الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
حدیث نمبر: 2771
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثل هذا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ هَذَا.
اس سند سے بھی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مثلِ سابق مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو مكرر ما قبله، [مكتبه الشامله نمبر: 2778]»
تخریج و ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2769 سے 2771)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنّت و دوزخ کا بچشمِ خود مشاہدہ کیا، الله تعالیٰ کے غضب، حساب و جزاء کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخوبی ادراک تھا، اس لئے فرمایا: اگر تم کو وہ معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو تم ہنسنا چھوڑ دو، ہنسو کم اور روؤ زیادہ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو مكرر ما قبله
27. باب في هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّهِ:
27. اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی بےوقعتی
حدیث نمبر: 2772
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج، حدثنا حماد بن سلمة، عن ابي المهزم، عن ابي هريرة: ان النبي صلى الله عليه وسلم مر بسخلة جرباء قد اخرجها اهلها. قال:"ترون هذه هينة على اهلها؟". قالوا: نعم. قال: "والله للدنيا اهون على الله من هذه على اهلها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَخْلَةٍ جَرْبَاءَ قَدْ أَخْرَجَهَا أَهْلُهَا. قَالَ:"تُرَوْنَ هَذِهِ هَيِّنَةً عَلَى أَهْلِهَا؟". قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ: "وَاللَّهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کھجیلے بکری کے بچے کے پاس سے گذر ہوا جس کو اس کے مالک نے باہر پھینک دیا تھا، فرمایا: تم جانتے ہو یہ اپنے مالک کے لئے کتنی بے وقعت (ذلیل یا کم قیمت) ہے؟ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: الله کی قسم دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنا یہ بچہ اپنے مالک کے نزدیک ذلیل و حقیر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا أبو المهزم متروك، [مكتبه الشامله نمبر: 2779]»
اس روایت کی سند میں ابوالمہزم متروک ہیں اس لئے ضعیف جدا ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے، اور اس کا شاہد [مسلم 2957]، [ترمذي 2321]، [ابن ماجه 4111]، [أبويعلی 2593]، [أحمد 229/4] میں موجود ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2771)
اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی کی تعلیم ہے جو دنیا اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی، دنیا صرف دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء، دار العمل کو بہت کم مدت میں ختم ہو جانا ہے، لیکن آخرت خیر و ابقیٰ ہے: « ﴿وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾ [العنكبوت: 64] » یقیناً سچی زندگی آخرت کا گھر ہے، اگر یہ جانتے ہوتے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا أبو المهزم متروك
28. باب أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ:
28. کون سا عمل سب سے اچھا ہے
حدیث نمبر: 2773
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن ابي المراوح، عن ابي ذر , قال: سال رجل النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اي الاعمال افضل؟. قال: "إيمان بالله، وجهاد في سبيل الله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْمُرَاوِحِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ , قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟. قَالَ: "إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل سب سے اچھا ہے؟ فرمایا: اللہ پر ایمان لانا پھر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2780]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2518]، [مسلم 84]، [نسائي 3129]، [ابن حبان 152]، [الحميدي 131]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2774
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا هشام، عن يحيى، عن ابي جعفر: انه سمع ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "افضل الاعمال عند الله إيمان لا شك فيه". قال ابو محمد: ابو جعفر: رجل من الانصار.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ عِنْدَ اللَّهِ إِيمَانٌ لَا شَكَّ فِيهِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: أَبُو جَعْفَرٍ: رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ.
سیدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے اچھا عمل اللہ کے نزدیک ایمان ہے اس میں کوئی شک نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2781]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [بخاري 26]، [مسلم 244]، [نسائي 500]، [ابن حبان 4597]، [الموارد 22]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2772 سے 2774)
افضل الاعمال کے سلسلے میں مختلف اوقات میں مختلف اشخاص کے لئے مختلف اعمال احادیث میں مذکور ہیں، کہیں نماز کو، کہیں جہاد کو، اور کہیں دوسرے امور کو افضل الاعمال میں ذکر کیا گیا ہے، تو یہ سائل کی حیثیت کے مطابق ہے، جس کو جس امر کی زیادہ ضرورت تھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی ذکر فرما دیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
29. باب: «لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ» :
29. اپنے لئے پسند ہو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2775
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا شعبة، عن قتادة، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہ ہوگا جب تک کہ اپنے بھائی کے لئے وہ نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2782]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 13]، [مسلم 45]، [ترمذي 2515]، [نسائي 5032]، [ابن ماجه 66]، [أبويعلی 2887]، [ابن حبان 234]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2776
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، وهاشم بن القاسم , قالا: حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا يؤمن احدكم حتى اكون احب إليه من والده، وولده، والناس اجمعين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ، وَوَلَدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہ ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2783]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 15]، [مسلم 44]، [نسائي 5028]، [ابن ماجه 67]، [أحمد 49/5، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2774 سے 2776)
یعنی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سب کی محبت پر غالب نہ آجائے ایمانِ کامل نصیب نہ ہوگا، اس سے معلوم ہوا کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے، جو شخص ایمان کے جتنے تقاضے پورے کرے گا اتنا ہی اس کا ایمان کامل ہوگا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا: ماں باپ، آل اولاد اور تمام جہاں سے زیادہ سنّت اور صاحبِ سنّت سے محبت ہوگی تو اتنا ہی ایمان زیادہ اور کامل ہوگا، اور جتنی اس محبت میں کمی ہوگی ایمان میں بھی کمی آئے گی۔
اے قمر شیطان کی محفل میں جانا چھوڑ دے
دین میں رخنہ، کمی آجائے گی ایمان میں

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
30. باب أَيُّ الْمُؤْمِنِينَ خَيْرٌ:
30. کون سا مومن بندہ بہتر ہے؟
حدیث نمبر: 2777
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن علي بن زيد بن جدعان، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابي بكرة: ان رجلا، قال: يا رسول الله، اي الناس خير؟، قال: "من طال عمره، وحسن عمله"، قال: فاي الناس شر؟، قال:"من طال عمره، وساء عمله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ: أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟، قَالَ: "مَنْ طَالَ عُمُرُهُ، وَحَسُنَ عَمَلُهُ"، قَالَ: فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ؟، قَالَ:"مَنْ طَالَ عُمُرُهُ، وَسَاءَ عَمَلُهُ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! لوگو میں سب سے اچھا کون ہے؟ فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو۔ عرض کیا: اور سب سے برا کون ہے؟ فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2784]»
اس روایت کی سند علی بن زید بن جدعان کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2331]، [أحمد 40/5]، [ابن أبى شيبه 16271] لیکن اس کا شاہد صحیح بلفظ: «طُوْبٰى لِمَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ» موجود ہے۔ دیکھئے: [أحمد 49/5]، [طبراني فى الصغير 20/2]، [الحاكم 339/1]، [البيهقي 171/3]، [ويشهد له حديث عبداللہ بن بسر فى صحيح ابن حبان 2981]، [موارد الظمآن 1919، 2465]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 2778
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد بإسناده، مثله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ بِإِسْنَادِهِ، مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی مثلِ سابق مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وانظر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2785]»
تخریج و ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2776 سے 2778)
معلوم ہوا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ سب سے اچھا انسان وہ ہے جو عمر رسیدہ ہو اور اچھے کام کرے، ہاں یہ صحیح ہے جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھے ہوں تو اس کے لئے اچھائی و بھلائی ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وانظر سابقه
31. باب في فَضْلِ آخِرِ هَذِهِ الأُمَّةِ:
31. اس امت کے آخر میں آنے والوں کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2779
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، قال: حدثنا الاوزاعي، حدثنا اسيد بن عبد الرحمن، عن خالد بن دريك، عن ابن محيريز، قال: قلت لابي جمعة رجل من الصحابة حدثنا: حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم احدثك حديثا جيدا: تغدينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعنا ابو عبيدة بن الجراح، فقال: يا رسول الله، احد خير منا؟ اسلمنا وجاهدنا معك؟، قال:"نعم، قوم يكونون من بعدكم يؤمنون بي ولم يروني".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دُرَيْكٍ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جُمُعَةَ رَجُلٍ مِنَ الصَّحَابَةِ حَدِّثْنَا: حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا جَيِّدًا: تَغَدَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدٌ خَيْرٌ مِنَّا؟ أَسْلَمْنَا وَجَاهَدْنَا مَعَكَ؟، قَالَ:"نَعَمْ، قَوْمٌ يَكُونُونَ مِنْ بَعْدِكُمْ يُؤْمِنُونَ بِي وَلَمْ يَرَوْنِي".
ابن محیریز نے کہا: میں نے سیدنا ابوجمعہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا جو ایک صحابی تھے: ہمیں ایسی حدیث بیان کیجئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، انہوں نے کہا: سنو! میں تمہیں بہت اچھی حدیث سناتا ہوں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوپہر کو کھانا کھایا، ہمارے ساتھ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم سے بھی کوئی افضل ہو سکتا ہے؟ ہم مسلمان ہوئے، آپ کے ساتھ جہاد کیا؟ فرمایا: ہاں (تم سے افضل) وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے اور میری تصدیق کریں گے حالانکہ انہوں نے مجھ کو دیکھا نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2786]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 160/4]، [مسند أبى يعلی 1559]، [طبراني 22/4، 3538]، [معجم الصحابة لابن قانع 211]، [التاريخ الكبير للبخاري 310/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2778)
علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ بنی نوع انسان میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر و سیدناعثمان و سیدنا علی رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تمام صحابہ و صحابیات قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں سے افضل ہیں، صحیح حدیث ہے: «لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ أَحَدٌ مُدَّهُمْ وَلَا نَصِيْفَهُ» ([أحمد 6/6]، [مجمع الزوائد 16/10]، [عاصم 478/2]) یعنی تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے مثل سونا صدقہ کر دے تب بھی (ان صحابہ کرام) کے مد (ایک پیمانہ 2 رطل کے قریب) کے برابر، بلکہ اس کا آدھا بھی ثواب حاصل نہ کر پائے گا۔
صحابہ کرام کی فضیلت کے بارے میں بہت سی احادیث اور آیات موجود ہیں، یہاں اس حدیث میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کی ایک گونہ فضیلت تو ہے لیکن ثواب و درجات میں صحابہ کرام سے افضل نہیں ہو سکتے، ہاں اعمالِ صالحہ انجام دینے کے عوض بعد میں آنے والوں کو الله اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب ضرور حاصل ہوگا۔
اس حدیث سے بھی ایمان میں کمی و زیادتی ہونے کا ثبوت ملا، نیز یہ کہ بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لئے بھی اس میں خوشخبری و تسلی ہے، وہ مایوس نہ ہوں، ان کے لئے بھی اعلیٰ درجات ہیں۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
32. باب في تَعَاهُدِ الْقُرْآنِ:
32. قرآن پاک پڑھتے رہنے کا بیان
حدیث نمبر: 2780
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا شعبة، عن منصور، قال: سمعت ابا وائل، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "بئسما لاحدكم ان يقول: نسيت آية كيت وكيت، بل هو نسي، فاستذكروا القرآن، فإنه اسرع تفصيا من صدور الرجال من النعم من عقلها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "بِئْسَمَا لِأَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ: نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ، فَاسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ أَسْرَعُ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهَا".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت برا ہے تم میں سے کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ (یوں کہنا چاہیے) وہ بھلا دیا گیا اور قرآن مجید کا پڑھنا جاری رکھو، کیونکہ انسانوں کے دلوں سے دور ہو جانے میں وہ اونٹ کے بھاگنے سے زیادہ تیز ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2787]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5032]، [مسلم 790]، [ترمذي 2942]، [نسائي 942]، [أبويعلی 5136]، [ابن حبان 761]، [الحميدي 91]، [شعب الايمان 1964]، [سعيد بن منصور 17016]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2779)
اس حدیث میں حفاظِ قرآن کے لئے برابر قرآن کریم پڑھتے رہنے کی ترغیب مثال دے کر سمجھائی گئی ہے، جو لسانِ نبوت کا بہت ہی بلیغانہ انداز ہے، اگر قرآن پاک کو پڑھنا ترک کیا تو جلد ہی بھول جائے گا، میں بھول گیا کہنے سے اس لئے روکا گیا کیونکہ اللہ ہی بندے کے تمام افعال کا خالق ہے گو بندے کی طرف بھی افعال کی نسبت کی جاتی ہے، مقصود یہ ہے کہ اپنی طرف نسبت دینے میں گویا اپنا اختیار رہتا ہے کہ میں بھول گیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.