-" إذا رميت الصيد فادركته بعد ثلاث ليال وسهمك فيه فكله ما لم ينتن".-" إذا رميت الصيد فأدركته بعد ثلاث ليال وسهمك فيه فكله ما لم ينتن".
سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو شکار کو تیر وغیرہ مارتا ہے، لیکن وہ (غائب ہو جاتا ہے اور) تجھے تین دنوں کے بعد ملتا ہے اور تیرا تیر اس میں موجود ہوتا ہے تو جب تک وہ بدبودار (اور متعفن) نہ ہو، اسے کھانے کے لیے استعمال کر لیا کر۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری کمان (جس شکار کو) واپس پلٹا دے (یعنی جس جانور کو شکار کر لے) اسے کھا لے۔“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا ابوثعلبہ خشنی، سیدنا عقبہ بن عامر اور سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔
-" إذا سرتم في ارض خصبة، فاعطوا الدواب حقها او حظها، وإذا سرتم في ارض جدبة فانجوا عليها، وعليكم بالدلجة، فإن الارض تطوى بالليل، وإذا عرستم، فلا تعرسوا على قارعة الطريق فإنها ماوى كل دابة".-" إذا سرتم في أرض خصبة، فأعطوا الدواب حقها أو حظها، وإذا سرتم في أرض جدبة فانجوا عليها، وعليكم بالدلجة، فإن الأرض تطوى بالليل، وإذا عرستم، فلا تعرسوا على قارعة الطريق فإنها مأوى كل دابة".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سبزہ زاروں میں سفر کر رہے ہو تو جانوروں کو ان کا حق دیا کرو (یعنی ان کو چرنے دیا کرو) اور جب قحط زدہ زمین سے گزر ہو رہا ہو تو تیز چلا کرو اور رات کو سفر کیا کرو کیونکہ رات میں زمین کی مسا فت مختصر ہو جاتی ہے۔ جب تم کہیں پڑاؤ ڈالو تو وسط راہ میں ڈیرہ مت لگایا کرو، کیونکہ (ایسے مقامات رات کو) ہر قسم کے جانوروں کا ٹھکانہ ہوتے ہیں۔“
-" إذا طبختم اللحم فاكثروا المرق او الماء، فإنه اوسع، او ابلغ للجيران".-" إذا طبختم اللحم فأكثروا المرق أو الماء، فإنه أوسع، أو أبلغ للجيران".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم گوشت پکاؤ تو اس میں شوربہ یا پانی زیادہ کر لیا کرو، کیونکہ وہ زیادہ پڑوسیوں کو دیا جا سکے گا۔“
-" اشووا لنا منه، فقد بلغ محله".-" اشووا لنا منه، فقد بلغ محله".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر داخل ہوئے اور گوشت دیکھ کر فرمایا: ”اس کا کچھ حصہ ہمارے لیے بھونو۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ تو صدقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس تم اس کا کچھ حصہ ہمارے لیے بھون دو، یہ اپنے مقام پر پہنچ چکا ہے۔“
محمد بن زیاد کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گزرتے اور کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(لوگوں کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو، جنتوں کے وارث بن جاؤ گے۔“
- (اعطاني - صلى الله عليه وسلم - شيئا من تمر، فجعلته في مكتل لنا، فعلقناه في سقف البيت، فلم نزل ناكل منه؛ حتى كان آخره اصابه اهل الشام حيث اغاروا على المدينة).- (أَعطاني - صلى الله عليه وسلم - شَيئاً من تمر، فجعلتُه في مِكْتَلِ لنا، فعلّقناه في سَقْفِ البيتِ، فلمْ نَزَل نأكلُ منه؛ حتَّى كانَ آخرُهُ أصابَهُ أهلُ الشام حيثُ أغارُوا على المدينةِ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ کھجوریں دیں، میں نے ان کو ایک ٹوکرے میں رکھا اور گھر کی چھت کے ساتھ لٹکا دیا، ہم (عرصہ دراز تک) اس سے (کجھوریں نکال کر) کھاتے رہے، جب اہل شام نے مدینہ پر حملہ کیا تو وہ (ٹوکرا) ان کے ہتھے لگ گیا۔
-" اعندكم ما يغنيكم؟ قال: لا. قال: فكلوها (يعني الناقة) وكانت قد ماتت".-" أعندكم ما يغنيكم؟ قال: لا. قال: فكلوها (يعني الناقة) وكانت قد ماتت".
”سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حرہ مقام پر ایک آدمی کی اونٹنی تھی اس نے وہ کسی دوسرے آدمی کو دے دی اور وہ اب بیمار ہو گئی تھی۔ جب وہ مرنے لگی تو اس کی بیوی نے اسے کہا: (بہتر ہے کہ) آپ اس کو نحر کر دیں تاکہ ہم سب (اس کا گوشت تو) کھا لیں۔ لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا (اور وہ اونٹنی مر گئی)۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر ساری بات ذکر کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس تمہیں کفایت کرنے کے بقدر کوئی چیز ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اس (اونٹنی کے مردار) کو کھا لو۔“ اس وقت وہ اونٹنی مر چکی تھی۔ اس نے کہا: پس ہم بیس دن تک اس کی چربی اور گوشت کھاتے رہے۔ پھر ہمیں اس کا پہلا مالک ملا اور پوچھا: تم لوگوں نے اس کو نحر کیوں نہیں کر لیا تھا؟ میں نے کہا: بس میں آپ سے شرماتا تھا۔
-" امرت الرسل قبلي الا تاكل إلا طيبا ولا تعمل إلا صالحا".-" أمرت الرسل قبلي ألا تأكل إلا طيبا ولا تعمل إلا صالحا".
سیدہ ام عبداللہ رضی اللہ عنہا جو سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں، نے طویل دن اور سخت گرمی کی وجہ سے افطاری کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دودھ کا ایک پیالہ بھیجا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قاصد کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ (پوچھ کر آؤ کہ) یہ دودھ کہاں سے لیا؟ اس نے جواب بھیجا کہ اپنی بکری کا دودھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاصد کو دوبارہ واپس کر دیا کہ (یہ پوچھ کر آؤ کہ) وہ بکری کہاں سے لی ہے؟ اس نے کہا: میں نے اپنے مال کے عوض خریدی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اتنی چھان بین کے بعد) وہ پی لیا۔ دوسرے دن ام عبداللہ رضی اللہ عنہا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے طویل دن اور سخت گرمی کی وجہ سے آپ پر ترس کھاتے ہوئے (کل) دودھ کا پیالہ بھیجا تھا، لیکن آپ نے (تحقیق کرنے کے لیے) میرے قاصد کو میری طرف پلٹا دیا، (ایسے کیوں ہے)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے قبل رسولوں کو یہی حکم دیا گیا کہ وہ طیّب (یعنی حلال) چیز کھائیں اور صرف نیک عمل کریں۔“