الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
خرید و فروخت کے ابواب
52. باب مَا جَاءَ في التَّشْدِيدِ في الدَّيْنِ:
52. قرض پر سخت سزا کا بیان
حدیث نمبر: 2627
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن عمر بن ابي سلمة، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "نفس المؤمن معلقة ما كان عليه دين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ مَا كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی جان جب تک اس پر قرض ہے معلق رہے گی۔
یعنی: جنت میں داخل نہ ہونے پائے گی یا یہ کہ اس کو آرام نہ ملے گا، لٹکی رہے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عمر بن أبي سلمة ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2633]»
عمر بن ابی سلمہ کی وجہ سے اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1078]، [ابن ماجه 2413]، [أبويعلی 5898]، [ابن حبان 3061]، [موارد الظمآن 1158]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عمر بن أبي سلمة ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 2628
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن سالم بن ابي الجعد، عن معدان بن ابي طلحة، عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "من فارق الروح الجسد وهو بريء من ثلاث، دخل الجنة: من الكبر، والغلول، والدين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ، دَخَلَ الْجَنَّةَ: مِنَ الْكِبْرِ، وَالْغُلُولِ، وَالدَّيْنِ".
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی روح بدن سے جدا ہو اور وہ تین چیزوں سے پاک ہو تو جنت میں جائے گا: تکبر، چوری، اور قرض سے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2634]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1573]، [ابن ماجه 2412]، [نسائي فى الكبرىٰ 8764]، [أحمد 281/5]، [الحاكم 26/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2626 سے 2628)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تکبر کرنے والا، خیانت یا چوری کرنے والا، اور قرض دار جنّت میں نہ جائے گا، اور اگر کسی بندے میں یہ تین چیزیں نہ ہوں تو وہ جنّت میں ضرور جائے گا بشرطیکہ شرک میں مبتلا نہ ہوا ہو، کیونکہ شرک ایسا گناہ ہے جو بلا توبہ کبھی معاف نہ ہوگا، اور جس شخص کے اعمال میں کبائر کا ارتکاب ہو وہ جہنم میں اپنی سزا پانے کے بعد ضرور جنّت میں جائے گا، جیسا کہ حدیث میں ہے: «مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ إِيْمَانِ دَخَلَ الْجَنَّةَ، أَوْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
53. باب في الصَّلاَةِ عَلَى مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ:
53. جس میت پر قرض ہو اس پر نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 2629
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر , وابو الوليد , عن شعبة، عن عثمان بن عبد الله بن موهب، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي برجل ليصلي عليه، فقال: "صلوا على صاحبكم فإن عليه دينا". قال ابو قتادة: هو علي يا رسول الله. قال:"بالوفاء؟". قال:"بالوفاء". قال: فصلى عليه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ , وَأَبُو الْوَلِيدِ , عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: "صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ فَإِنَّ عَلَيْهِ دَيْنًا". قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: هُوَ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:"بِالْوَفَاءِ؟". قَالَ:"بِالْوَفَاءِ". قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ.
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ساتھی پرتم نماز پڑھ لو کیونکہ اس پر قرض ہے۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ قرض یا رسول اللہ میرے ذمے ہے (یعنی میں ادا کر دوں گا)۔ فرمایا: پورا ادا کرو گے۔ عرض کیا: پورا ادا کروں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نمازِ جنازہ پڑھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2635]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھے: [ترمذي 1069]، [نسائي 1959]، [ابن ماجه 2407]، [ابن حبان 3058]، [موارد الظمآن 1159]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2628)
معلوم ہوا قرض بہت بری بلا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ سے نماز پڑھنے میں تأمل کیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ بہت ہی رحم دل اور خیر خواہ تھے۔
بعض علماء نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ کے طور پر ایسا کیا تاکہ دوسرے لوگ قرض کی ادائیگی کا خوب خیال رکھیں، اور یہ قرض ایسی بلا ہے کہ شہداء کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے لیکن قرض معاف نہ ہوگا، کیونکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔
علماء نے کہا: اس حدیث سے یہ نکلا کہ امام کو جائز ہے بعض مردوں پر جن سے گناہ سرزد ہوا ہو نماز نہ پڑ ھے دوسرے لوگوں کو ڈرانے کے لئے، لیکن دوسرے لوگ نماز پڑھ لیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: تم لوگ اس پر نماز پڑھ لو۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ میت کی طرف سے ضمانت درست ہے، اور اس کی طرف سے قرض کی ادائیگی بڑا کارِ ثواب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
54. باب في الرُّخْصَةِ في الصَّلاَةِ عَلَيْهِ:
54. مقروض پر نماز ادا کرنے کی اجازت کا بیان
حدیث نمبر: 2630
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"والذي نفسي بيده ما على الارض مؤمن إلا وانا اولى الناس به، فمن ترك دينا او ضياعا، فلادع له، فانا مولاه، ومن ترك مالا، فلعصبته من كان". قال عبد الله: ضياعا: يعني: عيالا. وقال: فلادع له، يعني: ادعوني له اقض عنه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا عَلَى الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ إِلا وأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِهِ، فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا، فَلْأُدْعَ لَهُ، فَأَنَا مَوْلَاهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا، فَلِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: ضَيَاعًا: يَعْنِي: عِيَالًا. وَقَالَ: فَلْأُدْعَ لَهُ، يَعْنِي: ادْعُونِي لَهُ أَقْضِ عَنْهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، روئے زمین پر جو بھی مومن ہے میں اس کے سب سے زیادہ قریب ہوں (یعنی اس کا والی اور ذمے دار ہوں)، پس جس شخص نے کوئی قرض یا اولاد چھوڑی میں اس کے لئے پکارا جاؤں، میں اس کا ذمہ دار ہوں اور جو کوئی مال چھوڑ کر جائے تو وہ مال اس کے وارثین کا ہے جو باحیات ہوں۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «ضَيَاعًا» سے مراد بچے ہیں اور «فَلْأُدْعَ لَهُ» سے مراد ہے کہ مجھے بلایا جائے تاکہ میں اس کا قرض ادا کروں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2636]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2298]، [مسلم 1619]، [ترمذي 1069]، [نسائي 1959]، [ابن ماجه 2415]، [أبويعلی 5948]، [ابن حبان 3063]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2629)
بخاری و مسلم اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ اوائلِ اسلام میں جب مال کم تھا کوئی قرض دار فوت ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز نہ پڑھتے۔
صحابہ کرام سے فرماتے: تم نماز پڑھ لو۔
پھر جب الله تعالیٰ نے فتوحات کا دروازہ کھولا اور مال ہاتھ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جو کوئی مسلمان قرض دار مرے میں اس کا قرضہ ادا کروں گا، اور بے سہارا بچے چھوڑے ان کی پرورش کا ذمہ بھی لوں گا۔
اور قربان جایئے ایسے نبیٔ رحمتِ مجسم، پیکرِ لطف و عنایت کے کہ جو مال چھوڑ جاوے وہ تو وارثوں کا ہے، اور جو قرض چھوڑ جاوے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادا کریں۔
( «اَللّٰهُمَّ آتِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدًا الْوَسِيْلَةَ وَالْفَضِيْلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُوْدَا»)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست اپنے شہریوں کی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، حتیٰ کہ اگر اس کا کوئی مسلمان شہری مقروض حالت میں فوت ہوگیا، اور قرض کی ادائیگی کے لئے کوئی ترکہ نہ چھوڑ گیا ہو، اور کوئی عزیز رشتے دار ادائیگیٔ قرض کی ضمانت نہ دے، تو اس صورت میں اس کا قرض اسلامی ریاست کے بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔
اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امّت کے معذوروں، مجبوروں اور قرض داروں کے ساتھ محبت و شفقت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں کتنے مہربان، ہمدرد اور غم خوار تھے۔
سربراہانِ مملکت کو اپنی رعایا کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
(مبارکپوری رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
55. باب فِي: الدَّائِنُ مُعَانٌ:
55. قرض دار کا بیان کہ اس کی مدد کی جاتی ہے
حدیث نمبر: 2631
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن المنذر الحزامي، حدثنا محمد بن إسماعيل بن ابي فديك، حدثنا سعيد بن سفيان مولى الاسلميين، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن عبد الله بن جعفر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله مع الدائن حتى يقضى دينه ما لم يكن فيما يكره الله". قال: وكان عبد الله بن جعفر يقول لخازنه: اذهب فخذ لي بدين، فإني اكره ان ابيت ليلة إلا والله معي بعدما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ مَوْلَى الْأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ مَعَ الدَّائِنِ حَتَّى يُقْضَى دَيْنُهُ مَا لَمْ يَكُنْ فِيمَا يَكْرَهُ اللَّهُ". قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ يَقُولُ لِخَازِنِهِ: اذْهَبْ فَخُذْ لِي بِدَيْنٍ، فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَبِيتَ لَيْلَةً إِلا وَاللَّهُ مَعِي بَعْدَمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ قرض دار کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض ادا کر دے، جب تک کہ یہ قرض ایسے کام کے لئے نہ ہو جس کو الله تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ راوی نے کہا: سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اپنے خزانچی سے کہتے تھے: جاؤ اور میرے لئے قرض لے آؤ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ ایک رات بھی ایسی گذاروں کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ نہ ہو اس کے بعد کہ یہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2637]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2409]، [حلية الأولياء 204/3]، [البخاري فى الكبير 476/3، ويشهد له ما فى مسند أبى يعلی 7083 و ابن حبان 5041]، [موارد الظمآن 1157]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2630)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص اچھے کام کے لئے قرض لے، جیسے مسکینوں، طالب علموں، مسافروں کی مدد اور کھلانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی بھر پور عنایت و مہربانی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص کا قرض ادا کرنے کا ارادہ ہو اللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی میں آسانی پیدا فرماتا ہے، گو اس میں قرض لینے کی ترغیب ہے اور جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ قرض لے لیا کرتے تھے تاکہ الله تعالیٰ کی رحمت شاملِ حال رہے۔
تاہم حتی المقدور قرض سے دور رہنا اور نہ لینا ہی بہتر ہے، جیسا کہ احادیثِ صحیحہ میں قرض کے سلسلے میں وعیدِ شدید پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔
نیز یہ کہ اس حدیث میں اللہ کی معیت سے مراد ایسے ہی ہے جیسے فرمایا: « ﴿إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ﴾ » الله تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یعنی اس کی عنایت اور توجہ اس نیک بندے کے ساتھ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ الله تعالیٰ کی ذات بابرکات قرض دار یا صابرین یا دیگر نیک بندے کے ساتھ ہوتی ہے، یہ صوفیہ کا وہم ہے۔
اللہ تعالیٰ عرشِ بریں پر ہے اور وہیں سے سارے عالم اور ساری کائنات کا نظام چلا رہا ہے، وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے، سنتا ہے، جانتا ہے: « ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ [الشورىٰ: 11] وَاللّٰهُ أَعْلَمُ وَعِلْمُهُ أتم» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
56. باب فِي: الْعَارِيَّةُ مُؤَدَّاةٌ:
56. مانگی ہوئی چیز ادا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2632
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن المنهال، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "على اليد ما اخذت حتى تؤديه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَهُ".
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاتھ پر واجب ہے کہ جو لے اسے واپس کر دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2638]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، حسن کا لقاء بھی سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3561]، [ترمذي 1266]، [ابن ماجه 2400]، [طبراني 208/7، 2862]، [المنتقی 1024، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2631)
یہ حدیث گرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن معنی صحیح ہے۔
الله تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا﴾ [النساء: ۵8] » الله تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ امانات کو ان کے مالک کے سپرد کرو۔
یعنی جب کسی سے امانت لو تو اسے ہو بہو ویسے ہی واپس کرو۔
امانت میں خیانت کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
اس باب سے مراد غالباً مؤلف رحمہ اللہ کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے: «الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ» کہ عاریتاً لی ہوئی چیز پھیر دی جائے۔
اس کو [ابن ماجه 2398] وغیرہ نے روایت کیا ہے لیکن اس میں ایک راوی متکلم فیہ ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
57. باب في أَدَاءِ الأَمَانَةِ وَاجْتِنَابِ الْخِيَانَةِ:
57. امانت ادا کرنے اور خیانت سے بچنے کا بیان
حدیث نمبر: 2633
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا طلق بن غنام، عن شريك , وقيس , عن ابي حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "اد إلى من ائتمنك، ولا تخن من خانك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَرِيكٍ , وَقَيْسٍ , عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَدِّ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کر دو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس سے تم خیانت نہ کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2639]»
اس حدیث کی سندحسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3535]، [ترمذي 1264]، [دارقطني 35/3]، [مشكل الآثار للطحاوي 338/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2632)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کی امانت ہے اسے واپس کرنا واجب ہے، چاہے اس کا مالک تمہارے ساتھ خیانت ہی کیوں نہ کرے، یہ حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کی مثالی تعلیم اور ترغیب ہے، جو عامل اپنے کفیل یا مالک کی دکان میں کام کرتا ہے اس کو کبھی خیانت نہیں کرنی چاہیے۔
بعض علماء نے کہا ہے: اگر معاہدے کے مطابق مالک پوری تنخواہ نہ دے تو وہ دوکان سے صرف اپنے حق کا پیسہ لے سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں، جیسا کہ سیدہ اُم معاویہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے جب کہا کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ بخیل ہیں اتنا خرچ نہیں دیتے کہ بچوں کے لئے کافی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا خرچ کافی ہو تم اپنے شوہر کے مال سے لے سکتی ہو۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
58. باب مَنْ كَسَرَ شَيْئاً فَعَلَيْهِ مِثْلُهُ:
58. اگر کسی سے کوئی چیز ٹوٹ جائے تو اسی کے مثل ادائیگی کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2634
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا حميد، عن انس، قال: اهدى بعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم إليه قصعة فيها ثريد، وهو في بيت بعض ازواجه، فضربت القصعة فانكسرت، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم ياخذ الثريد فيرده في الصحفة وهو يقول: "كلوا غارت امكم". ثم انتظر حتى جاءت قصعة صحيحة. فاخذها فاعطاها صاحبة القصعة المكسورة. قال عبد الله: نقول بهذا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَهْدَى بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ قَصْعَةً فِيهَا ثَرِيدٌ، وَهُوَ فِي بَيْتِ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ، فَضَرَبَتْ الْقَصْعَةَ فَانْكَسَرَتْ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ الثَّرِيدَ فَيَرُدُّهُ فِي الصَّحْفَةِ وَهُوَ يَقُولُ: "كُلُوا غَارَتْ أُمُّكُمْ". ثُمَّ انْتَظَرَ حَتَّى جَاءَتْ قَصْعَةٌ صَحِيحَةٌ. فَأَخَذَهَا فَأَعْطَاهَا صَاحِبَةَ الْقَصْعَةِ الْمَكْسُورَةِ. قَالَ عَبْد اللَّهِ: نَقُولُ بِهَذَا.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے ایک پیالہ بھیجا جس میں ثرید تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری کسی بیوی کے گھر میں تھے، اس گھر والی نے پیالے پر ہاتھ مارا اور وہ پیالہ ٹوٹ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جوڑا اور ثرید اس میں ڈالنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جارہے تھے۔ کھاؤ تمہاری امی کو غیرت آگئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظار کیا یہاں تک کہ صحیح سالم پیالہ آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیالے کو اس بیوی کو دے دیا جس کا پیالہ ٹوٹ گیا تھا۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ہمارا بھی یہی قول ہے (یعنی کسی کا کوئی پیالہ توڑ دے تو اس کو اس کی جگہ دوسرا صحیح سالم پیالہ واپس کرنا چاہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2640]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2481، 5225]، [أبوداؤد 3567]، [ترمذي 1359]، [أبويعلی 3339، 3774]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2633)
ہوا یہ تھا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حجرے میں قیام فرما تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کر رہی تھیں کہ دوسری بیوی نے ثرید کا ایک پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ ناگوار گذرا اور طیش میں آ کر ایک ہاتھ رسید کر دیا، پیالہ گرا اور ٹوٹ گیا اور ثرید بھی گر گیا۔
یہ ایک فطری امر تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مواخذہ نہیں فرمایا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ اخلاق دیکھئے کہ ناراضگی کا اظہار کیا نہ ڈانٹا نہ ڈپٹا، بلکہ گرے ہوئے کھانے کو خود سمیٹا اور گھر والوں سے کہا کھاؤ، تمہاری ماں کو غیرت آگئی۔
اس میں رزق کی قدر ہے، حسنِ تصرف ہے، اور ایک بیوی کے پاس دوسری بیوی کا ہدیہ آئے تو اسے قبول کرنے کی تعلیم ہے، اور پھر اگر کسی کا نقصان ہو جائے تو اس کی تلافی کا حکم ہے۔
سبحان الله! کتنی پاکیزہ سیرت اور تعلیم ہے ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط مسلم
59. باب في اللُّقَطَةِ:
59. گری پڑی چیز کو اٹھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2635
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا . ابو اسامة، عن الوليد بن كثير، قال: حدثني عمرو بن شعيب، عن عمرو وعاصم ابني سفيان بن عبد الله بن ربيعة الثقفي: ان سفيان بن عبد الله وجد عيبة فاتى بها عمر بن الخطاب رضوان الله عليه، فقال: "عرفها سنة، فإن عرفت، فذاك، وإلا فهي لك، فلم تعرف، فلقيه بها في العام المقبل في الموسم فذكرها له، فقال عمر: هي لك، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا بذلك". قال: لا حاجة لي بها. فقبضها عمر، فجعلها في بيت المال.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا . أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ عَمْرٍو وَعَاصِمٍ ابْنَيْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبِيعَةَ الثَّقَفِيِّ: أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ وَجَدَ عَيْبَةً فَأَتَى بِهَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَقَالَ: "عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ عُرِفَتْ، فَذَاكَ، وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ، فَلَمْ تُعْرَفْ، فَلَقِيَهُ بِهَا فِي الْعَامِ الْمُقْبِلِ فِي الْمَوْسِمِ فَذَكَرَهَا لَهُ، فَقَالَ عُمَرُ: هِيَ لَكَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا بِذَلِكَ". قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي بِهَا. فَقَبَضَهَا عُمَرُ، فَجَعَلَهَا فِي بَيْتِ الْمَالِ.
سفیان بن عبداللہ الثقفی کے بیٹے عمرو اور عاصم سے مروی ہے کہ ان کے والد سفيان بن عبداللہ کو چمڑے کی ایک تھیلی ملی، وہ اسے لے کر امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: ایک سال تک اس کا اعلان کرو اور پہچان لی جائے تو ٹھیک ہے (یعنی اس کا مالک اسے پہچان لے تو اسے دے دو)، نہ پہچانی جائے تو یہ تمہارے لئے ہے۔ اگلے سال اس کو لے کر پھر سفیان نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اس کا تذکرہ کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تمہاری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گری پڑی چیز کے بارے میں یہی حکم دیا ہے۔ سفیان نے کہا: مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے لے کر بیت المال میں داخل کرا دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد وأبو أسامة هو: حماد بن أسامة، [مكتبه الشامله نمبر: 2641]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ ابواسامہ کا نام حماد بن اسامہ ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 137/4]، [نسائي فى الكبرىٰ 5818]، [مشكل الآثار 4698]، [بيهقي 187/6]۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جس حدیث کا حوالہ دیا اس کے لئے دیکھئے: [بخاري 2437]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2634)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گری پڑی چیز ایک سال تک رکھی جائے، اور جہاں ملی ہے وہیں ایک سال تک اعلان کیا جائے۔
اس کا مالک آجائے تو اس کو دیدی جائے، ایک سال کے بعد پانے والا تصرف کر سکتا ہے۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ روپے پیسے وغیرہ ہوں تو اس کو استعمال کرے اور جب بھی اس کا مالک آجائے وہ قیمت اسے ادا کر دے، جیسا کہ بخاری شریف میں وضاحت ہے۔
دیکھئے: [بخاري: 2427] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد وأبو أسامة هو: حماد بن أسامة
60. باب في النَّهْيِ عَنْ لُقَطَةِ الْحَاجِّ:
60. حاجی کی گر پڑی چیز اٹھانے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2636
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا معاذ بن هانئ من اهل البصرة، حدثنا حرب بن شداد، حدثنا يحيى بن ابي كثير، حدثنا ابو سلمة، حدثنا ابو هريرة انه عام فتحت مكة، قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "إن الله حبس عن مكة الفيل، وسلط عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم والمؤمنين، الا وإنها لم تحل لاحد قبلي ولا تحل لاحد بعدي، الا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى خلاها، ولا يعضد شجرها ولا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّهُ عَامَ فُتِحَتْ مَكَّةُ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنِينَ، أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا تُلْتَقَطُ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا تھا، لیکن اپنے رسول اور مسلمانوں کے لئے اس کو فتح کرادیا۔ دیکھو! یہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا تھا (یعنی مکہ میں لڑائی کرنا) اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔ سنو! اس وقت سے پھر مکہ (میں لڑائی) حرام ہے، نہ یہاں کے کانٹے کاٹے جائیں، نہ درخت کاٹے جائیں، نہ یہاں کی کوئی گری پڑی چیز اٹھائی جائے سوائے اس شخص کے جو اس کا اعلان کرے، یعنی جس کا ارادہ اس چیز کو اس کے مالک تک پہنچانے کا ہو، صرف وہی گری پڑی چیز اٹھا سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2642]»
يہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 112، 2434]، [مسلم 1355]، [أبوداؤد 2017]، [ترمذي 1405]، [أبويعلی 5954]، [ابن حبان 3715]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2635)
اس حدیث میں ہاتھیوں سے مراد یمن کے حکمران ابرہہ کا لشکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال ہاتھی لیکر کعبہ کو ڈھانے آئے تھے لیکن الله تعالیٰ نے ابابیل کے ذریعہ انہیں ہلاک کردیا۔
پورا قصہ سورہ الفیل کی تفسیر میں دیکھئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مکہ میں قتل و غارتگری منع ہے، حتیٰ کہ وہاں کا کانٹا اور خودرو پیڑ پودے بھی نہیں کاٹے جاسکتے ہیں۔
ہاں جو گھاس اور پیڑ پودے انسان کے لگائے ہوئے ہوں انہیں کاٹنے کی اجازت ہے۔
اسی طرح وہاں حاجی (اور غیر حاجی) کسی کی بھی گری پڑی چیز اٹھانا بھی حرام ہے، حتیٰ کہ چپل وغیرہ بھی نہیں، ہاں اٹھا کر پولیس یا «مكتب خاص بالمفقودات» کے حوالے کرنا درست ہے۔
بعض لوگ گری پڑی چیز کیا حجاج کرام کے سامان کی چوری کر لیتے ہیں، یہ بہت بڑا گناہ ہے جس کی بڑی کڑی سزا ہے۔
الله تعالیٰ لوگوں کو ہدایت دے، اور مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.