English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
84. باب الصلاة بمنى:
باب: منی میں نماز پڑھنے کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1656
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الْخُزَاعِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ أَكْثَرُ مَا كُنَّا قَطُّ، وَآمَنُهُ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے ابواسحاق ہمدانی سے بیان کیا اور ان سے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں ہمیں دو رکعات پڑھائیں، ہمارا شمار اس وقت سب سے زیادہ تھا اور ہم اتنے بے ڈر کسی وقت میں نہ تھے۔ (اس کے باوجود ہم کو نماز قصر پڑھائی)۔ [صحيح البخاري/كتاب الحج/حدیث: 1656]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥حارثة بن وهب الخزاعيصحابي
👤←👥أبو إسحاق السبيعي، أبو إسحاق
Newأبو إسحاق السبيعي ← حارثة بن وهب الخزاعي
ثقة مكثر
👤←👥شعبة بن الحجاج العتكي، أبو بسطام
Newشعبة بن الحجاج العتكي ← أبو إسحاق السبيعي
ثقة حافظ متقن عابد
👤←👥آدم بن أبي إياس، أبو الحسن
Newآدم بن أبي إياس ← شعبة بن الحجاج العتكي
ثقة
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
1083
صلى بنا النبي آمن ما كان بمنى ركعتين
صحيح البخاري
1656
صلى بنا النبي ونحن أكثر ما كنا قط وآمنه بمنى ركعتين
صحيح مسلم
1599
صليت خلف رسول الله بمنى والناس أكثر ما كانوا فصلى ركعتين في حجة الوداع
صحيح مسلم
1598
صليت مع رسول الله بمنى آمن ما كان الناس وأكثره ركعتين
جامع الترمذي
882
صليت مع النبي بمنى آمن ما كان الناس وأكثره ركعتين
سنن أبي داود
1965
صلى بنا ركعتين في حجة الوداع
سنن النسائى الصغرى
1446
صليت مع النبي بمنى آمن ما كان الناس وأكثره ركعتين
سنن النسائى الصغرى
1447
صلى بنا رسول الله بمنى أكثر ما كان الناس وآمنه ركعتين
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1656 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1656
حدیث حاشیہ:
(1)
قرآن کریم میں نماز قصر کو حالت خوف کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
حضرت حارثہ بن وہب ؓ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ قرآن کریم کی مذکورہ شرط اتفاقی ہے احترازی نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منیٰ میں نماز قصر پڑھائی، حالانکہ ہمیں وہاں کسی کا خوف یا دشمن سے خطرہ نہیں تھا بلکہ تعداد کے اعتبار سے ہم کبھی اس سے زیادہ نہ تھے اور وہاں ہمیں کسی قسم کا خوف یا خطرہ بھی نہ تھا، اس کے باوجود رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منیٰ میں قیام کے دوران دو، دو رکعتیں پڑھائی ہیں۔
بہرحال حجاج کرام کو منیٰ میں قیام کے دوران نماز قصر کا اہتمام کرنا چاہیے، خواہ وہ مسجد خیف میں باجماعت پڑھیں یا اپنے اپنے خیموں میں ادا کریں۔
(2)
امام ابوداود ؒ نے اس حدیث سے اہل مکہ کے لیے ایام حج میں نماز قصر ثابت کی ہے کیونکہ حضرت حارثہ ؓ مکہ کے رہائشی تھے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1965)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1656]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1446
منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو ہی رکعت پڑھی، ایک ایسے وقت میں جس میں کہ لوگ سب سے زیادہ مامون و بےخوف تھے، اور تعداد میں زیادہ تھے۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1446]
1446۔ اردو حاشیہ: منیٰ می چونکہ سب حاجی مسافر ہی ہوتے ہیں، لہٰذا منیٰ میں سب حاجی قصر کریں گے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ قصر حج کی بنا پر ہے سفر کی بنا پر نہیں۔ احناف کے نزدیک جو لوگ منیٰ سے مسافت قصر کے اندر اندر رہتے ہیں، وہ پوری نماز پڑھیں گے، مگر یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں اور نہ کسی حدیث میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے والوں میں کوئی ایسی تفریق کی گئی ہو، مثلاً: یہ نہیں کہا گیا کہ مکہ والے قصر نہ کریں وغیرہ۔ صحیح بات یہی ہے کہ سب حاجی منیٰ میں قصر کریں گے۔ (قصر کے لیے خوف کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔)
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1446]

الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1965
اہل مکہ کے لیے قصر نماز کا بیان۔
ابواسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا اور ان کی والدہ عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان سے عبیداللہ بن عمر کی ولادت ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے منیٰ میں نماز پڑھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تھے، تو آپ نے ہمیں حجۃ الوداع میں دو رکعتیں پڑھائیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارثہ کا تعلق خزاعہ سے ہے اور ان کا گھر مکہ میں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1965]
1965. اردو حاشیہ: اس سےمعلوم ہوا کہ منی ٰ میں قصر کرنامناسک حج کا حصہ ہے اس لیے دیگر مسافرین کی طرح اہل مکہ بھی منیٰ میں نماز قصر کر کے ہی پڑھیں گے۔ البتہ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد اہل مکہ کامنی ٰ میں قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1965]

الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 882
منیٰ میں نماز قصر پڑھنے کا بیان۔
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 882]
اردو حاشہ:
1؎:
ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے،
مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے،
اور جو لوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 882]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1083
1083. حضرت حارثہ بن وہب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت امن منیٰ میں ہمیں دو رکعتیں پڑھائی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1083]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز قصر جنگی حالات کے ساتھ خاص ہے۔
وہ دلیل کے طور پر قرآن کریم کی وہ آیت پیش کرتے ہیں جس میں بحالت سفر نماز قصر کو ہنگامی حالات کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے وضاحت فرمائی ہے کہ دوران سفر میں بحالت امن بھی قصر کی جا سکتی ہے۔
آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال کی بنا پر کیا گیا ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت پورا عرب دار الحرب کی صورت اختیار کر چکا تھا۔
(2)
امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ قصر کی دو اقسام ہیں:
٭ قصر ارکان، یعنی نماز کی ہئیت اور ارکان میں تخفیف کر دی جائے۔
٭ قصر عدد، یعنی رکعات نماز میں تخفیف کر دی جائے، چار کے بجائے دو۔
جب خوف اور سفر دونوں ہوں تو مطلق قصر، یعنی قصر ارکان اور قصر عدد کیا جائے گا۔
جب خوف اور سفر نہ ہو تو نماز کو پورا ادا کرنا ہو گا۔
جب خوف ہو لیکن سفر نہ ہو تو قصر ارکان سے نماز پوری ادا کی جائے گی، یعنی رکعات کی تعداد میں کمی نہیں ہو گی جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر تھا۔
جب خوف نہیں صرف سفر ہے تو مقدار میں کمی ہو سکتی ہے، ارکان کی کمی جائز نہیں، اسے صلاۃ امن کہا جاتا ہے، البتہ رکعات میں کمی کے اعتبار سے اسے نماز قصر کہا جاتا ہے۔
تمام ارکان کے لحاظ سے یہ نماز پوری ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا:
سفر کی نماز دو رکعت، جمعہ بھی دو رکعت، اسی طرح نماز عید بھی دو رکعت، یہ صلاۃ تمام ہے قصر نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ایسا ہی ثابت ہے اور افترا پردازی کرنے والا نقصان میں رہے گا۔
(مسند أحمد: 1/37)
اس بحث کو امام ابن قیم ؒ نے بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔
(زادالمعاد: 1/466)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1083]