(موقوف) حدثنا محمد بن مقاتل، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يحيى بن سعيد، عن حنظلة بن قيس الانصاري، سمع رافع بن خديج، قال:" كنا اكثر اهل المدينة مزدرعا، كنا نكري الارض بالناحية منها مسمى لسيد الارض، قال: فمما يصاب ذلك وتسلم الارض، ومما يصاب الارض ويسلم ذلك، فنهينا واما الذهب والورق فلم يكن يومئذ".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ الْأَنْصَارِيِّ، سَمِعَ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، قَالَ:" كُنَّا أَكْثَرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مُزْدَرَعًا، كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ بِالنَّاحِيَةِ مِنْهَا مُسَمًّى لِسَيِّدِ الْأَرْضِ، قَالَ: فَمِمَّا يُصَابُ ذَلِكَ وَتَسْلَمُ الْأَرْضُ، وَمِمَّا يُصَابُ الْأَرْضُ وَيَسْلَمُ ذَلِكَ، فَنُهِينَا وَأَمَّا الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ فَلَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انہیں حنظلہ بن قیس انصاری نے، انہوں نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مدینہ میں ہمارے پاس کھیت دوسروں سے زیادہ تھے۔ ہم کھیتوں کو اس شرط کے ساتھ دوسروں کو جوتنے اور بونے کے لیے دیا کرتے تھے کہ کھیت کے ایک مقررہ حصے (کی پیداوار) مالک زمین لے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ خاص اسی حصے کی پیداوار ماری جاتی اور سارا کھیت سلامت رہتا۔ اور بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا۔
Narrated Rafi` bin Khadij: We worked on farms more than anybody else in Medina. We used to rent the land at the yield of specific delimited portion of it to be given to the landlord. Sometimes the vegetation of that portion was affected by blights etc., while the rest remained safe and vice versa, so the Prophet forbade this practice. At that time gold or silver were not used (for renting the land). If they provided the seeds, they would get so-and-so much.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 520
ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم منتصرا من مظلمة ظلمها قط ما لم تنتهك محارم الله فإذا انتهك من محارم الله شيء كان أشدهم في ذلك غضبا، وما خير بين أمرين إلا اختار أيسرهما ما لم يكن مأثما
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2327
حدیث حاشیہ: نقدی کرایہ کا معاملہ اس وقت نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس صورت مذکورہ میں مالک اور کاشتکار ہر دو کے لیے نفع کے ساتھ نقصان کا بھی ہر وقت احتمال تھا۔ اس لیے اس صورت سے اس معاملہ کو منع کر دیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2327
حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2327
فقہ الحدیث ◈ امام بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: «فيه دليل على جواز إجارة الأراضي، و ذهب عامة أهل العلم إلي جوازها بالدراهم و الدنانيز، و غيرها من صنوف الأموال، سواء كانت مما تنبت الأرض، أولا تنبت، إذا كان معلوما بالعيان، إو بالوصف، كما يجوز إجارة غير الأراضي من العبيد و الدواب و غيرها، و جملته إن ما جاز بيعه، جاز أن يجعل أجرة فى الإجازة۔» ”اس حدیث میں زمین کو ٹھیکے پر لینے دینے کی دلیل ہے۔ اکثر اہل علم سونے، چاندی (نقدی) اور مال کی دوسری اقسام کے عوض زمین کے ٹھیکے کے جواز کے قائل ہیں، خواہ وہ چیز زمین سے اگتی ہو یا نہ اگتی ہو، بشرطیکہ اس کی مقدار اور کیفیت معلوم ہو۔ یہ (زمین کا کرایہ پر لینا دینا) اسی طرح جائز ہے، جیسے زمین کے علاوہ دوسری چیزیں، مثلا غلام، جانور وغیرہ کو کرائے پر لینا دینا جائز ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز کی خرید و فروخت جائز ہے، اس کو اجرت کے بدلے کرائے پر لینا دینا بھی جائز ہے۔۔۔“[شرح السنة للبغوي: 263/8]
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: «و ذهب جميع فقهاء الحديث الجامعون لطرقه كلهم، كأحمد بن حنبل و أصحابه كلهم من المتقدمين، والمتأخرين، وإسحاق بن راهويه، وأبي بكر أبي شبية، وسليمان بن داود الهاشمي، و أبي خيثمة زهير بن حرب، و أكثر فقهاء الكوفيين، كسفيان الثوري، و محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي، و أبي داوٗد، وجماهير فقهاء الحديث من المتأخرين: كابن المنذر، وابن خزيمة، والخطابي، وغيرهم، و أهل الظاهر، و أكثر أصحاب أبي حنيفة إلي جواز المزراعة والمؤعة و نحو ذلك اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه و أصحابه و ما عليه السلف و عمل جمهور المسلمين» ”سنت رسول، خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل، سلف صالحین اور اکثر مسلمانوں کی روش کی پیروی میں اس حدیث کی ساری روایات کو جمع کرنے والے فقہائے حدیث، مثلا امام احمد بن حنبل، آپ رحمہ اللہ کے تمام متقدین و متاخرین اصحاب، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، امام سلیمان بن داؤد ہاشمی، امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب، اکثر فقہائے کوفہ، جیساکہ امام سفیان ثوری، محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلٰی، امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد ابویوسف و محمد، امام بخاری، امام ابوداؤد اور جمہور متاخرین فقہائے حدیث، مثلا امام ابن منذر، امام ابن خزیمہ، خطابی اور اہل ظاہر، امام ابوحنیفہ کے اکثر پیروکاروں کا مذہب ہے کہ مزارع اور ٹھیکہ وغیرہ جائزہ ہے۔۔۔۔“[مجموع الفتاوي لابن تيمية: 95-94/29، القواعد النوانية الفقهية: 163]
◈ شیخ اسلام ثانی، عالم ربانی، امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «و قال ابن المنذر: قد جائت الأخبار عن رافع بعلل، تدل على أن النهي كان بتلك العلل» ”سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے آنے والی (ٹھیکے کی ممانعت والی) روایات میں کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹھیکے کی ممانعت انہی وجوہات کی وجہ سے تھی (مطلق طور پر ٹھیکے کا معاملہ حرام نہ تھا)۔“[حاشية ابن القيم على سنن ابي داود: 186/9]
◈ نیز لکھتے ہیں: «المخابرة التى نهاهم عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم هي التى كانوا يفعلونها من المخابرة الظالمة الجائزة، و هي التى جائت مفسرة فى أحاديثهم» ۔ ”زمین کے جس معاملے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، وہ اس معاملے کی وہ صورتیں ہیں، جو ظلم و زیادتی پر منبی تھیں، ان کی وضاحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث میں آ گئی ہے۔۔“[حاشية ابن القيم على سنن ابي داوٗد: 193/9]
◈ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: «فيه دليل على جواز كراء الأرض بالذهب والورق، وقد جاءت أحاديث مطلقة فى النهي عن كرائها، وهذا مفسر لذلك الإطلاق» ”اس حدیث میں زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے کا جواز موجود ہے۔ کچھ مطلق احادیث زمین کے ٹھیکے سے ممانعت کے بارے میں آئی ہیں، یہ حدیث اس اطلاق کی تفسیر و تقیید کرتی ہے (یعنی بتاتی ہے کہ ٹھیکہ نا جائز نہیں)۔۔۔۔“[احكام الاحكام شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: ص 380] ↰ معلوم ہوا کہ ٹھیکے کی غلط صورتوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، نہ کہ مطلق ٹھیکے سے، کیونکہ خود راویٔ حدیث سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ انصار ٹھیکے کے وقت جگہ مقرر کر لیتے تھے کہ زمین کے اس ٹکڑے کی پیدوار ٹھیکے والے کو اور اس ٹکڑے کی مالک کو ملے گی، یوں کبھی ٹھیکے والے کو نقصان ہو جاتا کبھی مالک کو۔ اسی طرح معاملہ یوں طے پاتا کہ زمین سے پیداوار کم ہو یا زیادہ، مالک نے مقررہ مقدار غلہ لینا ہے۔ اس صورت میں بھی ایک فریق کو نقصان کا خدشہ ہوتا تھا، اس لیے اسے بھی شریعت نے ممنوع ٹھہرایا۔ رہی نقدی کے عوض ٹھیکے کی صورت تو یہ اس دور میں تھی ہی نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ ممنوع کیسے ہو سکتی ہے؟ فقہائے کرام اور محدثین عظام کا فہم بھی یہی ہے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2327
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث پر کوئی عنوان نہیں، گویا عنوان سابق سے ایک گونہ تعلق ہے، وہ اس طرح کہ زمین کو کچھ مدت تک بٹائی پر لیا، اب اسے حق ہے کہ اس میں جو چاہے کاشت کرے لیکن جب مدت ختم ہو جائے گی تو مالک زمین کو حق ہو گا کہ وہ اپنے درخت اکھاڑ کر یا فصل اٹھا کر خاص زمین مالک کے حوالے کرے، اس لحاظ سے عنوان سابق "قطع اشجار" سے کچھ مناسبت ہے۔ امام بخاری ؒ کے مزاج کے مطابق اس قدر مناسبت ہی کافی ہے۔ (عمدة القاري: 16/9)(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بٹائی پر زمین دینا جائز ہے لیکن زمین کے کسی مخصوص ٹکڑے کی پیداوار لینے کی شرط لگانا جائز نہیں۔ (3) نقدی کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے کا رواج راوی کے بیان کے مطابق اس وقت نہیں تھا لیکن اسی راوی کا بیان ہے کہ درہم و دینار کے عوض زمین ٹھیکے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2346) اس موضوع پر مکمل بحث آئندہ ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2327
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 3921
´نقدی کے عوض زمین کا ٹھیکے` «. . . إنما يزرع ثلاثة رجل له ارض فهو يزرعها او رجل منح ارضا فهو يزرع ما منح، او رجل استكرى ارضا بذهب او فضة . . .» ”. . . کھیتی تین طرح کے لوگ کرتے ہیں: ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً (بلامعاوضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہوئی زمین میں کھیتی کرتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی (نقد) دے کر زمین کرایہ پر لی ہو . . .“[سنن نسائي/كتاب المزارعة: 3921]
فقہ الحدیث ↰ یہ حدیث ممانعت والی احادیث کے مطلق نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے اور صراحت سے بتاتی ہے کہ نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کا معاملہ بالکل جائز و درست ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3921
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔` رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ۱؎ اور فرمایا: ”کھیتی تین طرح کے لوگ کرتے ہیں: ایک وہ شخص جس کی اپنی ذاتی زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جسے عاریۃً (بلامعاوضہ) زمین دے دی گئی ہو تو وہ دی ہوئی زمین میں کھیتی کرتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جس نے سونا چاندی (نقد) دے کر زمین کرایہ پر ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3921]
اردو حاشہ: ”سونے چاندی کے عوض“ ٹھیکے اور بٹائی میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں جائز نہیں بلکہ بٹائی ٹھیکے کے مقابلے میں مزارع کے لیے زیادہ مفید ہے۔ جس میں مزارع کو صرف کام کرنا پڑتا ہے‘ جبکہ ٹھیکے میں رقم بھی پہلے دینی پڑتی ہے اور فصل پر خرچ بھی کرنا پڑتا ہے۔ گویا ٹھیکہ امیروں کا کام ہے اور بٹائی غریبوں کا۔ اور شریعت غریبوں کی حامی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3921
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:260
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی ظلم کرے تو اس کو معاف کر دینا چاہیے، اور ذاتی انتقام نہیں لینا چاہیے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی حدود کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی نرم دل تھے لیکن اگر کوئی چوری کرتا پکڑا جا تا تو اس کا ہاتھ ضرور کاٹتے تھے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت آسان ہے، لیکن شیطان لوگوں کو دین مشکل بنا کر پیش کرتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 260
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:410
410- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انصار میں ہمارے پاس سب سے زیادہ کھیت تھے، ہم لوگ جسے ٹھیکے پر زمین دیتے تھے، اسے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں یہ والا حصہ ملتا ہے اور حصے کی پیدوار ہماری ہوگی، تو بعض اوقات اس حصے میں پیداوار ہوجاتی تھی اور اس حصے میں نہیں ہوتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کردیا۔ جہاں تک چاندی کے عوض میں (زمین کو ٹھیکے پر دینے کا تعلق ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہمیں منع نہیں کیا۔ سفیان سے کہا گیا: امام مالک نے یہ روایت ربیعہ کے حوالے سے حنظلہ نامی راوی سے نقل کی ہے، تو وہ بولے: جب یہ یحییٰ کے پاس سے مل سکتی ہے، تو پھر کسی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:410]
فائدہ: مخابرہ مزارعت کے ہم معنی ہے بلکہ مساقات، مزارعہ اور مخابرہ ایک ہی معنی میں ہیں۔ مزارعت ان کاموں میں سے ہے جو لوگوں میں زمانہ قدیم سے جاری ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کچھ درختوں کا مالک ہوتا ہے لیکن ان کا پھل لینے کے لیے ان کی مناسب دیکھ بھال اور محنت نہیں کر سکتا یا کسی کے پاس زرعی زمین ہوتی ہے لیکن اس سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے کما حقہ محنت اور رکھوالی نہیں کر سکتا جبکہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں نہ درخت ہوتے ہیں اور نہ زمین کا کوئی ٹکڑا، البتہ اگر اسے درخت یا زمین مہیا ہو جائے تو محنت کر کے ان کا پھل یا زمین سے پیداوار حاصل کر سکتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر شریعت نے فریقین کو مزارعت اور مساقات کی اجازت دے دی کیونکہ اس میں دونوں کی مصلحت اور فائدہ ہے نیز نقصان سے بچاؤ ہے۔ درحقیقت شریعت کے ہر حکم کی بنیاد عدل و انصاف اور مصلحت کے حصول اور نقصان سے بچاؤ پر ہے۔ ایک شخص اپنی زمین دوسرے کو دیتا ہے کہ وہ اس میں کاشت کرے یا زمین اور بیج دونوں کاشت کر نے والے کو دے تا کہ وہ اس زمین میں بیچ ڈالے اور اس کی نگرانی کرے تو آمدن میں سے ایک (غیر مخصوص) حصے کا وہ مستحق ہوگا باقی آمدن مالک کی ہوگی۔ یہ مزارعت کے نام سے معروف ہے۔ مساقات ومزارعت کے جواز پر کئی ایک دلائل ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عامل أهـل خيبر بشطر ما خرج منها من زرع»”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے طےکیا تھا کہ جو پھل اور غلہ ان کی زمینوں اور باغات سے حاصل ہو گا۔ نصف نصف تقسیم کیا جائے گا۔ [صحيح البخاري كتاب الحرث والــمــزارعة بـاب الـمزارعة بالشطر ونحوه حديث: 2328- وصـحـيـح مـسـلـم المساقاة باب المساقاة والمعاملة حديث 1551 واللفظ له] صحیح مسلم میں ہے: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم ولهم شطر ثمرها»”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کی کھجوروں کے درخت اور زمین یہودیوں کے حوالے کر کے انصف حصہ بٹائی پر معاملہ طے کرایا“۔ [صـحـيـح مـسـلـم الـمساقاة باب المساقاة والمعاملة حديث 1551] اس مضمون کی ایک روایت امام أحمد رحمہ اللہ نے بھی اپنی مسند میں بیان کی ہے۔ [مسند أحمد: 1/ 250] امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: خیبر کا قصہ مساقات اور مزارعت کے جواز پر دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہ معاہدہ قائم رہا منسوخ نہیں ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین ان کا اس پر تعامل رہا۔ اس معاہدے کی بنیاد اجرت پر نہ تھی بلکہ اس کا تعلق مشارکت سے تھا اور مضاربت کے مثل معاملہ تھا۔ (زاد المعاد: 3/ 345) ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس پر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اپنی اپنی خلافت میں عمل کیا اور کسی سے اس کا انکار بھی ثابت نہیں۔ [المغنى والشرح الكبير 5/ 555] نیز امام موصوف فرماتے ہیں: جو بات حدیث اور اجماع کے مخالف ہو اس پر اعتماد نہیں ہوسکتا۔ کھجور یا دیگر درختوں کے اکثر مالکان ان کو پانی دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور نہ کسی کو اجرت پر رکھ سکتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ ان کے پاس درخت نہیں لیکن وہ پھل کے ضرورت مند ہوتے ہیں تو اس مزارعت کی مشروعیت میں دونوں کی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں اور دونوں فریقوں کو فائدہ ہو جا تا ہے۔ [المغنى والشرح الكبير 5/ 555]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 410