(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، عن إسماعيل، عن عامر، عن عبد الله بن عمرو، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”(حقیقی اور کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور (حقیقی) مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے“۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے جیسی نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ اعمال اسلام کے مظاہر اور شرائط ہیں۔ یہ حقیقی بھی ہو سکتے ہیں اور بناوٹی بھی، اگر حقیقی ہوں گے تو یہ ایمان کامل کے مظاہر ہوں گے، اور اگر بناوٹی ہوں گے تو نفاقاً ہو گا، اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ جو صرف ان چند متعین اور خاص اعمال کو انجام دے لے وہ مسلمان ہو گیا، یہ باتیں خاص طور پر اس وقت کے یہود و نصاریٰ کے تناظر میں کہی گئی ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کی طرح نماز نہیں پڑھتے تھے، مسلمانوں کے قبلے کی طرف نماز نہیں پڑھتے تھے، اور نہ ہی مسلمانوں کا ذبیحہ کھاتے تھے۔ آج کل کی دیگر غیر مسلم قومیں بھی ایسا نہیں کرتیں، اور بعض نام نہاد مسلمان ان سب اعمال کو انجام دے کر بھی شرک میں مبتلا ہیں تو یہ بھی مسلم نہیں ہیں۔ مگر ان کے ساتھ حرب و مقاطعہ جیسے معاملات سو فیصد اس طرح نہیں کیے جائیں گے جس طرح کھلم کھلا کفار و مشرکین کے ساتھ کیے جاتے ہیں، ان کے لیے دعوت الی الحق اور وعظ و نصیحت ہو گی جب کہ یہود و نصاریٰ اور ہنود و مشرکین کے ساتھ جہاد و قتال ہو گا۔
(مرفوع) اخبرني احمد بن المعلى بن يزيد، قال: حدثنا صفوان بن صالح، قال: حدثنا الوليد، قال: حدثنا مالك، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اسلم العبد فحسن إسلامه كتب الله له كل حسنة كان ازلفها، ومحيت عنه كل سيئة كان ازلفها، ثم كان بعد ذلك القصاص , الحسنة بعشرة امثالها إلى سبع مائة ضعف، والسيئة بمثلها إلا ان يتجاوز الله عز وجل عنها". (مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْمُعَلَّى بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَسْلَمَ الْعَبْدُ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ كُلَّ حَسَنَةٍ كَانَ أَزْلَفَهَا، وَمُحِيَتْ عَنْهُ كُلُّ سَيِّئَةٍ كَانَ أَزْلَفَهَا، ثُمَّ كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ الْقِصَاصُ , الْحَسَنَةُ بِعَشْرَةِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَالسَّيِّئَةُ بِمِثْلِهَا إِلَّا أَنْ يَتَجَاوَزَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی بندہ اسلام قبول کر لے اور اچھی طرح مسلمان ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نیکی لکھ لیتا ہے جو اس نے کی ہو اور اس کی ہر برائی مٹا دی جاتی ہے جو اس نے کی ہو، پھر اس کے بعد یوں ہوتا ہے کہ بھلائی کا بدلہ اس کے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہوتا ہے، اور برائی کا بدلہ اتنا ہی ہوتا ہے“(جتنی اس نے کی) سوائے اس کے کہ اللہ معاف ہی کر دے (تو کچھ بھی نہیں ہوتا)۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: ”کون سا مسلمان سب سے اچھا ہے؟“ یا ”اسلام والا کون آدمی سب سے اچھا ہے“۔ ۲؎: یہ کئی بار گزر چکا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سائل کے اپنے خاص احوال، یا سوال کے خاص تناظر میں اسی کے حساب سے جواب دیا کرتے تھے، کسی کے لیے کسی عمل پر تنبیہ مقصود تھی تو کسی کے لیے کسی اور عمل کی۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عبد الله بن عمرو، ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الإسلام خير؟ قال:" تطعم الطعام , وتقرا السلام على من عرفت ومن لم تعرف". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ:" تُطْعِمُ الطَّعَامَ , وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا اسلام سب سے اچھا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کھانا کھلانا، سلام کرنا ہر شخص کو خواہ جان پہچان کا ہو یا نہ ہو“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا: کیا آپ جہاد نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینی، حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ تھا کہ بنیادی باتوں کو میں تسلیم کر چکا ہوں اور جہاد ان میں سے نہیں ہے، جہاد اسباب و مصالح کی بنیاد پر کسی کسی پر فرض عین ہوتا ہے اور ہر ایک پر فرض نہیں ہوتا۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نعوذ باللہ جہاد فی سبیل اللہ کے منکر تھے، بلکہ آپ تو اپنی زندگی میں دسیوں غزوات میں شریک ہوتے تھے، آپ نے مذکورہ بالا جواب: (۱) ارکان اسلام کو بیان کرنے کے لیے اور (۲) سائل کے سوال کی کیفیت کو سامنے رکھ کر دیا تھا، واللہ اعلم بالصواب۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي إدريس الخولاني، عن عبادة بن الصامت، قال: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم في مجلس، فقال:" تبايعوني على ان لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا، قرا عليهم الآية , فمن وفى منكم فاجره على الله، ومن اصاب من ذلك شيئا فستره الله عز وجل فهو إلى الله، إن شاء عذبه، وإن شاء غفر له". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ، فَقَالَ:" تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، قَرَأَ عَلَيْهِمُ الْآيَةَ , فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مجلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے“، پھر آپ نے سورۃ الممتحنہ کی آیت پڑھی ۱؎ پھر فرمایا: ”تم میں سے جو اپنے اقرار کو پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور جو ان میں سے کوئی کام کرے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے چھپا لے تو اب یہ اللہ تعالیٰ پر ہے کہ چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4166 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: وہ آیت یہ ہے: «يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنك»(سورة الممتحنة: 12)
(مرفوع) اخبرنا محمد بن حاتم بن نعيم، قال: انبانا حبان، قال: انبانا عبد الله، عن حميد الطويل، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" امرت ان اقاتل الناس حتى يشهدوا ان لا إله إلا الله , وان محمدا رسول الله، فإذا شهدوا ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله، واستقبلوا قبلتنا، واكلوا ذبيحتنا، وصلوا صلاتنا , فقد حرمت علينا دماؤهم، واموالهم إلا بحقها لهم ما للمسلمين، وعليهم ما عليهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حِبَّانُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِذَا شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَكَلُوا ذَبِيحَتَنَا، وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا , فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ، وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ، وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، پھر جب وہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کریں، ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری نماز پڑھیں تو ان کے خون اور ان کے مال ہم پر حرام ہو گئے مگر کسی حق کے بدلے، ان کے لیے وہ سب ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے اور ان پر وہ سب ہے جو مسلمانوں پر ہے۔
وضاحت: ۱؎: ستر کا عدد عربوں میں غیر متعین کثیر تعداد کے لیے بولا جاتا تھا، اس سے خاص متعین ”ستر کا عدد“ مراد نہیں ہے، اور «بضع» کا لفظ ”تین سے نو“ تک کے لیے بولا جاتا ہے، اور ایمان کی ان شاخوں میں خاص طور پر حیاء کا تذکرہ اس کی اہمیت جتانے کے لیے کیا ہے کہ حیاء ان ستر اعمال پر ابھارنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اس حیاء سے بھی مراد وہی حیاء ہے جو نیک کاموں پر ابھارے، نہ کہ وہ حیاء جو حق بات کہنے اور اس پر عمل کرنے سے روکے، وہ شرعی حیاء ہے ہی نہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، ان میں سب سے سب سے بہتر لا الٰہ الا اللہ اور سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے، اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔