اخبرنا ابو عامر العقدي، نا محمد بن ابي حميد، عن هند بنت سعيد بن ابي سعيد الخدري، عن عمتها ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ((اكل من كتف شاة ثم صلى ولم يتوضا)).أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْ هِنْدَ بِنْتِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ عَمَّتِهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ((أَكَلَ مِنْ كَتِفِ شَاةٍ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ)).
سیدنا ابن ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اپنی پھوپھی سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کی دستی کا گوشت کھایا، پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الوضوء، باب من لم يتوضاء من لحم والسويق، رقم: 208. مسلم، كتاب الحيض، باب نسخ الوضو مما مست النار، رقم: 355. سنن ابوداود، رقم: 187. سنن ترمذي، رقم: 1836»
اخبرنا عيسى بن يونس، نا هشام بن حسان، عن حفصة، عن ام عطية قالت:" كنا لا نرى الترية شيئا: الكدرة والصفرة".أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، نا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ:" كُنَّا لَا نَرَى التَّرِيَّةَ شَيْئًا: الْكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ہم (حیض سے پاک ہونے کے بعد) سفید، مٹیالے اور زرد رنگت والے پانی کو کچھ نہیں سمجھتی تھی۔
تخریج الحدیث: «كتاب الحيض، باب الصفرة والكدرة فى غير ايام الحيض، رقم: 326. سنن ابوداود، كتاب الطهارة، باب المراة تري الكدرة والصفرة، رقم: 307. سنن نسائي، رقم: 368 سنن ابن ماجه، رقم: 647»
اخبرنا وكيع، نا اسامة بن زيد، عن النعمان بن خربوذ قال: سمعت ام صبية الجهنية تقول: ((ربما اختلفت يدي ويد رسول الله صلى الله عليه وسلم في الوضوء من الإناء الواحد)).أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، نا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ خَرَّبُوذٍ قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ صُبَيَّةَ الْجُهَنِيَّةَ تَقُولُ: ((رُبَّمَا اخْتَلَفَتْ يَدِي وَيَدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْوُضُوءِ مِنَ الْإِنَاءِ الْوَاحِدِ)).
نعمان بن خربوذ نے بیان کیا، میں نے ام صبیہ جہنیہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا: بسا اوقات ایک ہی برتن میں سے وضو کرتے ہوئے میرا ہاتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ایک دوسرے سے ٹکراتا۔
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الوضوء، باب وضو الرجل مع امراته الخ، رقم: 193. سنن ابوداود، كتاب الطهارة، باب الوضو بفضل وضو المراة، رقم: 78. مسند احمد: 366/6»
اخبرنا المعتمر بن سليمان قال: سمعت برد بن سنان يحدث , عن الزهري، عن ام قيس بنت محصن اخت عكاشة بن محصن اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم بابن لها في الثدي فوضعته في حجره، فبال عليه، فاخذ من قعب بين يديه كفا من ماء فصبه عليه، ولم يزد على ذلك".أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ بُرْدَ بْنَ سِنَانٍ يُحَدِّثُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ أُخْتِ عُكَّاشَةَ بْنِ مِحْصَنٍ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابْنٍ لَهَا فِي الثَّدْيِ فَوَضَعَتْهُ فِي حِجْرِهِ، فَبَالَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَ مِنْ قَعْبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَصَبَّهُ عَلَيْهِ، وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ".
سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی بہن سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا اپنے شیر خوار بیٹے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور اسے آپ کی گود میں بٹھا دیا، اس نے آپ پر پیشاب کر دیا، تو آپ نے اپنے ہاتھوں میں پانی لے کر اس (جگہ) پر ڈال دیا، اور اس پر کچھ اضافہ نہ فرمایا:
اخبرنا جرير، عن المغيرة، عن زياد بن كليب ابي معشر، عن إبراهيم قال: ((كانوا يستحبون السواك بعد الوتر قبل الركعتين)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: ((كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ السِّوَاكَ بَعْدَ الْوِتْرِ قَبْلَ الرَّكْعَتَيْنِ)).
ابراہیم نخعی رحمہ الله نے بیان کیا، وہ (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد) دو رکعتوں سے پہلے وتر کے بعد مسواک کرنا پسند کرتے تھے۔
وقد قال المغيرة: عن مولى للحسن، عن ابي عبيدة بن عبد الله انه كان يستاك بعد الوتر قبل الركعتين.وَقَدْ قَالَ الْمُغِيرَةُ: عَنْ مَوْلًى لِلْحَسَنِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يَسْتَاكُ بَعْدَ الْوِتْرِ قَبْلَ الرَّكْعَتَيْنِ.
ابوعبیدہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ وتر کے بعد دو رکعتوں سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔
اخبرنا وکیع، نا الاعمش قال: سمعت مجاهدا یحدث عن طاؤوس عن ابن عباس قال: مر رسول اللٰه صلی اللٰہ علیه وسلم علٰی قبرین، فقال انهما لیعذبان، وما یعذبان فی کبیر، اما احدہما فکان یمشی بالنمیمة، واما الاٰخر فکان لا یستتر من بولهٖ، ثم دعا رسول اللٰہ صلی اللٰه علیه وسلم بعسیب رطب، فشقه باثنین، ثم غرس علٰی هذا واحدا، وعلٰی هذا واحدا وقال: لعله ان یخفف عنهما ما لم ییبسا.اَخْبَرَنَا وَکِیْعٌ، نَا الْاَعْمَشُ قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا یُحَدِّثُ عَنْ طَاؤُوْسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلٰی قَبَرَیْنِ، فَقَالَ اِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی کَبِیْرٍ، اَمَّا اَحَدُہُمَا فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ، وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَکَانَ لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهٖ، ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعَسِیْبٍ رُطَبٍ، فَشَقَّهٗ بِاِثْنَیْنِ، ثُمَّ غَرَسَ عَلٰی هَذَا وَاحِدًا، وَعَلٰی هَذَا وَاحِدًا وَقَالَ: لَعَلَّهٗ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا، ان میں سے ایک چغل خور تھا، جبکہ دوسرا اپنے پیشاب سے بچاؤ نہیں کرتا تھا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی سبز شاخ منگوائی، اس کے دو حصے کیے، پھر ایک اس پر گاڑ دیا اور ایک اس پر، اور فرمایا: ”امید ہے جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی ان سے عذاب کم کر دیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الوضو، باب ماجا فى غسل اليوم، رقم: 218. مسلم، كتاب الطهارة، باب الدليل على نجاسة البول الخ، رقم: 292. سنن ابوداود، كتاب الطهارة، رقم: 20 سنن ترمذي، رقم: 70. سنن نسائي، رقم: 31. سنن ابن ماجه، رقم: 349. مسند احمد: 225/1»
اخبرنا جریر، عن الاعمش، عن مجاهد، عن طاؤوس عن ابن عباس قال: مر رسول اللٰہ صلی اللٰه علیه وسلم بقبرین، فقال: انهما لیعذبان، وما یعذبان فی کبیر، ثم قال: بلٰی، اما احدهما، فذکر مثله.اَخْبَرَنَا جَرِیْرٌ، عَنِ الْاَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاؤُوْسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَیْنِ، فَقَالَ: اِنَّهُمَا لَیُعَذِّبَانِ، وَمَا یُعَذِّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلٰی، اَمَّا اَحَدُهُمَا، فَذَکَرَ مِثْلَهٗ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، اور انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا“، پھر فرمایا: ”ہاں ان میں سے ایک۔“ راوی نے حدیث سابق کے مثل ذکر کیا۔
اخبرنا جریر، نا منصور، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: مر رسول اللٰه صلی اللٰه علیه وسلم بحائط من حیطان مکة او المدینة، فسمع صوت انسانین یعذبان فی قبریهما فقال: انهما لیعذبان وما یعذبان فی کبیر: کان احدهما یمشی بالنمیمة، والاٰخر لا یستتر من بولهٖ، ثم اخذ جریدة فکسرها کسرتین، فجعل علٰی کل قبر منهما کسرة، فقیل: یا رسول اللٰه، لم فعلت هٰذا؟ فقال: لعله ان یخفف عنهما ما لم ییبسا، او الی ان ییبسا.اَخْبَرَنَا جَرِیْرٌ، نَا مَنْصُوْرٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِیْطَانِ مَکَّةَ اَوِ الْمَدِیْنَةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ اِنْسَانَیْنِ یُعَذِّبَانِ فِیْ قَبْرَیْهِمَا فَقَالَ: اِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی کَبِیْرٍ: کَانَ اَحَدُهُمَا یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ، وَالْاٰخَرُ لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهٖ، ثُمَّ اَخَذَ جَرِیْدَةً فَکَسَرَهَا کَسْرَتَیْنِ، فَجَعَلَ عَلٰی کُلِّ قَبْرٍ مِّنْهُمَا کَسْرَةً، فَقِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ فَقَالَ: لَعَلَّهٗ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا، اَوْ اِلَی اَنْ یَّیْبَسَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ یا مدینہ کے کسی باغ کے پاس سے گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انسانوں کی آواز سنی کہ انہیں قبروں میں ان کو عذاب ہو رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا: ان میں سے ایک چغل خور تھا، جبکہ دوسرا پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ شاخ لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک ایک حصہ رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! آپ نے یہ کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے جب تک یہ خشک نہ ہوں ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کی جائے۔“