھا نہیں جا سکتا اور وہ (اس کے مملوک بندے) جو کریں ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تم پر رحم کرے! میں نے جو تم سے پوچھا صرف اسی لیے پوچھا تھا تاکہ تمہاری عقل کا امتحان لوں۔ مزینہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کس طرح دیکھتے ہیں، لوگ جو عمل آج کر رہے اور اس میں مشقت اٹھا رہے ہیں کوئی ایسی چیز ہے جا کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا اور پہلے سے مقدر ہے جو ان میں جاری ہو چکی ہے یا وہ اب ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے، جس طرح اسے ان کے رسول ان کے پاس لائے ہیں اور ان پر حجت تمام ہوئی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ بلکہ ایسی چیز ہے جو ان کے بارے میں طے ہو گئی ہے اور ان میں جاری ہو چکی، اور اس کی تصدیق اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے: "اور نفس انسانی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کو ٹھیک بنایا! پھر اس کو اس کی بدی بھی الہام کر دی اور نیکی بھی۔"
ابو الاسود ولی کہتے ہیں،مجھے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا جانتے ہو؟آج لوگ جو عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو مشقت برداشت کر رہے ہیں،کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان کے بارے میں فاصلہ کر دیا گیا ہے وہ سابقہ تقدیر سے یہ طے ہو چکے ہیں؟یا ان کا نبی جو شریعت لایا اور ان پر حجت قائم ہو گئی ہے، اس کی روشنی میں نئے سرے سے ہو رہے ہیں؟ تو میں نے کہا بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور ان کے لیے طے ہو چکی ہے تو انھوں نے بھگتنی ہے) چنانچہ میں اس سے بہت زیادہ گھبرا گیا اور میں نے کہا، ہر چیز اللہ کی پیدا کردہ ہے اور اس کی مملوک ہے، اس لیے اس سے اس کے فعل کے بارے میں پوچھا۔نہیں جا سکتا اور مخلوق سے پوچھا جائے گا تو حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے کہا:اللہ تم پر رحم فرمائے میں نے تجھ سے سوال محض تیرے عقل و شعور کا اندازہ لگانے کے لیے کیا مزینہ قبیلہ کے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بتائیے لوگ آج جو عمل کر رہے ہیں اور اس کے لیے جو محنت و مشقت کر رہے ہیں کیا یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور سابقہ تقدیر سے ان کے بارے میں طے ہو چکا ہے یا نئے سرے سے کر رہے ہیں،اس شریعت کی روشنی میں جو ان کا نبی ان کے پاس لایا ہے اور ان پر حجت قائم ہو چکی ہے؟ تو آپ نے فرمایا:"نہیں بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کا ان کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے اور ان کے بارے میں طے ہو چکی ہے اور اس کی تصدیق اللہ برتر اور بزرگ کی کتاب میں موجود ہے اور شاید ہے نفس اور اس کا نوک پلک سنوارنا کہ اس کا اسے اس کی بدی اور تقوی کا الہام فرمانا۔(الشمس آیت نمبر7،8)
حدیث نمبر: 6740
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد ، عن العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الرجل ليعمل الزمن الطويل بعمل اهل الجنة، ثم يختم له عمله بعمل اهل النار، وإن الرجل ليعمل الزمن الطويل بعمل اهل النار، ثم يختم له عمله بعمل اهل الجنة ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيلَ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِيلَ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُخْتَمُ لَهُ عَمَلُهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ".
علاء کے والد (عبدالرحمٰن) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ انسان ایک لمبی مدت تک اہل جنت کے سے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے لیے اس کے عمل کا خاتمہ اہل جہنم کے سے عمل پر ہوتا ہے اور بلاشبہ ایک آدمی لمبا زمانہ اہل جہنم کے سے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے لیے اس کے عمل کا خاتمہ اہل جنت کے سے عمل پر ہوتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک انسان عرصہ دراز تک اہل جنت والے کام کرتا رہتا ہے:"پھر اس کے عملوں کا خاتمہ اہل ناروالے عمل پر ہوتا ہے اور ایک انسان ایک طویل مدت تک دوزخیوں والے عمل کرتا رہتا ہے، پھر اس کے عملوں کا خاتمہ جنتیوں والے عمل پر ہو جاتا ہے۔"
حدیث نمبر: 6741
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب يعني ابن عبد الرحمن القاري ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد الساعدي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الرجل ليعمل عمل اهل الجنة فيما يبدو للناس وهو من اهل النار، وإن الرجل ليعمل عمل اهل النار فيما يبدو للناس، وهو من اهل الجنة ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ".
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک شخص، جس طرح وہ لوگوں کو نظر آ رہا ہوتا ہے، اہل جنت کے سے عمل کر رہا ہوتا ہے، لیکن (آخر کار) وہ اہل جہنم میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی، جس طرح سے وہ لوگوں کو نظر آ رہا ہوتا ہے اہل جہنم کے سے عمل کر رہا ہوتا ہے لیکن (انجام کار) وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔"
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک انسان اہل جنت والے عمل کرتا رہتا ہے، لوگوں کے سامنے کے حالات کے اعتبار سے، حالانکہ وہ اہل نار سے ہوتا ہے اور ایک انسان لوگوں کے سامنے کے حالات کے اعتبار سے دوزخیوں والے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔"
2. باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ:
2. باب: سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ۔
حدیث نمبر: 6742
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن حاتم ، وإبراهيم بن دينار ، وابن ابي عمر المكي ، واحمد بن عبدة الضبي جميعا، عن ابن عيينة ، واللفظ لابن حاتم، وابن دينار، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو ، عن طاوس ، قال: سمعت ابا هريرة ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احتج آدم، وموسى، فقال موسى: يا آدم انت ابونا خيبتنا واخرجتنا من الجنة، فقال له آدم: انت موسى اصطفاك الله بكلامه وخط لك بيده، اتلومني على امر قدره الله علي قبل ان يخلقني باربعين سنة؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: فحج آدم موسى، فحج آدم موسى ". وفي حديث ابن ابي عمر، وابن عبدة، قال احدهما: خط، وقال الآخر: كتب لك التوراة بيده.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، وأحمد بن عبدة الضبي جميعا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ، وَابْنِ دِينَارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَجَّ آدَمُ، وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى ". وَفِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عُمَرَ، وَابْنِ عَبْدَةَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: خَطَّ، وقَالَ الْآخَرُ: كَتَبَ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ.
محمد بن حاتم، ابراہیم بن دینار، ابن ابی عمر مکی اور احمد بن عبدہ ضبی نے ہمیں ابن عیینہ سے حدیث بیان کی، الفاظ ابن حاتم اور ابن دینار کے ہیں۔۔ ان دونوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عمرو (بن دینار) سے حدیث بیان کی، انہوں نے طاوس سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام نے (ایک دوسرے کو) اپنی اپنی دلیلیں دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آدم! آپ ہمارے والد ہیں، آپ نے ہمیں ناکام کر دیا اور ہمیں جنت سے باہر نکال لائے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: تم موسیٰ ہو، تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب فرمایا اور اپنے ہاتھ سے تمہارے لیے (اپنے احکام کو) لکھا، کیا تم مجھے اس بات پر ملامت کر رہے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں مجھے پیدا کرنے سے بھی چالیس سال پہلے مقدر کر دیا تھا؟" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو حضرت آدم علیہ السلام (دلیل میں) حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے، حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔" ابن ابی عمر اور ابن عبدہ کی حدیث میں ہے کہ ایک نے کہا: "لکھا" اور دوسرے نے کہا: "تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم اور موسیٰ ؑ کا مباحثہ ہو تو موسیٰ ؑ نے کہا، اے آدم ؑ! آپ ہمارے باپ ہیں آپ نے ہمیں ناکام کیا اور آپ نے ہمیں جنت سے نکلوادیا تو آدم ؑ نے انہیں جواب دیا،آپ موسیٰ ؑ ہیں اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف بخشا اور اپنے ہاتھ سے تجھے لکھ کر دیا۔کیا آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہیں، جس کا اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے بارے میں فیصلہ کر دیا تھا؟"چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدم ؑ، موسیٰ ؑ پر غالب آگئے، آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔"ابن ابی عمر اور ابن عبدہ میں سے ایک نے کہا خط (لکھ دیا) دوسرے نے کہا تجھے توراۃ اپنے ہاتھ سے لکھ کر دی۔

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.