الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
43. باب في حُبِّ لِقَاءِ اللَّهِ:
43. اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2791
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا همام، عن قتادة، عن انس، عن عبادة بن الصامت: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "من احب لقاء الله احب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله، كره الله لقاءه". فقالت عائشة او بعض ازواجه: إنا لنكره الموت. قال:"ليس ذلك، ولكن المؤمن إذا حضره الموت بشر برضوان الله وكرامته، فليس شيء احب إليه مما امامه، فاحب لقاء الله واحب الله لقاءه، وإن الكافر إذا حضره الموت بشر بعذاب الله وعقوبته، فليس شيء اكره إليه مما امامه، فكره لقاء الله، وكره الله لقاءه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ". فَقَالَتْ عَائِشَةُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ: إِنَّا لَنَكْرَهُ الْمَوْتَ. قَالَ:"لَيْسَ ذَلِكَ، وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَهُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللَّهِ وَكَرَامَتِهِ، فَلَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ، فَأَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حَضَرَهُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ وَعُقُوبَتِهِ، فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَهَ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ، فَكَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ سے ملنے کو دوست رکھتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے (ملاقات) کو دوست رکھتا ہے، اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے عرض کیا کہ: مرنا تو ہم بھی پسند نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ملاقات و ملنے سے مراد موت نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ مومن کی جب موت کا وقت آتا ہے تو اسے الله تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کے یہاں اس کی عزت و منزلت کی خوشخبری دی جاتی ہے، اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (اللہ سے ملاقات، اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لئے) ہوتی ہے، اس لئے وہ اللہ سے ملاقات کا خواہش مند ہو جاتا ہے، اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی خبر دی جاتی ہے، اس وقت کوئی چیز اس کے دل میں اس سے زیادہ ناگوار نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہوتی ہے، سو وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ پس اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2798]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے، دیکھئے: [بخاري 6507]، [مسلم 2684]، [ترمذي 1066]، [نسائي 1835]، [أبويعلی 3235]، [ابن حبان 3009]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2790)
خوش بختی اور فلاح و کامرانی یہ ہے کہ موت کے وقت اللہ کی ملاقات کا شوق غالب ہو اور ترکِ دنیا کا غم نہ ہو، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس کیفیت کے ساتھ موت نصیب کرے، آمین۔
کلمہ طیبہ اس وقت پڑھنے کا بھی مقصد یہی ہے اور مومن کو موت کے وقت جو تکلیف ہوتی ہے اس کا انجام راحتِ ابدی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
44. باب في الْمُتَحَابِّينَ في اللَّهِ:
44. اللہ کے لئے آپس میں محبت کرنے والوں کا بیان
حدیث نمبر: 2792
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا مالك، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر، عن ابي الحباب: سعيد بن يسار، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن الله تعالى يقول يوم القيامة: اين المتحابون بجلال؟ اليوم اظلهم في ظلي يوم لا ظل إلا ظلي".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي الْحُبَابِ: سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِ؟ الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي".
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بزرگی اور جلالت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، آج کے دن میں ان کو اپنے سایہ میں رکھوں گا جس دن میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الشعر، [مكتبه الشامله نمبر: 2799]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2566]، [مالك كتاب الشعر 13، باب ماجاء فى المتحابين فى الله] و [أحمد 237/2، 535] و [البيهقي 233/10]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2791)
اللہ کے لئے محبت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ محبت الله جل جلالہ کے تعمیلِ حکم اور اس کی رضامندی کے لئے ہو، جیسے دین داروں سے محبت، متقی و پرہیزگاروں سے محبت، عالموں سے محبت وغیرہ، آپس میں باہمی محبت کی فضیلت اور اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو عند مالك في الشعر
45. باب: «لاَ يَتَمَنَّى أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ» :
45. تم میں سے کوئی بھی موت کی آرزو نہ کرے
حدیث نمبر: 2793
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن نافع، اخبرني شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني ابو عبيد مولى عبد الرحمن بن عوف، ان ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "لا يتمنى احدكم الموت: إما محسنا، فلعله ان يزداد، إحسانا، وإما مسيئا، فلعله ان يستعتب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنِي شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "لَا يَتَمَنَّى أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ: إِمَّا مُحْسِنًا، فَلَعَلَّهُ أَنْ يَزْدَادَ، إِحْسَانًا، وَإِمَّا مُسِيئًا، فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعْتِبَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: تم میں سے کوئی شخص ہرگز موت کی آرزو نہ کرے، اگر وہ نیک ہے تو ممکن ہے اور زیادہ نیکی کرے اور اگر برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کر لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2800]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5673، 7235]، [مسلم 2682]، [نسائي 1818]، [ابن حبان 3000]، [عبدالرزاق 20634]۔ «يستعتب» کا مطلب ہے برائی چھوڑ کر الله کی رضا مندی طلب کرنا۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2792)
اس حدیث سے موت کی دعا یا آرزو کرنے کی ممانعت ثابت ہوئی، امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اگر دین کی آفت ہو، یا فتنہ میں پڑنے کا ڈر ہو تو موت کی آرزو کرنا جائز ہے، اور دین میں خرابی کے ڈر سے بعض سلف نے ایسا کیا ہے، تاہم افضل یہی ہے کہ صبر کرے اور قضاءِ الٰہی سے راضی رہے۔
ہر رنگ میں راضی برضا ہو تو مزہ دیکھ
دنیا ہی میں بیٹھے ہوئے جنت کی فضا دیکھ
حدیث میں آیا ہے: اگر موت ہی مانگے تو یوں کہے: اے الله! اگر حیات میرے لئے بہتر ہے تو زندہ رکھ اور وفات میرے لئے بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔
بعض لوگ ذرا سی پریشانی اور تکلیف سے گھبرا کر یا غصہ میں کہہ دیتے ہیں: اس سے بہتر ہے اللہ مجھے موت دے دے۔
یہ کہنا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
46. باب في قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعْةُ كَهَاتَيْنِ» :
46. قیامت کے قریب ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 2794
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن ابي التياح، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "بعثت انا والساعة كهاتين"واشار وهب بالسباحة والوسطى.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ"وَأَشَارَ وَهْبٌ بِالسَّبَّاحَةِ وَالْوُسْطَى.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور قیامت ان دونوں کی طرح بھیجے گئے ہیں۔ وہب بن جریر نے اشارہ کیا کلمہ اور بیچ کی انگلی کی طرف۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2801]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6504]، [مسلم 2951]، [ترمذي 2214]، [أبويعلی 2925]، [ابن حبان 6660]۔ بخاری شریف میں ہے «كَهَاتَيْنِ» کی تشریح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبابہ اور وسطیٰ کی طرف اشارہ کیا۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2793)
یعنی جس طرح کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی قریب قریب ہیں قیامت بھی ایسے ہی قریب ہے۔
مطلب اس کا یہ ہے کہ مجھ میں اور قیامت میں دونوں انگلیوں کی طرح اب کسی نئے پیغمبر و رسول کا فاصلہ نہیں، اور میری امّت آخری امّت ہے، اسی پر قیامت قائم ہوگی۔
نیز یہ کہ قیامت قریب ہے اور اس کی مدت کم باقی ہے۔
(مولانا راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
47. باب في قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتُمْ آخِرُ الأُمَمِ» :
47. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ”تم آخری امت ہو“
حدیث نمبر: 2795
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا النضر بن شميل، حدثنا بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "إنكم وفيتم سبعين امة انتم آخرها واكرمها على الله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "إِنَّكُمْ وَفَّيْتُمْ سَبْعِينَ أُمَّةً أَنْتُمْ آخِرُهَا وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللَّهِ".
بہز بن حکیم نے اپنے باپ سے، انہوں نے دادا سے روایت کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: تم نے ستر امتوں کو پورا کیا، تم سب سے آخری امت ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم و عزت والے ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2802]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3004]، [ابن ماجه 4288]، [أحمد 3/5، 5]، [عبد بن حميد 409]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2794)
اس حدیث میں امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت بیان کی گئی ہے، جو گرچہ سب سے آخر میں ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پیش پیش ہوں گے، اللہ کے محبوب اور معزز و مکرم ہوں گے۔
یہود و نصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے حبیب ہیں، جس کا انکار قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے سورهٔ مائده (18) میں بڑے ہی محققانہ اور بلیغ انداز میں کیا ہے۔
ترجمہ: یہود و نصاریٰ کہتے ہیں ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں، آپ کہہ دیجئے پھر الله تعالیٰ تمہیں تمہارے گناہوں کے باعث کیوں عذاب دیتا ہے، نہیں بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں سے ایک انسان ہو، وہ جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہے عذاب دیتا ہے، زمین و آسمان اور اس کے درمیان کی ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
48. باب في فَضْلِ أَهْلِ بَدْرٍ:
48. جنگ بدر میں شرکت کرنے والے صحابہ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2796
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا حماد بن سلمة، عن عاصم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"اين فلان؟". فغمزه رجل منهم، فقال: إنه، وإنه!، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"اليس قد شهد بدرا؟"، قالوا: بلى. قال: "فلعل الله اطلع على اهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم، فقد غفرت لكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"أَيْنَ فُلَانٌ؟". فَغَمَزَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: إِنَّهُ، وَإِنَّهُ!، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَلَيْسَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا؟"، قَالُوا: بَلَى. قَالَ: "فَلَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: فلاں شخص کہاں ہے؟ حاضرین میں سے ایک نے اس کو برے الفاظ سے ذکر کیا کہ وہ ایسا ہے ویسا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ بدر میں حاضر نہیں ہوئے؟ عرض کیا: بیشک شریک ہوئے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ اہلِ بدر کے حالات سے باخبر تھا اور فرمایا: تم جیسے چاہو عمل کرو، میں نے تم کو بخش دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم بن بهدلة، [مكتبه الشامله نمبر: 2803]»
اس حدیث کی سند عاصم بن بہدلہ کی وجہ سے حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4654]، [أحمد 295/2]، [أبويعلی 394]، [ابن حبان 4699]، [موارد الظمآن 2220]، [الحميدي 49]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2795)
یعنی اگر ان سے گناہ بھی سرزد ہوئے تو بخش دیئے جائیں گے، کیونکہ اسلام اور کفر کے درمیان یہ پہلی معرکہ آرائی تھی جس کو یوم الفرقان بھی کہا گیا ہے، حق و باطل اس میں واضح ہو گئے تھے، اس لئے اس میں شرکت کرنے والے صحابہ کی بڑی فضیلت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم بن بهدلة
49. باب النَّهْيِ أَنْ يَقُولَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا:
49. یہ کہنے کی ممانعت کہ فلاں اور فلاں تارے کی وجہ سے بارش ہوئی
حدیث نمبر: 2797
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، قال: اخبرنا عمرو بن دينار، عن عتاب بن حنين، عن ابي سعيد الخدري: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "لو حبس الله القطر عن امتي عشر سنين، ثم انزل، لاصبحت طائفة من امتي بها كافرين يقولون: هو بنوء مجدح". يقال: المجدح كوكب. يقال له: الدبران.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَوْ حَبَسَ اللَّهُ الْقَطْرَ عَنْ أُمَّتِي عَشْرَ سِنِينَ، ثُمَّ أُنْزِلَ، لَأَصْبَحَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي بِهَا كَافِرِينَ يَقُولُونَ: هُوَ بِنَوْءِ مِجْدَحٍ". يقَالَ: الْمِجْدَحُ كَوْكَبٌ. يُقَالُ لَهُ: الدَّبَرَانُ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر الله تعالیٰ دس سال تک میری امت سے بارش کو روک لے پھر بارش برسا دے تو میری امت میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کافر ہو جائے اور وہ کہنے لگیں کہ: یہ مجدح تارے کی وجہ سے ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مجدح ایک کوکب ہے جس کو دبران کہا جاتا ہے۔ (دورِ جاہلیت میں عرب کا عقیدہ تھا کہ مجدح کی وجہ سے بارش ہوتی ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2804]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 1312]، [ابن حبان 188]، [موارد الظمآن 606]، [الحميدي 832]۔ اور اس کا شاہد صحیح صحیحین میں ہے۔ دیکھئے: [بخاري 846]، [مسلم 71] جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں جب بارش ہوئی تو نمازِ فجر کے بعد فرمایا: ”الله تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندوں میں کچھ مومن رہے اور کچھ کافر ہوگئے، جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مومن ہے، اور جس نے کہا ہم پر یہ بارش تاروں (کواکب) کے اثر سے ہوئی ہے وہ میرا منکر ہوا اور تاروں کی تاثیر پر ایمان لایا“ ( «أو كما قال عليه السلام»

وضاحت:
(تشریح حدیث 2796)
اس حدیث میں ایمان کی حقیقت اور نزاکت کا ذکر ہے، نیز یہ کہ معمولی بات کہنے سے انسان مومن ہو جاتا ہے یا کافر، یہ کہنا کہ فلاں برج یا فلاں ستارہ مفید ہے اور اس کے اچھے یا برے اثرات ہیں کفر میں داخل ہے، سب اللہ کی مخلوق ہیں، بذاتِ خود کسی میں تصرف کی طاقت و قوت نہیں ہے، سب کچھ اللہ کے حکم سے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کو ایمان کی حقیقت سمجھنے کی اور کفر و شرک اور بدعت سے دور رہنے کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
50. باب: «الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا» :
50. ایک نیکی پر دس نیکیوں کا ثواب
حدیث نمبر: 2798
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد بن عبد الله، عن واصل مولى ابي عيينة، عن بشار بن ابي سيف، عن الوليد بن عبد الرحمن، عن عياض بن غطيف، قال: اتينا ابا عبيدة بن الجراح نعوده، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "الحسنة بعشر امثالها".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِي سَيْفٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ، قَالَ: أَتَيْنَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ نَعُودُهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا".
عیاض بن غطیف نے کہا: ہم عیادت کے لئے سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: نیکی کا ثواب اس جیسی دس نیکیوں کا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2805]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 3830 وقال المناوي فى فيض القدير رواه البخاري فى الأدب المفرد بسند حسن]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2797)
قرآن پاک میں ہے: « ﴿مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا﴾ [الانعام: 160] » یعنی جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنے ملیں گے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور مومنین کے ساتھ کرم گستری ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا، یہ کم سے کم اجر ہے، ورنہ قرآن و حدیث میں کئی سو بلکہ بعض نیکیوں کا اجر ہزاروں بلکہ لاکھوں گنا تک ملے گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
51. باب مَا قِيلَ في ذِي الْوَجْهَيْنِ:
51. دو چہرے والے کا بیان
حدیث نمبر: 2799
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الاسود بن عامر، حدثنا شريك، عن الركين، عن نعيم بن حنظلة، قال شريك وربما قال: النعمان بن حنظلة، عن عمار، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من كان ذا وجهين في الدنيا، كان له يوم القيامة لسانان من نار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الرُّكَيْنِ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَنْظَلَةَ، قَالَ شَرِيكٌ وَرُبَّمَا قَالَ: النُّعْمَانِ بْنِ حَنْظَلَةَ، عَنْ عَمَّارٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ كَانَ ذَا وَجْهَيْنِ فِي الدُّنْيَا، كَانَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِسَانَانِ مِنْ نَارٍ".
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دنیا میں دو منہ (دو رُخ) ہوں قیامت کے دن اس کے لیے آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2806]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4873]، [أبويعلی 1620]، [ابن حبان 5756]، [الموارد 1979]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2798)
ذوالوجہین سے مراد دو رُخا دوغلا آدمی ہے جو کچھ لوگوں کے پاس ایک رخ سے اور دوسروں کے پاس دوسرے رخ سے جاتا ہے، جیسا کہ [بخاري 6058] و [مسلم 2526] میں ہے، یعنی ایسا انسان جو ہر جگہ لگی لپٹی، منہ دیکھی بات کرے، حق ناحق کا لحاظ نہ رکھے، اس کو حدیث میں شر الناس بہت برا آدمی کہا گیا ہے، اور اس حدیث میں اس کی عقوبت و سزا یہ بیان کی گئی کہ قیامت کے دن اس کی دو زبان ہونگی جس سے وہ منافق اور دوغلے کی حیثیت سے پہچانا جائے گا، اور یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔
الله تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے، حق بات کہنے کی توفیق بخشے اور دو رُخے پن سے بچائے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
52. باب في قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ لَعَنْتُهُ أَوْ سَبَبْتُهُ» :
52. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا: ”جس آدمی کو میں نے لعنت کی اور برا بھلا کہا“
حدیث نمبر: 2800
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا المعلى بن اسد، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اللهم إنما انا بشر، فاي المسلمين لعنته، او شتمته او جلدته، فاجعلها له صلاة ورحمة وقربة تقربه بها إليك يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، فَأَيُّ الْمُسْلِمِينَ لَعَنْتُهُ، أَوْ شَتَمْتُهُ أَوْ جَلَدْتُهُ، فَاجْعَلْهَا لَهُ صَلَاةً وَرَحْمَةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! میں انسان ہوں تو جس مسلمان کو میں لعنت کروں یا برا کہوں یا ماروں تو اس کو اس کے لئے صلاة و رحمت اور قربت بنادے جس کے ذریعہ وہ قیامت کے دن تیرا قرب حاصل کرے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2807]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6361]، [مسلم 2601، وفيهما فاجعله زكاة و رحمة]، [أحمد 390/2، 400/3] و [ابن أبى شيبه 9600]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.