الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Medicine
حدیث نمبر: 3483
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن ابي الخصيب , حدثنا وكيع , عن جرير بن حازم , عن قتادة , عن انس , ان النبي صلى الله عليه وسلم" احتجم في الاخدعين وعلى الكاهل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي الْخَصِيبِ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" احْتَجَمَ فِي الْأَخْدَعَيْنِ وَعَلَى الْكَاهِلِ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گردن کی رگوں اور مونڈھے کے درمیان کی جگہ پچھنا لگوایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 4 (3860)، سنن الترمذی/الطب 12 (2051)، (تحفة الأشراف: 1147) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3484
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المصفى الحمصي , حدثنا الوليد بن مسلم , حدثنا ابن ثوبان , عن ابيه , عن ابي كبشة الانماري انه حدثه: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يحتجم على هامته وبين كتفيه , ويقول:" من اهراق منه هذه الدماء , فلا يضره ان لا يتداوى بشيء لشيء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي كَبْشَةَ الْأَنْمَارِيِّ أَنَّهُ حَدَّثَهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْتَجِمُ عَلَى هَامَتِهِ وَبَيْنَ كَتِفَيْهِ , وَيَقُولُ:" مَنْ أَهْرَاقَ مِنْهُ هَذِهِ الدِّمَاءَ , فَلَا يَضُرُّهُ أَنْ لَا يَتَدَاوَى بِشَيْءٍ لِشَيْءٍ".
ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر اور دونوں کندھوں کے درمیان پچھنا لگواتے اور فرماتے تھے: جو ان مقامات سے خون بہا دے، تو اگر وہ کسی بیماری کا کسی چیز سے علاج نہ کرے تو اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہو سکتا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 4 (3859)، (تحفة الأشراف: 12143) (ضعیف) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1867، تراجع الألبانی: رقم: 194)۔» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3485
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا محمد بن طريف , حدثنا وكيع , عن الاعمش , عن ابي سفيان , عن جابر , ان النبي صلى الله عليه وسلم ," سقط عن فرسه على جذع , فانفكت قدمه" , قال وكيع يعني: ان النبي صلى الله عليه وسلم احتجم عليها من وثء.
(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ جَابِرٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ عَلَى جِذْعٍ , فَانْفَكَّتْ قَدَمُهُ" , قَالَ وَكِيعٌ يَعْنِي: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ عَلَيْهَا مِنْ وَثْءٍ.
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنے گھوڑے سے کھجور کے درخت کی پیڑی پر گر پڑے، اس سے آپ کے پیر میں موچ آ گئی۔ وکیع کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف درد کی وجہ سے وہاں پر پچھنا لگوایا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2310، ومصباح الزجاجة: 1213)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 69 (602)، الطب 5 (3863)، سنن النسائی/الحج 93 (2851)، مسند احمد (3/305، 357، 363، 382) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «وثء»: عربی میں اس درد کو کہتے جو کسی عضو میں عضو ٹوٹنے کے بغیر پیدا ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
22. بَابٌ في أَيِّ الأَيَّامِ يَحْتَجِمُ
22. باب: کن دنوں میں پچھنا لگوایا جائے؟
Chapter: On which days should cupping be done
حدیث نمبر: 3486
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد , حدثنا عثمان بن مطر , عن زكريا بن ميسرة , عن النهاس بن قهم , عن انس بن مالك , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" من اراد الحجامة , فليتحر سبعة عشر , او تسعة عشر , او إحدى وعشرين , ولا يتبيغ باحدكم الدم فيقتله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ , عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ مَيْسَرَةَ , عَنْ النَّهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ أَرَادَ الْحِجَامَةَ , فَلْيَتَحَرَّ سَبْعَةَ عَشَرَ , أَوْ تِسْعَةَ عَشَرَ , أَوْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ , وَلَا يَتَبَيَّغْ بِأَحَدِكُمُ الدَّمُ فَيَقْتُلَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پچھنا لگوانا چاہے تو (ہجری) مہینے کی سترہویں، انیسویں یا اکیسویں تاریخ کو لگوائے، اور (کسی ایسے دن نہ لگوائے) جب اس کا خون جوش میں ہو کہ یہ اس کے لیے موجب ہلاکت بن جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1628، ومصباح الزجاجة: 1214)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطب 12 (2051) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 385)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱ ؎: ابوداود نے کبشہ سے روایت کی کہ ان کے باپ منگل کے دن پچھنا لگوانے کو منع کرتے تھے اور کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منگل کے دن ایک ساعت ایسی ہے جس میں خون بند نہیں ہوتا، اور منگل کا دن خون کا دن ہے، اور آگے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آتا ہے کہ پیر اور منگل کے دن پچھنے لگواؤ، پس دونوں میں تعارض ہو گیا، اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو مہینے کی سترھویں تاریخ کو پڑے کیونکہ طبرانی میں معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے منگل کے دن سترھویں تاریخ کو پچھنے لگوائے، وہ اس کے لئے سال بھر تک دوا ہوں گے، اور کبشہ کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو سترہویں تاریخ کے سوا اور کسی تاریخ میں پڑے اور سنن ابی داود میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے جس نے پچھنے لگوائے سترھویں، یا انیسویں، یا اکیسویں کو وہ ہر بیماری سے شفا پائیں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3487
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد , حدثنا عثمان بن مطر , عن الحسن بن ابي جعفر , عن محمد بن جحادة , عن نافع , عن ابن عمر , قال: يا نافع , قد تبيغ بي الدم , فالتمس لي حجاما واجعله رفيقا إن استطعت , ولا تجعله شيخا كبيرا ولا صبيا صغيرا , فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" الحجامة على الريق امثل , وفيه شفاء وبركة , وتزيد في العقل وفي الحفظ , فاحتجموا على بركة الله يوم الخميس , واجتنبوا الحجامة يوم الاربعاء , والجمعة والسبت , ويوم الاحد تحريا , واحتجموا يوم الاثنين والثلاثاء , فإنه اليوم الذي عافى الله فيه ايوب من البلاء , وضربه بالبلاء يوم الاربعاء , فإنه لا يبدو جذام ولا برص , إلا يوم الاربعاء او ليلة الاربعاء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ , عَنْ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: يَا نَافِعُ , قَدْ تَبَيَّغَ بِيَ الدَّمُ , فَالْتَمِسْ لِي حَجَّامًا وَاجْعَلْهُ رَفِيقًا إِنِ اسْتَطَعْتَ , وَلَا تَجْعَلْهُ شَيْخًا كَبِيرًا وَلَا صَبِيًّا صَغِيرًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ أَمْثَلُ , وَفِيهِ شِفَاءٌ وَبَرَكَةٌ , وَتَزِيدُ فِي الْعَقْلِ وَفِي الْحِفْظِ , فَاحْتَجِمُوا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ يَوْمَ الْخَمِيسِ , وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ , وَالْجُمُعَةِ وَالسَّبْتِ , وَيَوْمَ الْأَحَدِ تَحَرِّيًا , وَاحْتَجِمُوا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالثُّلَاثَاءِ , فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي عَافَى اللَّهُ فِيهِ أَيُّوبَ مِنَ الْبَلَاءِ , وَضَرَبَهُ بِالْبَلَاءِ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ , فَإِنَّهُ لَا يَبْدُو جُذَامٌ وَلَا بَرَصٌ , إِلَّا يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ أَوْ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے غلام) نافع سے کہا: نافع! میرے خون میں جوش ہے، لہٰذا کسی پچھنا لگانے والے کو میرے لیے تلاش کرو، اور اگر ہو سکے تو کسی نرم مزاج کو لاؤ، زیادہ بوڑھا اور کم سن بچہ نہ ہو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: پچھنا نہار منہ لگانا بہتر ہے، اس میں شفاء اور برکت ہے، اس سے عقل بڑھتی ہے اور قوت حافظہ تیز ہوتی ہے، تو جمعرات کو پچھنا لگواؤ، اللہ برکت دے گا، البتہ بدھ، جمعہ، سنیچر اور اتوار کو پچھنا لگوانے سے بچو، اور ان دنوں کا قصد نہ کرو، پھر سوموار (دوشنبہ) اور منگل کے دن پچھنا لگواؤ، اس لیے کہ منگل وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کو بیماری سے نجات دی، اور بدھ کے دن آپ کو اس بیماری میں مبتلا کیا تھا، چنانچہ جذام (کوڑھ) اور برص (سفید داغ) کی بیماریاں (عام طور سے) بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں پیدا ہوتی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8421، ومصباح الزجاجة: 1215) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: 474)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 3488
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المصفى الحمصي , حدثنا عثمان بن عبد الرحمن , حدثنا عبد الله بن عصمة , عن سعيد بن ميمون , عن نافع , قال: قال بن عمر: يا نافع , تبيغ بي الدم فاتني بحجام واجعله شابا , ولا تجعله شيخا ولا صبيا , قال: وقال ابن عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" الحجامة على الريق امثل , وهي تزيد في العقل , وتزيد في الحفظ , وتزيد الحافظ حفظا , فمن كان محتجما فيوم الخميس على اسم الله , واجتنبوا الحجامة يوم الجمعة , ويوم السبت , ويوم الاحد , واحتجموا يوم الاثنين والثلاثاء , واجتنبوا الحجامة يوم الاربعاء , فإنه اليوم الذي اصيب فيه ايوب بالبلاء , وما يبدو جذام ولا برص , إلا في يوم الاربعاء او ليلة الاربعاء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَيْمُونٍ , عَنْ نَافِعٍ , قَالَ: قَالَ بْنُ عُمَرَ: يَا نَافِعُ , تَبَيَّغَ بِيَ الدَّمُ فَأْتِنِي بِحَجَّامٍ وَاجْعَلْهُ شَابًّا , وَلَا تَجْعَلْهُ شَيْخًا وَلَا صَبِيًّا , قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ أَمْثَلُ , وَهِيَ تَزِيدُ فِي الْعَقْلِ , وَتَزِيدُ فِي الْحِفْظِ , وَتَزِيدُ الْحَافِظَ حِفْظًا , فَمَنْ كَانَ مُحْتَجِمًا فَيَوْمَ الْخَمِيسِ عَلَى اسْمِ اللَّهِ , وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ , وَيَوْمَ السَّبْتِ , وَيَوْمَ الْأَحَدِ , وَاحْتَجِمُوا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالثُّلَاثَاءِ , وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ , فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ أَيُّوبُ بِالْبَلَاءِ , وَمَا يَبْدُو جُذَامٌ وَلَا بَرَصٌ , إِلَّا فِي يَوْمِ الْأَرْبِعَاءِ أَوْ لَيْلَةِ الْأَرْبِعَاءِ".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نافع! میرا خون جوش میں ہے، لہٰذا کوئی پچھنا لگانے والا لاؤ، جو جوان ہو، ناکہ بوڑھا یا بچہ، نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: نہار منہ پچھنا لگانا بہتر ہے، اس سے عقل بڑھتی ہے، حافظہ تیز ہوتا ہے، اور یہ حافظ کے حافظے کو بڑھاتی ہے، لہٰذا جو شخص پچھنا لگائے تو اللہ کا نام لے کر جمعرات کے دن لگائے، جمعہ، ہفتہ (سنیچر) اور اتوار کو پچھنا لگانے سے بچو، پیر (دوشنبہ) اور منگل کو لگاؤ پھر چہار شنبہ (بدھ) سے بھی بچو، اس لیے کہ یہی وہ دن ہے جس میں ایوب علیہ السلام بیماری سے دوچار ہوئے، اور جذام و برص کی بیماریاں بھی بدھ کے دن یا بدھ کی رات ہی کو نمودار ہوتی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7667، ومصباح الزجاجة: 1216) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عثمان و عبداللہ بن عصمہ اور سعید بن میمون مجہول ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 766)

قال الشيخ الألباني: حسن
23. بَابُ: الْكَيِّ
23. باب: آگ یا لوہا سے بدن داغنے کا بیان۔
Chapter: Cauterization
حدیث نمبر: 3489
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا إسماعيل بن علية , عن ليث , عن مجاهد , عن عقار بن المغيرة , عن ابيه , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" من اكتوى او استرقى , فقد برئ من التوكل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ , عَنْ لَيْثٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ عَقَّارِ بْنِ الْمُغِيرَةِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنِ اكْتَوَى أَوِ اسْتَرْقَى , فَقَدْ بَرِئَ مِنَ التَّوَكُّلِ".
مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے (آگ یا لوہا سے بدن) داغنے یا منتر (جھاڑ پھونک) سے علاج کیا، وہ توکل سے بری ہو گیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 14 (2055)، (تحفة الأشراف: 11518)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/249، 251، 253) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: وہ دم (جھاڑ پھونک) ممنوع ہے جس میں شرکیہ الفاظ یا ایسے الفاظ ہوں جو معنی و مفہوم کے لحاظ سے واضح نہ ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3490
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن رافع , حدثنا هشيم , عن منصور , ويونس , عن الحسن , عن عمران بن الحصين ، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم" عن الكي فاكتويت , فما افلحت ولا انجحت".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , عَنْ مَنْصُورٍ , وَيُونُسُ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عَنِ الْكَيِّ فَاكْتَوَيْتُ , فَمَا أَفْلَحْتُ وَلَا أَنْجَحْتُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آگ یا لوہے سے جسم) داغنے سے منع فرمایا، لیکن میں نے داغ لگایا، تو نہ میں کامیاب ہوا، اور نہ ہی میری بیماری دور ہوئی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10809، 10814)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطب 7 (3865)، سنن الترمذی/الطب 10 (2049)، مسند احمد (4/427، 444، 446) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ نہی کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ پر محمول ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے خود سعد بن معاذ اور اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہما کو اپنے ہاتھ سے داغا، اگر حرام ہوتا تو ایسا نہ کرتے، کراہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ آگ کا عذاب ہے جو اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے، یہ عمل نہ کرنا اولیٰ و افضل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3491
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا مروان بن شجاع , حدثنا سالم الافطس , عن سعيد بن جبير , عن ابن عباس , قال:" الشفاء في ثلاث: شربة عسل , وشرطة محجم , وكية بنار , وانهى امتي عن الكي , رفعه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ , حَدَّثَنَا سَالِمٌ الْأَفْطَسُ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" الشِّفَاءُ فِي ثَلَاثٍ: شَرْبَةِ عَسَلٍ , وَشَرْطَةِ مِحْجَمٍ , وَكَيَّةٍ بِنَارٍ , وَأَنْهَى أُمَّتِي عَنِ الْكَيِّ , رَفَعَهُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ شفاء تین چیزوں میں ہے: گھونٹ بھر شہد پینے میں، پچھنا لگانے میں اور انگار سے ہلکا سا داغ دینے میں، اور میں اپنی امت کو داغ دینے سے منع کرتا ہوں، یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مرفوع روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 3 (5680، 5681)، (تحفة الأشراف: 5509) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
24. بَابُ: مَنِ اكْتَوَى
24. باب: جو داغ لگوائے اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: One who is cauterized
حدیث نمبر: 3492
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , ومحمد بن بشار , قالا: حدثنا محمد بن جعفر غندر , حدثنا شعبة . ح وحدثنا احمد بن سعيد الدارمي , حدثنا النضر بن شميل , حدثنا شعبة , حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارة الانصاري , قال: سمعت عمي يحيى , وما ادركت رجلا منا به شبيها يحدث الناس , ان سعد بن زرارة وهو جد محمد من قبل امه , انه اخذه وجع في حلقه يقال له: الذبحة , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لابلغن او لابلين في ابي امامة عذرا" , فكواه بيده فمات , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ميتة سوء لليهود , يقولون: افلا دفع عن صاحبه , وما املك له ولا لنفسي شيئا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ , حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ الْأَنْصَارِيُّ , قال: سَمِعَتُ عَمِّي يَحْيَى , وَمَا أَدْرَكْتُ رَجُلًا مِنَّا بِهِ شَبِيهًا يُحَدِّثُ النَّاسَ , أَنَّ سَعْدَ بْنَ زُرَارَةَ وَهُوَ جَدُّ مُحَمَّدٍ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ , أَنَّهُ أَخَذَهُ وَجَعٌ فِي حَلْقِهِ يُقَالُ لَهُ: الذُّبْحَةُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأُبْلِغَنَّ أَوْ لَأُبْلِيَنَّ فِي أَبِي أُمَامَةَ عُذْرًا" , فَكَوَاهُ بِيَدِهِ فَمَاتَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِيتَةَ سَوْءٍ لِلْيَهُودِ , يَقُولُونَ: أَفَلَا دَفَعَ عَنْ صَاحِبِهِ , وَمَا أَمْلِكُ لَهُ وَلَا لِنَفْسِي شَيْئًا".
محمد بن عبدالرحمٰن بن اسعد بن زرارہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا یحییٰ بن اسعد بن زرارہ سے سنا، اور ان کا کہنا ہے کہ اپنوں میں ان جیسا متقی و پرہیزگار مجھے کوئی نہیں ملا لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ سعد بن زرارہ ۱؎ (جو محمد بن عبدالرحمٰن کے نانا تھے) کو ایک بار حلق کا درد ہوا، اس درد کو «ذُبحہ» کہا جاتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ابوامامہ (یعنی! اسعد رضی اللہ عنہ) کے علاج میں اخیر تک کوشش کرتا رہوں گا تاکہ کوئی عذر نہ رہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ سے داغ دیا، پھر ان کا انتقال ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود بری موت مریں، اب ان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے ساتھی کو موت سے کیوں نہ بچا لیا، حالانکہ نہ میں اس کی جان کا مالک تھا، اور نہ اپنی جان کا ذرا بھی مالک ہوں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11821، ومصباح الزجاجة: 1217)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العین 5 (13) (حسن) دون قولہ: '' لأبلغن ''» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اسعد بن زرارہ یا سعد بن زرارہ اس کے لئے دیکھئے: تحفۃ الاشراف والاصابہ۔
۲؎: اسعد بن زرارہ انصار کے سردار تھے، بڑے مومن کامل تھے، آپ ﷺ نے جہاں تک ہو سکا ان کا علاج کیا، لیکن موت میں کسی کا زرونہیں چلتا، رسول اکرم ﷺ کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ کسی کی موت آئے اور وہ روک دیں، لیکن یہودیوں کو جو شروع سے بے ایمان تھے، یہ کہنے کا موقع ملا کہ اگر یہ سچے رسول ہوتے تو اپنے ساتھی سے موت کو دور کر دیتے، آپ ﷺ نے ان کا رد کیا، اور فرمایا: رسول کو اس سے کیا علاقہ؟ مجھ کو خود اپنی جان پر اختیار نہیں ہے، تو بھلا دوسرے کی جان پر کیا ہو گا، اور افسوس ہے کہ یہودی اتنا نہ سمجھے کہ اگلے تمام انبیاء و رسل جب ان کی موت آئی فوت ہو گئے بلکہ ہارون علیہ السلام جو موسیٰ کے بھائی تھے، موسیٰ کی زندگی میں فوت ہوئے اور موسیٰ علیہ السلام ان کو نہ بچا سکے،بھلا امر الٰہی کو کوئی روک سکتا ہے، ولی ہوں یا نبی، اللہ تعالی کے سامنے سب عاجز بندے اور غلام ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن دون ميتة سوء

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.