الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
The Chapters On Judgements From The Messenger of Allah
حدیث نمبر: 1341
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , انبانا علي بن مسهر، وغيره، عن محمد بن عبيد الله , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال في خطبته: " البينة على المدعي , واليمين على المدعى عليه ". هذا حديث في إسناده مقال , ومحمد بن عبيد الله العرزمي يضعف في الحديث من قبل حفظه , ضعفه ابن المبارك وغيره.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي خُطْبَتِهِ: " الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي , وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ". هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ , وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَرْزَمِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ , ضَعَّفَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُهُ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا: گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ کے ذمہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کی سند میں کلام ہے۔ محمد بن عبیداللہ عرزمی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ ابن مبارک وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8794) (حسن) (شواہد اور متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”محمد بن عبیداللہ عزرمی“ ضعیف ہیں، دیکھئے الارواء رقم: 2641)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (8 / 265 - 267)
حدیث نمبر: 1342
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن سهل بن عسكر البغدادي , حدثنا محمد بن يوسف , حدثنا نافع بن عمر الجمحي , عن عبد الله بن ابي مليكة , عن ابن عباس , " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى ان اليمين على المدعى عليه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: ان البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: أَنَّ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ قسم مدعی علیہ پر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ گواہ مدعی کے ذمہ ہے اور قسم مدعی علیہ پر ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرہن 6 (2514)، والشہادات 20 (2668)، وتفسیر سورة آل عمران 3 (4552)، صحیح مسلم/الأقضیة 1 (1711)، سنن ابی داود/ الأقضیة 23 (3619)، سنن النسائی/القضاة 36 (5440)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 7 (2321)، (تحفة الأشراف: 5792)، و مسند احمد (1/203، 288، 343، 351، 356، 363) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2641)
13. باب مَا جَاءَ فِي الْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ
13. باب: ایک گواہ کے ساتھ مدعی قسم کھانا دعویٰ کو ثابت کرنا ہے۔
Chapter: What Has Been Related About The Oath Along With A Witness
حدیث نمبر: 1343
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي , حدثنا عبد العزيز بن محمد , قال: حدثني ربيعة بن ابي عبد الرحمن , عن سهيل بن ابي صالح , عن ابيه , عن ابي هريرة، قال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم باليمين مع الشاهد الواحد ". قال ربيعة: واخبرني ابن لسعد بن عبادة , قال: وجدنا في كتاب سعد , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قضى باليمين مع الشاهد. قال: وفي الباب , عن علي , وجابر , وابن عباس , وسرق. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة , " ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى باليمين مع الشاهد الواحد ". حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ ". قَالَ رَبِيعَةُ: وَأَخْبَرَنِي ابْنٌ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ , قَالَ: وَجْدنَا فِي كِتَاب سَعْدٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَلِيٍّ , وَجَابِرٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَسُرَّقَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ , " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ ". حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا۔ ربیعہ کہتے ہیں: مجھے سعد بن عبادہ کے بیٹے نے خبر دی کہ ہم نے سعد رضی الله عنہ کی کتاب میں لکھا پایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں علی، جابر، ابن عباس اور سرق رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأقضیة 21 (3610)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 31 (2368)، (تحفة الأشراف: 12640) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہو تو دوسرے گواہ کے بدلے مدعی سے قسم لے کر قاضی اس کے حق میں فیصلہ کر دے گا، جمہور کا یہی مذہب ہے کہ مالی معاملات میں ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ درست ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2368 - 2671)
حدیث نمبر: 1344
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , ومحمد بن ابان , قالا: حدثنا عبد الوهاب الثقفي , عن جعفر بن محمد , عن ابيه , عن جابر , " ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى باليمين مع الشاهد ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَابِرٍ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ ".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور مدی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 31 (2369)، (تحفة الأشراف: 2607) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (1343)
حدیث نمبر: 1345
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر , اخبرنا إسماعيل بن جعفر , حدثنا جعفر بن محمد , عن ابيه , " ان النبي صلى الله عليه وسلم قضى باليمين مع الشاهد الواحد " , قال: وقضى بها علي فيكم. قال ابو عيسى: وهذا اصح , وهكذا روى سفيان الثوري , عن جعفر بن محمد , عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا , وروى عبد العزيز بن ابي سلمة , ويحيى بن سليم , هذا الحديث عن جعفر بن محمد , عن ابيه , عن علي , عن النبي صلى الله عليه وسلم , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , راوا ان اليمين مع الشاهد الواحد جائز , في الحقوق والاموال , وهو قول: مالك بن انس , والشافعي , واحمد , وإسحاق , وقالوا: لا يقضى باليمين مع الشاهد الواحد , إلا في الحقوق والاموال , ولم ير بعض اهل العلم من اهل الكوفة , وغيرهم , ان يقضى باليمين مع الشاهد الواحد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ " , قَالَ: وَقَضَى بِهَا عَلِيٌّ فِيكُمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ , وَهَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ , عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا , وَرَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ , وَيَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ , هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَلِيٍّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , رَأَوْا أَنَّ الْيَمِينَ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ جَائِزٌ , فِي الْحُقُوقِ وَالْأَمْوَالِ , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَقَالُوا: لَا يُقْضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ , إِلَّا فِي الْحُقُوقِ وَالْأَمْوَالِ , وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , وَغَيْرِهِمْ , أَنْ يُقْضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ.
ابو جعفر صادق سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا، راوی کہتے ہیں: اور علی نے بھی اسی سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث زیادہ صحیح ہے،
۲- اسی طرح سفیان ثوری نے بھی بطریق: «عن جعفر بن محمد عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے۔ اور عبدالعزیز بن ابوسلمہ اور یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کو بطریق: «عن جعفر بن محمد عن أبيه عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم» (مرفوعاً) روایت کیا ہے،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ حقوق اور اموال کے سلسلے میں ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم کھلانا جائز ہے۔ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے صرف حقوق اور اموال کے سلسلے ہی میں فیصلہ کیا جائے گا۔
۴- اور اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 19326) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: باب کی یہ احادیث اہل کوفہ کے خلاف حجت ہیں، ان کا استدلال «وأشهدوا ذوي عدل منكم إذا استشهدوا شهدين من رجالكم» سے استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل نہیں۔
14. باب مَا جَاءَ فِي الْعَبْدِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَيُعْتِقُ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ
14. باب: دو آدمیوں کے درمیان مشترک غلام کا بیان جس میں سے ایک اپنے حصہ کو آزاد کر دے۔
Chapter: What Has Been Related About A Slave Owned By Two Men And One Of Them Frees His Portion Of Him
حدیث نمبر: 1346
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , عن ايوب , عن نافع , عن ابن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اعتق نصيبا , او قال: شقصا , او قال: شركا له في عبد فكان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق , وإلا فقد عتق منه ما عتق ". قال ايوب: وربما قال نافع: في هذا الحديث يعني: فقد عتق منه ما عتق. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح , وقد رواه سالم , عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا , أَوْ قَالَ: شِقْصًا , أَوْ قَالَ: شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ فَكَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ بِقِيمَةِ الْعَدْلِ فَهُوَ عَتِيقٌ , وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ ". قَالَ أَيُّوبُ: وَرُبَّمَا قَالَ نَافِعٌ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ يَعْنِي: فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ رَوَاهُ سَالِمٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا، اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو غلام کی واجبی قیمت کو پہنچ رہا ہو تو وہ اس مال سے باقی شریکوں کا حصہ ادا کرے گا اور غلام (پورا) آزاد ہو جائے گا ورنہ جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی آزاد ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے سالم بن عبداللہ نے بھی بطریق: «عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 5 (2491)، و 14 (2503)، والعتق 4 (2522)، صحیح مسلم/العتق 1 (1501)، الأیمان والنذور 12 (1501/47-50)، سنن ابی داود/ العتق 6 (3940)، سنن النسائی/البیوع 105 (4712)، سنن ابن ماجہ/العتق 7 (2528)، (تحفة الأشراف: 1175)، وط/العتق 1 (1) و مسند احمد (2/2، 15، 34، 77، 105، 112، 142، 156) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2528)
حدیث نمبر: 1347
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا بذلك الحسن بن علي الخلال الحلواني , حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن الزهري، عن سالم , عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اعتق نصيبا له في عبد , فكان له من المال ما يبلغ ثمنه , فهو عتيق من ماله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ الْحُلْوَانِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي عَبْدٍ , فَكَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ , فَهُوَ عَتِيقٌ مِنْ مَالِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی قیمت کو پہنچ رہا ہو (تو وہ باقی شریکوں کا حصہ بھی ادا کرے گا) اور وہ اس کے مال سے آزاد ہو جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 6935) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2528)
حدیث نمبر: 1348
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم , اخبرنا عيسى بن يونس , عن سعيد بن ابي عروبة , عن قتادة , عن النضر بن انس , عن بشير بن نهيك , عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اعتق نصيبا , او قال شقصا في مملوك , فخلاصه في ماله إن كان له مال , فإن لم يكن له مال , قوم قيمة عدل , ثم يستسعى في نصيب الذي لم يعتق غير مشقوق عليه ". قال: وفي الباب , عن عبد الله بن عمرو , حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , عن سعيد بن ابي عروبة نحوه , وقال: شقيصا , قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح , وهكذا روى ابان بن يزيد , عن قتادة مثل رواية سعيد بن ابي عروبة , وروى شعبة هذا الحديث , عن قتادة , ولم يذكر فيه امر السعاية , واختلف اهل العلم في السعاية , فراى بعض اهل العلم السعاية في هذا , وهو قول: سفيان الثوري , واهل الكوفة , وبه يقول إسحاق , وقد قال بعض اهل العلم: إذا كان العبد بين الرجلين فاعتق احدهما نصيبه , فإن كان له مال غرم نصيب صاحبه , وعتق العبد من ماله , وإن لم يكن له مال , عتق من العبد ما عتق , ولا يستسعى , وقالوا بما روي عن ابن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وهذا قول اهل المدينة , وبه يقول مالك بن انس , والشافعي , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ , أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ , عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا , أَوْ قَالَ شِقْصًا فِي مَمْلُوكٍ , فَخَلَاصُهُ فِي مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ , فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ , قُوِّمَ قِيمَةَ عَدْلٍ , ثُمَّ يُسْتَسْعَى فِي نَصِيبِ الَّذِي لَمْ يُعْتَقْ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَهُ , وَقَالَ: شَقِيصًا , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَهَكَذَا رَوَى أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ قَتَادَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ , وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ قَتَادَةَ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَمْرَ السِّعَايَةِ , وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السِّعَايَةِ , فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ السِّعَايَةَ فِي هَذَا , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَأَهْلِ الْكُوفَةِ , وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق , وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ , فَإِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ غَرِمَ نَصِيبَ صَاحِبِهِ , وَعَتَقَ الْعَبْدُ مِنْ مَالِهِ , وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ , عَتَقَ مِنَ الْعَبْدِ مَا عَتَقَ , وَلَا يُسْتَسْعَى , وَقَالُوا بِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ , وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا تو باقی حصے کی آزادی بھی اسی کے مال سے ہو گی اگر اس کے پاس مال ہے، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی، پھر غلام کو پریشانی میں ڈالے بغیر اسے موقع دیا جائے گا کہ وہ کمائی کر کے اس شخص کا حصہ ادا کر دے جس نے اپنا حصہ آزاد نہیں کیا ہے۔ محمد بن بشار سے بھی ایسے ہی روایت ہے اور اس میں «شقصاً» کے بجائے «شقیصا» ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسی طرح ابان بن یزید نے قتادہ سے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کے مثل روایت کی ہے،
۳- اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو قتادہ سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے اس سے آزادی کے لیے کمائی کرانے کا ذکر نہیں کیا ہے،
۴- سعایہ (کمائی کرانے) کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے اس بارے میں سعایہ کو جائز کہا ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے، اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،
۵- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۶- اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جب غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور ان میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کر دے تو اگر اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ساجھی دار کے حصے کا تاوان ادا کرے گا اور غلام اسی کے مال سے آزاد ہو جائے گا، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو غلام کو جتنا آزاد کیا گیا ہے اتنا آزاد ہو گا، اور باقی حصہ کی آزادی کے لیے اس سے کمائی نہیں کرائی جائے گی۔ اور ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کی رو سے یہ بات کہی ہے، اور یہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے۔ اور مالک بن انس، شافعی اور احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 5 (2492)، 14 (2504)، والعتق 5 (2527)، صحیح مسلم/العتق 1 (1503)، سنن ابی داود/ العتق 4 (3934)، و5 (3937)، سنن ابن ماجہ/العتق 7 (2527)، (تحفة الأشراف: 12211)، و مسند احمد (2/426، 472) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2527)
15. باب مَا جَاءَ فِي الْعُمْرَى
15. باب: عمریٰ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About A LifeLong Gift (Al-'Umra)
حدیث نمبر: 1349
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى , حدثنا ابن ابي عدي , عن سعيد , عن قتادة , عن الحسن , عن سمرة , ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: " العمرى جائزة لاهلها , او ميراث لاهلها ". قال: وفي الباب , عن زيد بن ثابت , وجابر , وابي هريرة , وعائشة , وابن الزبير , ومعاوية.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ سَمُرَةَ , أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا , أَوْ مِيرَاثٌ لِأَهْلِهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَجَابِرٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَعَائِشَةَ , وَابْنِ الزُّبَيْرِ , وَمُعَاوِيَةَ.
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ ۱؎ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کا ہو جاتا ہے، یا فرمایا: عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھر والوں کی میراث ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں زید بن ثابت، جابر، ابوہریرہ، عائشہ، عبداللہ بن زبیر اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 87 (3549)، (تحفة الأشراف: 4593) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کسی کو عمر بھر کے لیے کوئی چیز ہبہ کرنے کو عمریٰ کہتے ہیں، مثلاً یوں کہے کہ میں نے تمہیں یہ گھر تمہاری عمر بھر کے لیے دے دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1350
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن , حدثنا مالك , عن ابن شهاب , عن ابي سلمة، عن جابر , ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ايما رجل اعمر عمرى له ولعقبه , فإنها للذي يعطاها لا ترجع إلى الذي اعطاها لانه اعطى عطاء وقعت فيه المواريث ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وهكذا روى معمر وغير واحد , عن الزهري , مثل رواية مالك , وروى بعضهم عن الزهري , ولم يذكر فيه ولعقبه , وروي هذا الحديث من غير وجه , عن جابر , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " العمرى جائزة لاهلها وليس فيها لعقبه " , وهذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم قالوا: إذا قال: هي لك حياتك ولعقبك , فإنها لمن اعمرها , لا ترجع إلى الاول , وإذا لم يقل لعقبك , فهي راجعة إلى الاول إذا مات المعمر , وهو قول: مالك بن انس , والشافعي , وروي من غير وجه , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " العمرى جائزة لاهلها " , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم قالوا: إذا مات المعمر , فهو لورثته , وإن لم تجعل لعقبه , وهو قول: سفيان الثوري , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ , فَإِنَّهَا لِلَّذِي يُعْطَاهَا لَا تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا لِأَنَّهُ أَعْطَى عَطَاءً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَهَكَذَا رَوَى مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ , وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ الزُّهْرِيِّ , وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ وَلِعَقِبِهِ , وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ جَابِرٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا وَلَيْسَ فِيهَا لِعَقِبِهِ " , وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: إِذَا قَالَ: هِيَ لَكَ حَيَاتَكَ وَلِعَقِبِكَ , فَإِنَّهَا لِمَنْ أُعْمِرَهَا , لَا تَرْجِعُ إِلَى الْأَوَّلِ , وَإِذَا لَمْ يَقُلْ لِعَقِبِكَ , فَهِيَ رَاجِعَةٌ إِلَى الْأَوَّلِ إِذَا مَاتَ الْمُعْمَرُ , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لِأَهْلِهَا " , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا: إِذَا مَاتَ الْمُعْمَرُ , فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ , وَإِنْ لَمْ تُجْعَلْ لِعَقِبِهِ , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو عمریٰ دیا گیا وہ اس کا ہے اور اس کے گھر والوں یعنی ورثاء کا ہے کیونکہ وہ اسی کا ہو جاتا ہے جس کو دیا جاتا ہے، عمری دینے والے کی طرف نہیں لوٹتا ہے اس لیے کہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں میراث ثابت ہو گئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسی طرح معمر اور دیگر کئی لوگوں نے زہری سے مالک کی روایت ہی کی طرح روایت کی ہے اور بعض نے زہری سے روایت کی ہے، مگر اس نے اس میں «ولعقبه» کا ذکر نہیں کیا ہے،
۳- اور یہ حدیث اس کے علاوہ اور بھی سندوں سے جابر سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ جس کو دیا جاتا ہے اس کے گھر والوں کا ہو جاتا ہے اور اس میں «لعقبه» کا ذکر نہیں ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب دینے والا یہ کہے کہ یہ تیری عمر تک تیرا ہے اور تیرے بعد تیری اولاد کا ہے تو یہ اسی کا ہو گا جس کو دیا گیا ہے۔ اور دینے والے کے پاس لوٹ کر نہیں جائے گا اور جب وہ یہ نہ کہے کہ (تیری اولاد) کا بھی ہے تو جسے دیا گیا ہے اس کے مرنے کے بعد دینے والے کا ہو جائے گا۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے ۱؎،
۵- اور دیگر کئی سندوں سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمریٰ جسے دیا گیا ہے اس کے گھر والوں کا ہو جائے گا،
۶- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں: جس کو گھر دیا گیا ہے اس کے مرنے کے بعد وہ گھر اس کے وارثوں کا ہو جائے گا اگرچہ اس کے وارثوں کو نہ دیا گیا ہو۔ سفیان ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الہبة 32 (2625)، صحیح مسلم/الہبات 4 (1626)، سنن ابی داود/ البیوع 87 (3550-3552)، و 88 (3553- 3557) و 89 (3558)، سنن النسائی/العمری 2 (3758، 3760-3762، و 3766-3770)، و 3 (771-3773، 3782)، 4 (3782)، سنن ابن ماجہ/الہبات 3 (2380)، و 4 (2382)، (تحفة الأشراف: 3148) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ان کا کہنا ہے کہ اس نے اس آدمی کو اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا اختیار دیا تھا نہ کہ اس چیز کا اسے مالک بنا دیا تھا۔
۲؎: عمرہ کی تین قسمیں ہیں: ایک ہمیشہ ہمیش کے لیے دینا، مثلاً یوں کہے کہ یہ مکان ہمیشہ کے لیے تمہارا ہے یا یوں کہے کہ یہ چیز تیرے اور تیرے وارثوں کے لیے ہے، تو یہ اس کی ملکیت میں دینا اور ہبہ کرنا ہو گا جو دینے والے کی طرف لوٹ کر نہیں آئے گا، دوسری قسم وہ ہے جو وقت کے ساتھ مقید ہو، مثلاً یوں کہے کہ یہ چیز تمہاری زندگی تک تمہاری ہے اس صورت میں نہ یہ ہبہ شمار ہو گی نہ تملیک بلکہ یہ عارضی طور پر ایک مخصوص مدت تک کے لیے عاریۃً دینا شمار ہو گا، مدت ختم ہونے کے ساتھ یہ چیز پہلے کی طرف لوٹ جائے گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس شرط کے ساتھ عمریٰ صحیح نہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ اس طرح مشروط طور پر عمریٰ کرنا صحیح ہے مگر شرط فاسد ہے، پہلے کی طرف نہیں لوٹے گی، لیکن راجح قول پہلا ہی ہے، آخری دونوں قول مرجوح ہیں، اور تیسری قسم بغیر کسی شرط کے دینا ہے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے اپنا مکان تمہارے لیے عمریٰ کیا، جمہور نے اس صورت کو بھی تملیک پر محمول کیا ہے، اس صورت میں بھی وہ چیز پہلے کی طرف واپس نہیں ہو گی، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ منافع کی ملکیت کی صورت ہے، رقبہ کی ملکیت کی نہیں، لہٰذا جسے یہ چیز عمریٰ کی گئی ہے اس کی موت کے بعد وہ پہلے کی طرف لوٹ آئے گی، لیکن راجح جمہو رہی کا قول ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2380)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.