(مرفوع) حدثنا علي بن ابي الخصيب , حدثنا وكيع , عن ايمن بن نابل , عن امراة من قريش , يقال لها كلثم , عن عائشة , قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" عليكم بالبغيض النافع التلبينة" , يعني: الحساء , قالت: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اشتكى احد من اهله , لم تزل البرمة على النار , حتى ينتهي احد طرفيه , يعني: يبرا او يموت. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي الْخَصِيبِ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ , عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ , يُقَالَ لَهَا كُلْثُمٌ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيْكُمْ بِالْبَغِيضِ النَّافِعِ التَّلْبِينَةِ" , يَعْنِي: الْحَسَاءَ , قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى أَحَدٌ مِنْ أَهْلِهِ , لَمْ تَزَلِ الْبُرْمَةُ عَلَى النَّارِ , حَتَّى يَنْتَهِيَ أَحَدُ طَرَفَيْهِ , يَعْنِي: يَبْرَأُ أَوْ يَمُوتُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک ایسی چیز کو لازماً کھاؤ جس کو دل نہیں چاہتا، لیکن وہ نفع بخش ہے یعنی حریرہ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو ہانڈی برابر چولھے پر چڑھی رہتی یعنی حریرہ تیار رہتا یہاں تک کہ دو میں سے کوئی ایک بات ہوتی یعنی یا تو وہ شفاء یاب ہو جاتا یا انتقال کر جاتا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17987، ومصباح الزجاجة: 1196)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/79، 138، 152، 242) (ضعیف)» (سند میں ام کلثم غیر معروف راوی ہیں)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”کلونجی میں ہر مرض کا علاج ہے، سوائے «سام» کے، اور «سام» موت ہے، اور کالا دانہ «شونیز» یعنی کلونجی ہے“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کالے دانے کا استعمال پابندی سے کرو اس لیے کہ اس میں سوائے موت کے ہر مرض کا علاج ہے“۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبيد الله , انبانا إسرائيل , عن منصور , عن خالد بن سعد , قال: خرجنا ومعنا غالب بن ابجر فمرض في الطريق , فقدمنا المدينة وهو مريض , فعاده ابن ابي عتيق , وقال لنا: عليكم بهذه الحبة السوداء , فخذوا منها خمسا او سبعا فاسحقوها , ثم اقطروها في انفه بقطرات زيت في هذا الجانب , وفي هذا الجانب , فإن عائشة حدثتهم , انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إن هذه الحبة السوداء شفاء من كل داء , إلا ان يكون السام" , قلت: وما السام؟ قال:" الموت". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ , أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ: خَرَجْنَا وَمَعَنَا غَالِبُ بْنُ أَبْجَرَ فَمَرِضَ فِي الطَّرِيقِ , فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ , فَعَادَهُ ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ , وَقَالَ لَنَا: عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ , فَخُذُوا مِنْهَا خَمْسًا أَوْ سَبْعًا فَاسْحَقُوهَا , ثُمَّ اقْطُرُوهَا فِي أَنْفِهِ بِقَطَرَاتِ زَيْتٍ فِي هَذَا الْجَانِبِ , وَفِي هَذَا الْجَانِبِ , فَإِنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُمْ , أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّ هَذِهِ الْحَبَّةَ السَّوْدَاءَ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ , إِلَّا أَنْ يَكُونَ السَّامُ" , قُلْتُ: وَمَا السَّامُ؟ قَالَ:" الْمَوْتُ".
خالد بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سفر پر نکلے، ہمارے ساتھ غالب بن ابجر بھی تھے، وہ راستے میں بیمار پڑ گئے، پھر ہم مدینہ آئے، ابھی وہ بیمار ہی تھے، تو ان کی عیادت کے لیے ابن ابی عتیق آئے، اور ہم سے کہا: تم اس کالے دانے کا استعمال اپنے اوپر لازم کر لو، تم اس کے پانچ یا سات دانے لو، انہیں پیس لو پھر زیتون کے تیل میں ملا کر چند قطرے ان کی ناک میں ڈالو، اس نتھنے میں بھی اور اس نتھنے میں بھی، اس لیے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کالے دانے یعنی کلونجی میں ہر مرض کا علاج ہے، سوائے اس کے کہ وہ «سام» ہو“، میں نے عرض کیا کہ «سام» کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موت“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 7 (5687)، (تحفة الأشراف: 16268)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/138) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہر ماہ تین روز صبح کے وقت شہد چاٹ لیا کرے، وہ کسی بڑی آفت بیماری سے دو چار نہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13588، ومصباح الزجاجة: 1198) (ضعیف)» (سند میں عبد الحمید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مابین انقطاع ہے، عبد الحمید مجہول بھی ہیں، اور سند میں زبیر ہاشمی بھی لین الحدیث ہیں)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شہد ہدیہ میں آیا تو آپ نے تھوڑا تھوڑا ہم سب کے درمیان تقسیم فرمایا، مجھے اپنا حصہ ملا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں مزید لے سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2228، ومصباح الزجاجة: 1199) (ضعیف)» (سند میں ابوحمزہ، عمر بن سہل ضعیف ہیں، اور حسن بصری کا جابر رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دو شفاوؤں یعنی شہد اور قرآن کو لازم پکڑو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9526، ومصباح الزجاجة: 1200) (ضعیف)» (سند میں زید بن الحباب ہیں، جو سفیان ثوری کی احادیث میں غلطیاں کرتے ہیں، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ موقوفاً ثابت ہے)
ابو سعید خدری اور جابر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھمبی «منّ» میں سے ہے، اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج، اور عجوہ (کھجور) جنت کا میوہ ہے اور اس میں پاگل پن اور دیوانگی کا علاج ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2281، 2282، 4074، 4075، ومصباح الزجاجة: 1201)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/48) (صحیح)» ( «شفاء من السم» کے لفظ سے صحیح ہے، «من الجنة» کے لفظ سے منکر ہے، ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ بتحقیق مشہور حسن، نیز ملا حظہ ہو: آگے والی حدیث 3455)
وضاحت: ۱ ؎: «كَمْأَةُ»: جمع ہے، اس کی واحد «كمئٌ» ہے، ابن اثیر نے اس کے بارے میں کہا کہ یہ معروف چیز ہے، لیکن اردو زبان میں اس کا ترجمہ کھمبی، «ککرمتا» سے کیا جاتا ہے، صاحب فیروز اللغات لکھتے ہیں: یہ ایک قسم کی سفید نباتات جو اکثر برسات میں ازخود پیدا ہو جاتی ہے، اور اسے تل کر کھاتے ہیں، سانپ کی چھتری، جمع: کھمبیاں، کھمبیوں (۱۱۲۱)، مصباح اللغات میں «كمئٌ» کا ترجمہ یہ ہے: سانپ کی چھتری اور اس کو «شحم الأرض» کہتے ہیں، جمع: «أكمؤٌ» و «كَمْأَةُ»(۷۵۰-۷۵۱) لسان العرب میں «كمء» کی تعریف یوں ہے: یہ ایسی نبات ہے جو زمین کو پھاڑ کر ویسے ہی نکلتی ہے جیسے کہ «فُطر» یعنی زمین سے اگنے والی نبات اور مزید فرمایا: یہ بھی کہا گیا ہے کہ «كمء» مٹ میلی اور کالی سرخی مائل چیز اور سفید «فَقْعَه» ہے، اور اس کے بعد یہی حدیث ذکر فرمائی۔ اور «فُطر» نامی نبات کو مشروم بھی کہتے ہیں، ملاحظہ ہو: قاموس الغذاء والتداوی بالنبات لاحمدقدامہ: صفحہ ۴۸۹ حدیث میں وارد «كمء» سے مراد وہ پھل ہے جو زمین کے اندر آلو کی شکل میں اور اسی کی طرح پیدا ہوتا ہے، اور اس کو سعودی عرب میں «فَقْعَه» کہتے ہیں، جاڑے میں بارش کے بعد یہ پیدا ہوتا ہے، صحراء کے لوگ اس کی جائے پیدائش سے واقف ہوتے ہیں، اور اسے زمین سے نکال کر لے آتے ہیں، یہ بازارمیں بھی بھاری قیمت سے فروخت ہوتا ہے، جس کی قیمت تین سو ریال فی کلو تک پہنچ جاتی ہے، یہ آلو کی شکل کا ہوتا ہے، اس کی لذت پکا کر کھانے میں بالکل گوشت کی طرح ہوتی ہے، اس لیے اس کو زمین کے اندر اگنے والا «مَن» کہا جائے تو بیجانہ ہو گا، حدیث میں اس کو «مَن» میں شمار کیا گیا ہے، اور اس کے عرق کو آنکھ کا علاج بتایا گیا ہے، اور اس کا ذکر عجوہ کھجورکے ساتھ آیا ہے، صحیح یہی ہے کہ «کمئَہ» سے مراد سعودی عرب میں مشہور «فَقْعَه» نامی پھل ہے، جو آلو کے ہم شکل اور اسی کی طرح زمین میں پیدا ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی تعریف یوں کی ہے: «کمئہ» ایسی نبات ہے جو تنا (ڈنٹھل) اور پتوں کے بغیر ہوتی ہے، اور یہ زمین میں بغیر بوئے پائی جاتی ہے، اور یہ عرب علاقوں میں بہت پائی جاتی ہے اور مصر و شام میں بھی پائی جاتی ہے، حافظ ابن حجرنے جو تفصیلی بتائی ہے اس کے مطابق بھی یہ وہی «فَقْعَه» ہے جس کی تشریح اوپر گزری۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباری حدیث نمبر: ۵۷۰۸) حکیم مظفر حسین اعوان نے کھمبی کی تعریف یوں کی ہے: اردو: کھمب، ہندی: کھم، سندھی: کھنبہی، انگریزی: مشروم: یہ بغیر تنا اور بغیر پتوں کے خود رو پودا ہے جو گرمی کے موسم میں بارش کے بعد پیدا ہوتا ہے، اس میں جوہر ارضی زیادہ اور جوہر مائی کم ہوتا ہے، لیکن جب یہ خشک ہو جاتی ہے تو اس کی مائیت زائل ہو جاتی ہے، اور صرف ارضیت کے باقی رہنے سے غلظت بڑھ جاتی ہے ... قابض و نفاخ ہے، بلغم اور سودا پیدا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ امراض سوداوی اور بلغمی میں مضر ہے ...کھمب کا بڑا وصف صرف یہ ہے کہ یہ بہت لذیذ ہوتی ہے اس لیے لوگ اسے پکا کر کھاتے ہیں (کتاب المفردات: صفحہ ۳۸۶) احمد قدامہ نے لفظ «كَمْأَةُ» کے تحت جو تفاصیل ذکر کی ہیں وہ سابقہ خود رو زیر زمین آلو کی مانند پھل کی ہے، مولف نے آنکھ کے علاج سے متعلق طبی فوائد کا بھی ذکر کیا ہے، اور جدید تحقیقات کی روشنی میں اس کے اندر پائی جانے والی چیزوں کی تفصیلی بتائی ہے، اور آخر میں لکھا ہے کہ زمین میں اگنے والی ساری خود رو نباتات میں قوت باہ کو زیادہ کرنے میں یہ سب سے فائق ہے، اس میں کاربن، اکسیجن اور ہیڈروجن کے ساتھ ساتھ نائٹروجین کی بھی ایک مقدار پائی جاتی ہے، اس لیے یہ اپنی ترکیب میں گوشت کی مانند ہے، اور پکانے کے بعد اس کا مزہ بکری کے گردے کی طرح ہوتا ہے۔ (قاموس الغذاء: ۶۰۲-۶۰۴)، نیز ملاحظہ ہو: المعجم الوسیط: مادہ الکمأ۔ «ککرمتا» جسے سانپ کی چھتری بھی کہتے ہیں اورکھمبی سے بھی یہ جانا جاتا ہے، جس کی تفصیل اوپر گزری یہ ایک دوسرا خود رو چھوٹا پودا ہے جو برصغیر کے مرطوب علاقوں میں گرمی کے موسم میں بارش کے بعد اگتا ہے، خاص کر ان علاقوں میں جہاں سرکنڈا (جسے سینٹھا، نرسل، نرکل اور نئے بھی کہتے ہیں) ہوتا ہے، اور یہ زمین پر خود بخود اگتا ہے، اس کا تعلق حدیث میں وارد کھمبی سے نہیں ہے «واللہ اعلم» ۔ ۲؎: عجوہ کھجور سے دیوانگی اور پاگل پن کے علاج کا لفظ حدیث میں صحیح نہیں ہے، صحیح حدیث میں زہر کا علاج آیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: حدیث نمبر ۳۴۵۵)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ وهي شفاء من السم ق دون العجوة
سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھمبی «من» میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل فرمایا تھا، اور اس کے پانی میں آنکھوں کا علاج ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کھمبی اس «من» کے ہم مثل ہے جو بلا محنت و مشقت آسمان سے بنی ا سرائیل کے لیے نازل ہوتا تھا، کھمبی ایک چھوٹا سا پودا ہے جو زمین سے نکلتا ہے۔