English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
5. باب أنزل القرآن على سبعة أحرف:
باب: قرآن مجید سات قراتوں سے نازل ہوا ہے۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4991
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَقْرَأَنِي جِبْرِيلُ عَلَى حَرْفٍ فَرَاجَعْتُهُ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِيدُهُ، وَيَزِيدُنِي حَتَّى انْتَهَى إِلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھ کو (پہلے) عرب کے ایک ہی محاورے پر قرآن پڑھایا۔ میں نے ان سے کہا (اس میں بہت سختی ہو گی) میں برابر ان سے کہتا رہا کہ اور محاوروں میں بھی پڑھنے کی اجازت دو۔ یہاں تک کہ سات محاوروں کی اجازت ملی۔ [صحيح البخاري/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 4991]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥عبد الله بن العباس القرشي، أبو العباسصحابي
👤←👥عبيد الله بن عبد الله الهذلي، أبو عبد الله
Newعبيد الله بن عبد الله الهذلي ← عبد الله بن العباس القرشي
ثقة فقيه ثبت
👤←👥محمد بن شهاب الزهري، أبو بكر
Newمحمد بن شهاب الزهري ← عبيد الله بن عبد الله الهذلي
الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه
👤←👥عقيل بن خالد الأيلي، أبو خالد
Newعقيل بن خالد الأيلي ← محمد بن شهاب الزهري
ثقة ثبت
👤←👥الليث بن سعد الفهمي، أبو الحارث
Newالليث بن سعد الفهمي ← عقيل بن خالد الأيلي
ثقة ثبت فقيه إمام مشهور
👤←👥سعيد بن عفير الأنصاري، أبو عثمان
Newسعيد بن عفير الأنصاري ← الليث بن سعد الفهمي
ثقة
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
4991
انتهى إلى سبعة أحرف
صحيح البخاري
3219
انتهى إلى سبعة أحرف
صحيح مسلم
1902
انتهى إلى سبعة أحرف
المعجم الصغير للطبراني
1076
انتهى إلى سبعة أحرف
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4991 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4991
حدیث حاشیہ:

صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ اس سلسلے میں میری امت پر آسانی کریں۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1904(820)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ میری امت اس امر کی طاقت نہیں رکھتی۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1906(821)
ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ مجھے ایک فرشتے نے کہا کہ ایک حرف سے زیادہ پڑھنے کی درخواست کریں، چنانچہ مجھے سات حروف کے مطابق پڑھنے کی اجازت مل گئی۔
(سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1477)
یہ حدیث محدثین کے ہاں "سبعة أحرف" کے نام سے مشہور ہے اور ائمہ حدیث نے اس حدیث کو اپنی اپنی تالیفات میں ذکر کر کے اسے متواتر کا درجہ دیا ہے، چنانچہ اس حدیث کو بائیس(22)
سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بیان کرتے ہیں۔
اس متواتر حدیث کے کسی بھی طریق میں کوئی بھی ایسی صریح عبادت موجود نہیں جو سبعۃ احرف کی مراد کو متعین کرے جبکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کے وقت کسی بات کی وضاحت کو مؤخر نہیں کرتے۔
اس کی غالباً یہ وجہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نزدیک سبعۃ احرف کا مفہوم متعین اور اس قدر واضح تھا کہ کسی کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اور نہ وہ اس مفہوم کو سمجھنے کے لیے کسی کے محتاج ہی تھے۔
اگر ان کے ذہن میں کوئی اشکال پیدا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مشکل کا حل معلوم کرتے۔
حالانکہ یہ حضرات قرآن کریم کے متعلق اس قدر حساس تھے کہ سبعۃ احرف کے متعلق اگر کسی نے کسی دوسرے قاری سے مختلف انداز پر قراءت سنی تو قرآن کریم میں اختلاف کے واقع ہونے کے خوف سے فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جیسا کہ آئندہ حدیث میں آئے گا۔

بہرحال اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام وجوہ قراءت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہیں۔
ان میں کسی انسانی کوشش و کاوش کا کوئی دخل نہیں ہے، پھر ان وجوہ کا اختلاف تناقض و تضاد کا نہیں بلکہ تنوع اورزیادتی معنی کا ہے۔
اس تنوع کے بےشمار فوائد ہیں جو فن توجیہ القراءت میں بیان ہوئے ہیں اور اس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔
علمائے امت نے ان قراءت کو یاد کرنے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ علم القراءت ایک مستقل فن کا شکل اختیار کر گیا ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق متواتر قراءات وحی الٰہی کا حصہ ہیں۔
ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا قرآن کریم کا انکار کرنا ہے۔
واللہ اعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4991]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3219
3219. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حضرت جبرئیل ؑ نے ایک قراءت میں قرآن پڑھایا تھا۔ پھر میں ان سے مسلسل مزید قراءتوں کی خواہش کا اظہار کرتا رہا یہاں تک کہ معاملہ سات قراءتوں تک پہنچ گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3219]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید کے سات قراتوں پر اشارہ ہے۔
جن کا تفصیلی ثبوت صحیح روایات و احادیث سے ہے۔
جیسا کہ ہر زبان میں مختلف مقامات کی زبان کا اختلاف ہوتا ہے۔
عرب میں ہر قبیلہ ایک الگ دنیا میں رہتا تھا، جن میں محاورے بلکہ زیر، زبر تک کے فرق کو انتہائی درجے میں ملحوظ رکھا جاتا تھا، مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید اگرچہ ایک ہی ہے۔
لیکن قرات کے اعتبار سے خود اللہ پاک نے اس کی سات قراتیں قرار دیں ہیں۔
اس حدیث کے یہاں لانے سے حضرت جبرئیل ؑ کا وجود اور ان کے مختلف کارنامے بیان کرنا مقصود ہے۔
خاص طور پر وحی لانے کے لیے یہی مشہور فرشتہ مقرر ہے۔
جیسا کہ مختلف آیات و احادیث سے ثابت ہے۔
قرآن مجید کی قرات سبعہ پر امت کا اتفاق ہے۔
متداول اور مشہور قرات یہی ہے جو امن میں معمول ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3219]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3219
3219. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حضرت جبرئیل ؑ نے ایک قراءت میں قرآن پڑھایا تھا۔ پھر میں ان سے مسلسل مزید قراءتوں کی خواہش کا اظہار کرتا رہا یہاں تک کہ معاملہ سات قراءتوں تک پہنچ گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3219]
حدیث حاشیہ:

فن قراءت سے ناآشنا لوگ کہتے ہیں کہ قراءت سبعہ خاکم بدہن قراء حضرات کی بدمعاشی ہے۔
ہمارے نزدیک فن قراءت کے ساتھ یہ سنگین قسم کا مذاق ہے۔
اس سلسلے میں دوباتوں پر علماء کا اتفاق ہے۔
قرآن کریم کوحروف سبعہ سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشتر کلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔
سبعہ احرف سے مراد ان سات قائمہ کی قراءت ہرگز نہیں جو فن قراءت میں مشہور ہوئے ہیں کیونکہ پہلا پہلا شخص جس نے ان سات قر اءتوں کو جمع کرنے کا اہتمام کیا وہ ابن مجاہد ہے جس کا تعلق چوتھی صدی ہجری سے ہے۔

واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قراءت کے مستند ہونے کے لیے درج زیل قاعدہ ہے۔
جو قراءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگرچہ وہ موافقت بوجہ ہو، مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو، خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو، نیز وہ متواتر سند سے ثابت ہو۔
اس اصول کے مطابق جو بھی قراءت ہوگی وہ قراء ت سے صحیحہ اور ان احرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا۔
مسلمانوں کو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور اگرتینوں شرائط میں سے کسی میں خلل آجائے تو وہ قراءت شاذ، ضعیف یا باطل ہوگی۔
(النشر 9/1)
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے متن میں تمام قراءت متواترہ کی گنجائش موجود ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ موجودہ مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں۔
اس رسم الخط کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام قراءت متواترہ کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اور یہ ساری قراءات حضرت عثمان ؓ کے اطراف عالم میں بھیجے ہوئے نسخوں کے رسم الخط میں سما جاتی ہیں۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث میں حضرت جبریل ؑ اوران کے مختلف کارناموں کو ثابت کیا ہے، خاص طور پر وحی لانے کے لیے بھی یہی فرشتہ مقررہے جیسا کہ متعدد اورمختلف احادیث سے ثابت ہے، واللہ أعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3219]