صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
72. باب من صلى ركعتي الطواف خلف المقام:
باب: اس سے متعلق کہ جس نے طواف کی دو رکعتیں مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھیں۔
حدیث نمبر: 1627
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قال: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بالبيت سَبْعًا، وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا , وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا انہوں کہا کہ عم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ میں) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا سات چکروں سے طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا کی طرف (سعی کرنے) گئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب الحج/حدیث: 1627]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥عبد الله بن عمر العدوي، أبو عبد الرحمن | صحابي | |
👤←👥عمرو بن دينار الجمحي، أبو محمد عمرو بن دينار الجمحي ← عبد الله بن عمر العدوي | ثقة ثبت | |
👤←👥شعبة بن الحجاج العتكي، أبو بسطام شعبة بن الحجاج العتكي ← عمرو بن دينار الجمحي | ثقة حافظ متقن عابد | |
👤←👥آدم بن أبي إياس، أبو الحسن آدم بن أبي إياس ← شعبة بن الحجاج العتكي | ثقة |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
395
| طاف بالبيت سبعا صلى خلف المقام ركعتين طاف بين الصفا والمروة وقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
صحيح البخاري |
1647
| طاف بالبيت صلى ركعتين سعى بين الصفا و المروة ثم تلا لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
صحيح البخاري |
1627
| طاف بالبيت سبعا صلى خلف المقام ركعتين خرج إلى الصفا وقد قال الله لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
صحيح البخاري |
1645
| طاف بالبيت سبعا صلى خلف المقام ركعتين طاف بين الصفا والمروة سبعا وقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
صحيح مسلم |
2999
| طاف بالبيت سبعا صلى خلف المقام ركعتين بين الصفا والمروة سبعا وقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
صحيح مسلم |
2997
| حج رسول الله فطاف بالبيت قبل أن يأتي الموقف |
سنن النسائى الصغرى |
2933
| طاف سبعا صلى خلف المقام ركعتين طاف بين الصفا والمروة وقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
سنن النسائى الصغرى |
2969
| طاف بالبيت سبعا صلى خلف المقام ركعتين خرج إلى الصفا من الباب الذي يخرج منه فطاف بالصفا والمروة |
سنن النسائى الصغرى |
2963
| طاف بالبيت سبعا صلى خلف المقام ركعتين طاف بين الصفا والمروة وقال لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
سنن ابن ماجه |
2959
| طاف بالبيت سبعا صلى ركعتين عند المقام خرج إلى الصفا |
مسندالحميدي |
683
| قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت سبعا، وصلى خلف المقام ركعتين، وطاف بين الصفا والمروة |
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1627 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1627
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام ابراہیم پر پہنچے تو یہ آیت پڑھی:
﴿وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾ (البقرۃ125: 2)
”اور تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔
“ پھر آپ نے دو رکعت ادا کیں، پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾)
اور دوسری میں سورہ فاتحہ اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾)
کی قراءت کی، پھر حجراسود کی طرف لوٹے اور اس کا استلام کیا۔
اس کے بعد صفا کی طرف روانہ ہوئے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218)
اس آیت کریمہ کی قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ طواف کے بعد دو رکعت مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا ضروری ہیں لیکن اہل علم کا اجماع ہے کہ طواف کرنے والا جہاں چاہے ادا کر سکتا ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اسی حدیث سے اس امر کا اثبات کیا ہے۔
(حدیث: 395) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آیت مذکور کا حکم صرف طواف کی دو رکعت کے لیے ہے دیگر نمازوں کے لیے نہیں۔
مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے سے استقبال قبلہ اپنی جگہ پر برقرار رہے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے باوجود استقبال کعبہ کو ترک نہیں کیا۔
الغرض نماز طواف ادا کرتے وقت مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑا ہونا بہتر ہے، ضروری نہیں۔
(1)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام ابراہیم پر پہنچے تو یہ آیت پڑھی:
﴿وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾ (البقرۃ125: 2)
”اور تم مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔
“ پھر آپ نے دو رکعت ادا کیں، پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾)
اور دوسری میں سورہ فاتحہ اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾)
کی قراءت کی، پھر حجراسود کی طرف لوٹے اور اس کا استلام کیا۔
اس کے بعد صفا کی طرف روانہ ہوئے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218)
اس آیت کریمہ کی قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ طواف کے بعد دو رکعت مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا ضروری ہیں لیکن اہل علم کا اجماع ہے کہ طواف کرنے والا جہاں چاہے ادا کر سکتا ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اسی حدیث سے اس امر کا اثبات کیا ہے۔
(حدیث: 395) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آیت مذکور کا حکم صرف طواف کی دو رکعت کے لیے ہے دیگر نمازوں کے لیے نہیں۔
مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے سے استقبال قبلہ اپنی جگہ پر برقرار رہے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے باوجود استقبال کعبہ کو ترک نہیں کیا۔
الغرض نماز طواف ادا کرتے وقت مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑا ہونا بہتر ہے، ضروری نہیں۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1627]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2933
عمرہ کا احرام باندھنے والے کا طواف۔
عمرو کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، اور ہم نے ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا جو عمرہ کی نیت کر کے آیا، اور اس نے بیت اللہ کا طواف کیا، لیکن صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی۔ کیا وہ اپنی بیوی کے پاس آ سکتا ہے انہوں نے جواب دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے کیے، اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم می [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2933]
عمرو کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، اور ہم نے ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا جو عمرہ کی نیت کر کے آیا، اور اس نے بیت اللہ کا طواف کیا، لیکن صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی۔ کیا وہ اپنی بیوی کے پاس آ سکتا ہے انہوں نے جواب دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے کیے، اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم می [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2933]
اردو حاشہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کے مطابق عمرہ سعی کے بغیر پورا نہیں ہوتا، لہٰذا سعی سے پہلے احرام ختم نہیں ہو سکتا۔ سعی بھی واجب ہے۔ سعی کے بعد ہی احرام ختم ہوگا۔ چنانچہ جب تک صفا مروہ کی سعی نہ ہو جائے اس وقت تک بیوی سے جماع کرنا درست نہیں، البتہ صفا مروہ کی سعی کے بعد یہ کام جائز ہے۔ یہی بات صحیح ہے، نیز متفق علیہ ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کے مطابق عمرہ سعی کے بغیر پورا نہیں ہوتا، لہٰذا سعی سے پہلے احرام ختم نہیں ہو سکتا۔ سعی بھی واجب ہے۔ سعی کے بعد ہی احرام ختم ہوگا۔ چنانچہ جب تک صفا مروہ کی سعی نہ ہو جائے اس وقت تک بیوی سے جماع کرنا درست نہیں، البتہ صفا مروہ کی سعی کے بعد یہ کام جائز ہے۔ یہی بات صحیح ہے، نیز متفق علیہ ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2933]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2963
طواف کی دونوں رکعتیں کہاں پڑھے؟
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے لگائے اور مقام (ابراہیم) کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، اور فرمایا: «لقد كان لكم في رسول اللہ أسوة حسنة» ”رسول اللہ کی ذات میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے“ (تو اللہ کا رسول جیسا کچھ کرے ویسے ہی تم بھی کرنا) (الأحزاب: ۲۱)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2963]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے لگائے اور مقام (ابراہیم) کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، اور فرمایا: «لقد كان لكم في رسول اللہ أسوة حسنة» ”رسول اللہ کی ذات میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے“ (تو اللہ کا رسول جیسا کچھ کرے ویسے ہی تم بھی کرنا) (الأحزاب: ۲۱)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2963]
اردو حاشہ:
آیت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ طواف کی دو رکعتیں پڑھنا ضروری ہے۔ اسی لیے آیت میں مذکور حکم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی طواف کیا تو اس کے بعد دو رکعتوں کا اہتمام فرمایا ہے، گویا آپ کا عمل آیت کے مجمل حکم کی تفصیل اور تفسیر ہے۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ مقام ابراہیم کے پاس ہی ان رکعتوں کا پڑھنا مسنون ہے۔ آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے، ہاں اگر ازدحام ہی اس قدر ہو کہ وہاں نماز پڑھنا مشکل ہو تو پھر اس سے دور ہٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
آیت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ طواف کی دو رکعتیں پڑھنا ضروری ہے۔ اسی لیے آیت میں مذکور حکم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی طواف کیا تو اس کے بعد دو رکعتوں کا اہتمام فرمایا ہے، گویا آپ کا عمل آیت کے مجمل حکم کی تفصیل اور تفسیر ہے۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ مقام ابراہیم کے پاس ہی ان رکعتوں کا پڑھنا مسنون ہے۔ آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے، ہاں اگر ازدحام ہی اس قدر ہو کہ وہاں نماز پڑھنا مشکل ہو تو پھر اس سے دور ہٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2963]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2969
حرم سے نکلنے والے دروازے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نکل کر صفا کی طرف جانے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے کیے، پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، پھر آپ صفا کی طرف اس دروازے سے نکلے جس دروازے سے باہر نکلا جاتا ہے، تو صفا و مروہ کی سعی کی۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ سنت ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2969]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات پھیرے کیے، پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی، پھر آپ صفا کی طرف اس دروازے سے نکلے جس دروازے سے باہر نکلا جاتا ہے، تو صفا و مروہ کی سعی کی۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ سنت ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2969]
اردو حاشہ:
”سنت ہے۔“ یعنی اسلام کا رائج کردہ طریقہ ہے جس کی پابندی لازمی ہے۔ یہ سنت فرض کے مقابلے میں نہیں۔ (تفصیل آگے آرہی ہے)۔
”سنت ہے۔“ یعنی اسلام کا رائج کردہ طریقہ ہے جس کی پابندی لازمی ہے۔ یہ سنت فرض کے مقابلے میں نہیں۔ (تفصیل آگے آرہی ہے)۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2969]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2959
طواف کے بعد کی دو رکعت کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر بیت اللہ کا سات بار طواف کیا، پھر طواف کی دونوں رکعتیں پڑھیں۔ وکیع کہتے ہیں: یعنی مقام ابراہیم کے پاس، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2959]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر بیت اللہ کا سات بار طواف کیا، پھر طواف کی دونوں رکعتیں پڑھیں۔ وکیع کہتے ہیں: یعنی مقام ابراہیم کے پاس، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2959]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طواف کعبہ سات چکروں سے پورا ہوتا ہے۔
(2)
طواف کے بعد دو رکعت نماز ادا کرنی چاہیے۔
(3)
طواف کی دو رکعتیں مقام ابراہیم کے قریب ادا کرنا سنت ہے۔
اگر وہاں جگہ نہ ہوتو مسجد حرام میں کسی اور مناسب جگہ پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔
(4)
بعض لوگ لاعلمی کی وجہ سے مقام ابراہیمی کی طرف منہ کرتے ہیں اگرچہ کعبہ کی طرف رخ نہ رہے یہ غلط ہے۔
نماز کے لیے کعبہ کی طرف منہ کرنا چاہیے۔
مقام ابراہیم سامنے ہو یا نہ ہو۔
(5)
صفا اور مروہ کے درمیان سعی طواف کعبہ کے بعد کی جاتی ہے۔
فوائد و مسائل:
(1)
طواف کعبہ سات چکروں سے پورا ہوتا ہے۔
(2)
طواف کے بعد دو رکعت نماز ادا کرنی چاہیے۔
(3)
طواف کی دو رکعتیں مقام ابراہیم کے قریب ادا کرنا سنت ہے۔
اگر وہاں جگہ نہ ہوتو مسجد حرام میں کسی اور مناسب جگہ پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔
(4)
بعض لوگ لاعلمی کی وجہ سے مقام ابراہیمی کی طرف منہ کرتے ہیں اگرچہ کعبہ کی طرف رخ نہ رہے یہ غلط ہے۔
نماز کے لیے کعبہ کی طرف منہ کرنا چاہیے۔
مقام ابراہیم سامنے ہو یا نہ ہو۔
(5)
صفا اور مروہ کے درمیان سعی طواف کعبہ کے بعد کی جاتی ہے۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2959]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:395
395. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، ان سے ایک شخص کے متعلق سوال کیا گیا جس نے بیت اللہ کا طواف کیا لیکن صفا اور مروہ کے درمیان ابھی سعی نہیں کی، تو کیا وہ اپنی بیوی کے پاس آ سکتا ہے؟ انھوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ایک دفعہ) مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت پڑھیں، اس کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔ ”یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:395]
حدیث حاشیہ:
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کےکئی ایک مقاصد ہیں:
ایک تو مقام ابراہیم کی تعین ہے، کیونکہ اس کے متعلق اختلاف ہے۔
بعض کے نزدیک بیت اللہ، مسجدحرام، حرم پاک یا مقامات حج سب مقام ابراہیم ہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس کی تعین کردی کہ اس سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔
دوسرا یہ کہ ارشاد باری تعالیٰ ميں امر وجوب كے ليے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس طواف کی دو رکعت پڈھنا بہتر ہے، واجب نہیں، تیسرا یہ کہ مصلی کا تعین کرنا ہے کہ اس سے مراد جائے نماز ہے، یعنی اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھناہے، وہ اس طرح کہ استقبال کعبہ بھی برقراررہے۔
چوتھا یہ کہ حکم صرف طواف کی دورکعت کے لیے ہے تمام نمازوں کے لیے نہیں، چنانچہ ان تمام مقاصد کے لیے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے کھڑے ہوکر دورکعت اداکیں جوتحیہ طواف ہیں۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس حکم نماز کے باوجود استقبال کعبہ کی فرض کی تاکید میں فرق نہیں آیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہوکرنماز پڑھنے کے باوجود استقبال کعبہ کو ترک نہیں فرمایا۔
چونکہ اس روایت میں سائل کے سوال کا جواب دو ٹوک الفاظ میں نہیں تھا بلکہ حضرت ابن عمر ؓ نے اشارہ کردیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک یہ ہے۔
اب تم خود غور کرو کہ صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے بیوی سے صحبت کرناجائز ہے یا نہیں؟اس لیے امام بخاریؒ نے روایت جابر بن عبداللہ ؓ کو پیش فرمایا جس میں صراحت ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے کسی صورت میں بیوی سے مقاربت نہ کی جائے۔
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کےکئی ایک مقاصد ہیں:
ایک تو مقام ابراہیم کی تعین ہے، کیونکہ اس کے متعلق اختلاف ہے۔
بعض کے نزدیک بیت اللہ، مسجدحرام، حرم پاک یا مقامات حج سب مقام ابراہیم ہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس کی تعین کردی کہ اس سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔
دوسرا یہ کہ ارشاد باری تعالیٰ ميں امر وجوب كے ليے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس طواف کی دو رکعت پڈھنا بہتر ہے، واجب نہیں، تیسرا یہ کہ مصلی کا تعین کرنا ہے کہ اس سے مراد جائے نماز ہے، یعنی اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھناہے، وہ اس طرح کہ استقبال کعبہ بھی برقراررہے۔
چوتھا یہ کہ حکم صرف طواف کی دورکعت کے لیے ہے تمام نمازوں کے لیے نہیں، چنانچہ ان تمام مقاصد کے لیے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے کھڑے ہوکر دورکعت اداکیں جوتحیہ طواف ہیں۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس حکم نماز کے باوجود استقبال کعبہ کی فرض کی تاکید میں فرق نہیں آیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہوکرنماز پڑھنے کے باوجود استقبال کعبہ کو ترک نہیں فرمایا۔
چونکہ اس روایت میں سائل کے سوال کا جواب دو ٹوک الفاظ میں نہیں تھا بلکہ حضرت ابن عمر ؓ نے اشارہ کردیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک یہ ہے۔
اب تم خود غور کرو کہ صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے بیوی سے صحبت کرناجائز ہے یا نہیں؟اس لیے امام بخاریؒ نے روایت جابر بن عبداللہ ؓ کو پیش فرمایا جس میں صراحت ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے کسی صورت میں بیوی سے مقاربت نہ کی جائے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 395]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1647
1647. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے، بیت اللہ کا طواف کیا، پھر(طواف کی) دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد صفا ومروہ کے درمیان سعی کی۔ بعد ازاں حضرت ابن عمر ؓ نے یہ آیت تلاوت کی: ”یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی) میں بہترین نمونہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1647]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان روایات کا مدلول یہ ہے کہ عمرے کے لیے تین کاموں کا اہتمام ضروری ہے:
٭ بیت اللہ کا طواف جس میں پہلے تین چکر دوڑ کر باقی چار معمول کی رفتار سے پورے کیے جائیں۔
٭ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے یا اس کے آس پاس دو رکعت پڑھی جائیں۔
٭ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جائے۔
سبز بتیوں (Tube Lights)
کے درمیان ذرا تیز دوڑنا چاہیے۔
ان تینوں کاموں کو مکمل کر کے احرام کھولا جائے۔
(2)
واضح رہے کہ صفا اور مروہ تک ایک چکر، پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر پورا ہو جائے گا، اس طرح سات چکر لگائے جائیں۔
اس کا آغاز صفا سے اور اختتام مروہ پر ہو گا۔
صفا کی طرف سے بیت اللہ نظر آتا ہے لیکن مروہ کی طرف سے بیت اللہ نظر نہیں آتا کیونکہ مروہ اور بیت اللہ کے درمیان مسجد حرام کی عمارت آ چکی ہے۔
(3)
اگر طواف اور سعی کرتے وقت جماعت کھڑی ہو جائے تو فورا نماز میں شامل ہو جانا چاہیے۔
نماز سے فراغت کے بعد طواف اور سعی کو مکمل کر لیا جائے۔
(1)
ان روایات کا مدلول یہ ہے کہ عمرے کے لیے تین کاموں کا اہتمام ضروری ہے:
٭ بیت اللہ کا طواف جس میں پہلے تین چکر دوڑ کر باقی چار معمول کی رفتار سے پورے کیے جائیں۔
٭ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے یا اس کے آس پاس دو رکعت پڑھی جائیں۔
٭ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی جائے۔
سبز بتیوں (Tube Lights)
کے درمیان ذرا تیز دوڑنا چاہیے۔
ان تینوں کاموں کو مکمل کر کے احرام کھولا جائے۔
(2)
واضح رہے کہ صفا اور مروہ تک ایک چکر، پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر پورا ہو جائے گا، اس طرح سات چکر لگائے جائیں۔
اس کا آغاز صفا سے اور اختتام مروہ پر ہو گا۔
صفا کی طرف سے بیت اللہ نظر آتا ہے لیکن مروہ کی طرف سے بیت اللہ نظر نہیں آتا کیونکہ مروہ اور بیت اللہ کے درمیان مسجد حرام کی عمارت آ چکی ہے۔
(3)
اگر طواف اور سعی کرتے وقت جماعت کھڑی ہو جائے تو فورا نماز میں شامل ہو جانا چاہیے۔
نماز سے فراغت کے بعد طواف اور سعی کو مکمل کر لیا جائے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1647]


عمرو بن دينار الجمحي ← عبد الله بن عمر العدوي