صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
14. بَابُ إِثْمِ مَنْ فَاتَتْهُ الْعَصْرُ:
14. باب: اس بیان میں کہ نماز عصر چھوٹ جانے پر کتنا گناہ ہے؟
(14) Chapter. The sin of one who misses the Asr prayer (intentionally).
حدیث نمبر: 552
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الذي تفوته صلاة العصر كانما وتر اهله وماله"، قال ابو عبد الله: يتركم وترت الرجل إذا قتلت له قتيلا او اخذت له مالا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: يَتِرَكُمْ وَتَرْتُ الرَّجُلَ إِذَا قَتَلْتَ لَهُ قَتِيلًا أَوْ أَخَذْتَ لَهُ مَالًا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے نافع کے ذریعہ سے خبر پہنچائی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سورۃ محمد میں جو «يترکم» کا لفظ آیا ہے وہ «وتر» سے نکالا گیا ہے۔ «وتر» کہتے ہیں کسی شخص کا کوئی آدمی مار ڈالنا یا اس کا مال چھین لینا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said, "Whoever misses the `Asr prayer (intentionally) then it is as if he lost his family and property."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 527


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري552عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله
   صحيح مسلم1419عبد الله بن عمرمن فاتته العصر فكأنما وتر أهله وماله
   صحيح مسلم1417عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله
   جامع الترمذي175عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   سنن أبي داود414عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   سنن النسائى الصغرى513عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   سنن ابن ماجه685عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر فكأنما وتر أهله وماله
   موطأ مالك رواية يحيى الليثي20عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر كأنما وتر أهله وماله
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم107عبد الله بن عمرالذي تفوته صلاة العصر كانما وتر اهله وماله

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 552 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:552  
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر کا فوت ہونا گناہ کا باعث ہے، لیکن ایک غیر اختیاری فعل ہے اور غیراختیاری کام کے سرزد ہونے پر گناہ کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔
جواب یہ ہے کہ فوات اگرچہ غیر اختیاری طور پر ہوا لیکن جن اسباب کی وجہ سے کوتاہی ہوئی وہ تواختیاری تھے۔
بالعموم نماز کا فوت ہونا کاروباری مصروفیات اور اہل وعیال میں مشغولیت کی وجہ سے ہوتا ہے، حدیث میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ غیر اختیاری ہونے کے باوجود یہ معاملہ معمولی نہیں کہ اس کے متعلق کوتاہی کی جائے، نماز عصر کیا فوت ہوئی کہ اس کا سب کچھ لٹ گیا۔
نماز عصر کو خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ ایک توقرآن میں اس کی اہمیت وخصوصیت واضح طور پر بیان ہوئی ہے، پھر پہلی امتوں نے بھی نماز عصر میں کوتاہی کی تھی، اس لیے ہمیں خبردار کیا گیا کہ اس کی ادائیگی کے متعلق خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نماز عصر تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کی گئی تھی لیکن انھوں نے تن آسانی کی وجہ سے اس کا حق ادا نہ کیا، اس لیے تم میں سے جو انسان اس کی ادائیگی کا غیر معمولی اہتمام کرے گا، اسے اللہ کے ہاں دگنا اجر دیا جائے گا۔
(مسند أحمد: 397/6)
امام ترمذی ؒ نے مذکورہ حدیث کے مضمون کو سہوونسیان پر محمول کیا ہے، چنانچہ انھوں نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
نماز عصر سے سہو ہو جانے کا بیان۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ جب آخرت میں نماز عصر کے اہتمام پر اجرو ثواب دیا جائے گا تو اس کے متعلق سہوونسیان کاشکار ہونے والا انسان اس قدر افسوس کرے گا، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب تباہ ہوگئے ہوں۔
(فتح الباري: 42/2)
گویا امام بخاری ؒ نے اخروی حسرت و نقصان کو گناہ سے تعبیر کیا ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 552   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 107  
´جس کی نماز عصر رہ گئی؟`
«. . . مالك عن نافع عن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الذي تفوته صلاة العصر كانما وتر اهله وماله . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کا مال اور گھر والے سب کچھ اس سے چھن گیا اور وہ دیکھتا رہ گیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 107]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 552، و مسلم 626، من حديث مالك به]
تفقہ:
① تمام نمازوں کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن بعض نمازوں مثلاً نماز عصر کے سلسلے میں سخت تاکید آئی ہے۔
② تارک نماز ایسا بدنصیب، مفلس و کنگلا ہے جس کا مال و متاع اور گھر بار سب تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور اسے شعور تک نہیں۔
③ تمام نمازیں اول وقت میں اور باجماعت پڑھنی چاہیئں اور عصر کی نماز اول وقت میں اور باجماعت پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
④ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر داخل ہو جاتا ہے۔ ديكهئے: [سنن الترمذي 149، وقال: حديث حسن و صححه ابن خزيمه: 353 و ابن حبان 279 و ابن الجارود: 149، والحاكم 193/1 وغيرهم]
لہٰذا فوت ہونے سے بچنے کے لئے اول وقت پر ہی عصر پڑھ لینی چاہئے۔ نماز اول وقت پڑھنا بہترین عمل ہے۔
⑤ سیدنا ابن حدیدہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نماز عصر کے لئے جا رہا تھا، زوراء کے مقام پر مجھے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ملے اور پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا: نماز کے لئے۔ انہوں نے فرمایا: تم نے بہت دیر کر دی، جلدی کرو۔ ابن حدیدہ نے کہا: میں نے جا کر مسجد میں نماز پڑھی پھر واپس آیا تو دیکھا کہ میری لونڈی جو پانی لینے گئی ہوئی تھی، اس نے تاخیر کر دی، میں اس کی طرف رومہ کنویں پر گیا، پھر جب واپس آیا تو سورج اچھا یعنی بلند تھا۔ [الاستذكار 66/1 ح 20 وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز اول وقت پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔
مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے: [ماهنامه الحديث: 25 ص 65 اور هدية المسلمين: 7]
⑦ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ پر اتنی غشی آئی کہ آپ ہوش میں نہ رہے پھر آپ نے نماز کی قضا ادا نہ کی۔ [الموطا 13/1 ح 23 وسنده صحيح]
امام مالک نے فرمایا: ہمارا خیال ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو گیا تھا اس وجہ سے آپ نے قضا ادا نہیں کی اور اگر وقت کے دوران میں افاقہ ہو جاتا تو آپ نماز پڑھتے۔ [الموطأ ايضاً ترقيم الاستذكار: 23]
راجح یہی ہے کہ ایس حالت میں نماز کی قضا ادا کر لینی چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 195   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 414  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر چھوٹ گئی گویا اس کے اہل و عیال تباہ ہو گئے اور اس کے مال و اسباب لٹ گئے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: عبیداللہ بن عمر نے «وتر» (واؤ کے ساتھ) کے بجائے «أتر» (ہمزہ کے ساتھ) کہا ہے (دونوں کے معنی ہیں: لوٹ لیے گئے)۔ اس حدیث میں «وتر» اور «أتر» کا اختلاف ایوب کے تلامذہ میں ہوا ہے۔ اور زہری نے سالم سے، سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے «وتر» فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 414]
414۔ اردو حاشیہ:
➊ لفظ «وُتِرَ» کا ماخذ وتر (واؤ کی زبر کے ساتھ) ہو تو معنی ہیں نقص اور اس کا مابعد منصوب یا مرفوع دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور اگر وتر (واؤ کی زیر کے ساتھ) سمجھا جائے تو جرم اور تعدی کے معنی میں بھی آتا ہے۔ [النهايه ابن اثير]
امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے وتر کے معنی ہیں، کم کر دیا گیا یا چھین لیا گیا، پس وہ شخص بغیر اہل اور مال کے تنہا رہ گیا، اس لیے ایک مسلمان کو نماز عصر کو فوت کرنے سے اسی طرح بچنا چاہیے جیسے وہ گھر والوں سے اور مال کے فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔
➋ امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو «باب ماجاء فى السهو عن وقت صلاة العصر» کے ذیل میں درج فرمایا ہے۔ اس سے ان کی مرا د یہ ہے کہ انسان عصر کی نماز میں بھول کر بھی تاخیر کرے تو بےحد و شمار گھاٹے اور خسارے میں ہے، کجا یہ کہ عمداً تغافل کا شکار ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 414   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 513  
´عصر تاخیر سے پڑھنے کی وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر فوت گئی گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 513]
513 ۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 479۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 513   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث685  
´نماز عصر کی محافظت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی نماز عصر فوت ہو جائے، گویا اس کے اہل و عیال اور مال و اسباب سب لٹ گئے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 685]
اردو حاشہ:
ایک دنیا دار کی نظر میں اس سے بڑا کوئی نقصان نہیں ہوسکتا کہ اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار سب ایک ہی بار ہلاک ہوجائیں اس کے مویشی مرجائیں مکان اور عمارتیں زمین بوس ہوجائیں روپیہ پیسہ لوٹ لیا جائے اس کا گھر رہے نہ در اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوجائے لیکن نبی کریمﷺ کی نظر میں اتنا بڑا نقصان اس نقصان کا مقابلہ نہیں کرسکتا جو ایک نماز کے چھوڑنے سے ہوتا ہے۔
جس نے نفس امّارہ کی بات مان کر اور شیطان کے بہکاوے میں آ کرعصر کی صرف ایک نماز چھوڑدی اس کا نقصان اسی طرح ناقابل تلافی ہے۔ 2۔
عصر کی نماز کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے اس لیے قرآن مجید نے اس نماز کا خاص طور پر ذکر کیا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وقت کاروباری مصروفیات کا ہوتا ہےاور انسان تھوڑے سے دنیادی فائدے کے لیےاللہ کو بھول جاتا ہے لیکن دنیا کا بڑے سے بڑا منافع اس نقصان کا بدل نہیں ہوسکتا کیونکہ فائدہ تو دنیا کا ہے اور نقصان آخرت کا۔
اور دنیا کے تمام خزانے اور تمام نعمتیں اللہ کی نظر میں مچھر کے پر جتنی بھی وقعت نہیں رکھتیں، ارشاد نبوی ہے:
اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔
 (جامع الترمذي، الزهد، باب ماجاء في هوان الدنيا علي الله عزوجل، حديث: 2320)

(3)
نماز فوت ہونے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نماز وقت پر ادا نہیں ہوئی، اگرچہ بعد میں پڑھ لی۔
اس صورت میں اس کے نقصان کی مثال وہ ہے جو بیان ہوئی۔
جس نے بالکل چھوڑدی اس کا نقصان تو اس سے زیادہ ہے۔

(4)
روایت کے آخری کلمات کے یہ معنی بھی کیے گئے ہیں۔
گویا وہ شخص اہل وعیال اور مال ودولت سمیت تباہ وبرباد ہوگیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 685   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1417  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی نماز عصر فوت ہو گئی تو گویا اس کا اہل و مال ہلاک ہوگیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1417]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وُتِرَ أَهلُهُ وَمَالُه:
اہل اور مال کے لام پر نصب اور رفع (زبر،
پیش)

دونوں آ سکتے ہیں۔
اکثر ائمہ اہل ومال کو مفعول ثانی مانتے ہیں کیونکہ وتر کے دو مفعول آتے ہیں قرآن مجید ﴿لَن يَّتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ﴾ (سورۃ محمد: 35)
معنی ہو گا سلب کر لینا کہ اس سے اس کا اہل ومال سلب کر لیے گئے اور بقول ابن عبدالبر رحمہ اللہ سلب بھی اس طور پر کیے گئے کہ اس سے بدلہ اور انتقام لینے کی ضرورت ہے۔
اس طرح اسے دہرا غم لاحق ہے اہل اور مال سے محرومی اور بدلہ اور انتقام لینے کی صورت وحیلہ کی فکروتلاش۔
اور اگر اہل ومال کو نائب فاعل بنا کر مرفوع پڑھیں تو معنی ہو گا اس کا اہل ومال تباہ وہلاک ہو گیا۔
(2)
تَفُوتُهُ العَصرُ:
علماء نے عصر کے فوت ہونے کے مختلف معانی مراد لیے ہیں:
(1)
عصر کا وقت نکل گیا۔
(2)
سورج کی رنگت بدل گئی۔
(3)
وقت مختار نکل گیا۔
(4)
عصر کی جماعت رہ گئی۔
عصر کی نماز کی تخصیص اس لیے ہے کہ یہ کاروبار اور خریدوفروخت میں مشغولیت کا وقت ہےاور انسان دنیوی کاروبار کو ترجیح دیتے ہوئے اس نماز سے سستی کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہ اپنے اہل وعیال کی خاطر کرتا ہے۔
اس لیے فرمایا یہ حرکت جن کی خاطر کر رہا ہے تو یہ درحقیقت ان دونوں کی خیروبرکت سے محروم ہو رہا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1417   

  الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 20  
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی عصر کی نماز قضا ہو گئی تو گویا لٹ گیا اس کا گھر بار۔ [موطا امام مالك: 20]
فائدہ:
قرآن و حدیث میں نمازِ عصر کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
«حَافِظُوا علَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاة الوسطى» [البقرة 238: 2]
تمام نمازوں پر پابندی کرو خصوصاً درمیانی نماز (نمازِ عصر) پر
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
«مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ»
جس نے نماز عصر چھوڑ دی تو اس کے عمل ضائع ہو گئے۔ [صحيح بخاري: 553]
اگرچه نمازِ عصر کا مکمل وقت تو سورج ڈوبنے تک باقی رہتا ہے لیکن اسے سورج زرد ہونے سے پہلے پہلے پڑھ لینا چاہیے، مجبوری پیش آجائے تو الگ بات ہے، فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«تِلكَ صَلاةُ المُنَافِقِ يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ»
یہ منافق کی نماز ہے کہ وہ بیٹھا رہتا ہے، سورج کو دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان میں ہو جاتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور نماز میں اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر تھوڑا سا۔ [صحيح مسلم: 622]
موطا کی روایت میں جو گھر بار اور مال لٹ جانے کا تذکرہ ہے اس کے مختلف مفہوم ہیں، مثلا نمازِ عصر ترک کرنے سے اتنا عظیم نقصان ہوتا ہے جتنا کہ گھر بار لٹ جانے سے ہوتا ہے، اسے دنیا میں یا آخرت میں اتناغم لاحق ہو گا جتنا گھر بار لٹنے سے ہوتا ہے، نیز نمازِ عصر ادا نہ کرنے کا وبال یہ بھی پڑتا ہے کہ نہ بیوی بچے آدمی کے قابو میں رہتے ہیں اور نہ مال میں برکت پڑتی ہے۔ [والله اعلم]
   موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 20   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.