صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
42. باب سكرات الموت:
باب: موت کی سختیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 6512
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ:" مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ:" الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ، وَالْبِلَادُ، وَالشَّجَرُ، وَالدَّوَابُّ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو حلحلہ نے، ان سے سعد بن کعب بن مالک نے، ان سے ابوقتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ نے، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ «مستريح» یا «مستراح» ہے یعنی اسے آرام مل گیا، یا اس سے آرام مل گیا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ”المستریح او المستراح منہ“ کا کیا مطلب ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پا جاتا ہے وہ «مستريح» ہے اور «مستراح» منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پا جاتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كتاب الرقاق/حدیث: 6512]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥الحارث بن ربعي السلمي، أبو قتادة | صحابي | |
👤←👥محمد بن كعب الأنصاري محمد بن كعب الأنصاري ← الحارث بن ربعي السلمي | ثقة | |
👤←👥محمد بن عمرو الديلي محمد بن عمرو الديلي ← محمد بن كعب الأنصاري | ثقة | |
👤←👥مالك بن أنس الأصبحي، أبو عبد الله مالك بن أنس الأصبحي ← محمد بن عمرو الديلي | رأس المتقنين وكبير المتثبتين | |
👤←👥إسماعيل بن أبي أويس الأصبحي، أبو عبد الله إسماعيل بن أبي أويس الأصبحي ← مالك بن أنس الأصبحي | صدوق يخطئ |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
6513
| مستريح ومستراح منه المؤمن يستريح |
صحيح البخاري |
6512
| المؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله العبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر |
صحيح مسلم |
2202
| المؤمن يستريح من نصب الدنيا العبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب |
سنن النسائى الصغرى |
1932
| المؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها العبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب |
سنن النسائى الصغرى |
1933
| المؤمن يموت فيستريح من أوصاب الدنيا ونصبها وأذاها الفاجر يموت فيستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب |
موطا امام مالك رواية ابن القاسم |
467
| العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا واذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب |
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6512 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6512
حدیث حاشیہ:
بندے اس طرح آرام پاتے ہیں کہ اس کے ظلم وستم اور برائیوں سے چھوٹ جاتے ہیں خس کم جہاں پاک ہوا۔
ایماندار تکالیف دنیا سے آرام پا کر داخل جنت ہوتا ہے۔
بندے اس طرح آرام پاتے ہیں کہ اس کے ظلم وستم اور برائیوں سے چھوٹ جاتے ہیں خس کم جہاں پاک ہوا۔
ایماندار تکالیف دنیا سے آرام پا کر داخل جنت ہوتا ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6512]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 467
دنیا دکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے
«. . . عن ابى قتادة بن ربعي انه كان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة فقال: ”مستريح ومستراح منه.“ فقالوا: يا رسول الله، ما المستريح والمستراح منه؟ قال: ”العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا واذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب . . .»
”. . . سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مستريح» (پرسکون و پُرآرام) یا «مسترح منه» (لوگ جس سے سکون و آرام میں ہوں) ہے۔“ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! «مستريح» اور «مستراح منه» کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت کی طرف سکون و آرام حا صل کرتا ہے اور فاطر (گناہ گار) بندے سے بندوں، شہروں درختوں اور جانوروں کو آ رام و سکون حاصل ہو تا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 467]
«. . . عن ابى قتادة بن ربعي انه كان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة فقال: ”مستريح ومستراح منه.“ فقالوا: يا رسول الله، ما المستريح والمستراح منه؟ قال: ”العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا واذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب . . .»
”. . . سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مستريح» (پرسکون و پُرآرام) یا «مسترح منه» (لوگ جس سے سکون و آرام میں ہوں) ہے۔“ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! «مستريح» اور «مستراح منه» کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت کی طرف سکون و آرام حا صل کرتا ہے اور فاطر (گناہ گار) بندے سے بندوں، شہروں درختوں اور جانوروں کو آ رام و سکون حاصل ہو تا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 467]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6512، ومسلم 950، من حديث مالك به]
تفقه
➊ مومن کے لئے دنیا راحت و آرام کی جگہ نہیں بلکہ قید خانہ ہے اور موت اس کے لئے راحت کا پیغام ہے۔
➋ دنیا دکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے جن کا علاج اللہ، رسول اور آخرت پر ایمان ہے۔ یہ ایمان انسان کے دل و دماغ میں صبر و تحمل اور قرآن و حدیث کی مسلسل اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
➌ کتاب و سنت کے مخالفین چاہے کفار ہوں یا فساق و فجار، انہوں نے دنیا میں ظلم و تشدد، فسق و فجور، قتل و قتال اور نافرمانی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
➍ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا خیر خواہ ہوتا ہے۔
➎ ہر مسلمان کو ہمہ وقت کوشش میں رہنا چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو راحت و آرام پہنچائے اور کبھی کسی کو تکلیف نہ دے۔
➏ موت مومن کے لئے ایک نعمت ہے جس کے ذریعے سے بندہ مومن دنیا کی مصیبتوں سے نجات پا کر راحت آخرت کی طرف سفر کرتا ہے جبکہ کافر و فاسق کی موت سے دنیا میں کچھ لوگوں کو اس کے ظلم و ستم سے راحت نصیب ہوتی ہے۔
➐ اللہ کے نافرمان بندوں سے زمین ہی نہیں درخت و جانور تک تنگ ہوتے ہیں اور اس کی موت سے راحت پاتے ہیں۔
[وأخرجه البخاري 6512، ومسلم 950، من حديث مالك به]
تفقه
➊ مومن کے لئے دنیا راحت و آرام کی جگہ نہیں بلکہ قید خانہ ہے اور موت اس کے لئے راحت کا پیغام ہے۔
➋ دنیا دکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے جن کا علاج اللہ، رسول اور آخرت پر ایمان ہے۔ یہ ایمان انسان کے دل و دماغ میں صبر و تحمل اور قرآن و حدیث کی مسلسل اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
➌ کتاب و سنت کے مخالفین چاہے کفار ہوں یا فساق و فجار، انہوں نے دنیا میں ظلم و تشدد، فسق و فجور، قتل و قتال اور نافرمانی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
➍ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا خیر خواہ ہوتا ہے۔
➎ ہر مسلمان کو ہمہ وقت کوشش میں رہنا چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو راحت و آرام پہنچائے اور کبھی کسی کو تکلیف نہ دے۔
➏ موت مومن کے لئے ایک نعمت ہے جس کے ذریعے سے بندہ مومن دنیا کی مصیبتوں سے نجات پا کر راحت آخرت کی طرف سفر کرتا ہے جبکہ کافر و فاسق کی موت سے دنیا میں کچھ لوگوں کو اس کے ظلم و ستم سے راحت نصیب ہوتی ہے۔
➐ اللہ کے نافرمان بندوں سے زمین ہی نہیں درخت و جانور تک تنگ ہوتے ہیں اور اس کی موت سے راحت پاتے ہیں۔
[موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 101]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1932
موت سے مومن کو آرام مل جاتا ہے۔
ابوقتادہ بن ربعی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ لے جایا گیا، تو آپ نے فرمایا: (یہ) «مستریح» ہے یا «مستراح منہ» ہے، تو لوگوں نے پوچھا: «مستریح» اور «مستراح منہ» سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ مومن (موت کے بعد) دنیا کی بلا اور تکلیف سے راحت پا لیتا ہے، اور فاجر ۱؎ بندہ مرتا ہے تو اس سے اللہ کے بندے، بستیاں، پیڑ پودے، اور چوپائے (سب) راحت پا لیتے ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1932]
ابوقتادہ بن ربعی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ لے جایا گیا، تو آپ نے فرمایا: (یہ) «مستریح» ہے یا «مستراح منہ» ہے، تو لوگوں نے پوچھا: «مستریح» اور «مستراح منہ» سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ مومن (موت کے بعد) دنیا کی بلا اور تکلیف سے راحت پا لیتا ہے، اور فاجر ۱؎ بندہ مرتا ہے تو اس سے اللہ کے بندے، بستیاں، پیڑ پودے، اور چوپائے (سب) راحت پا لیتے ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1932]
1932۔ اردو حاشیہ:
➊ ”مومن شخص“ یہاں مومن سے متقی شخص مراد ہے جو لوگوں کو بھی ایذا نہیں پہنچاتا اور جانوروں پر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی پابندی کرتا ہے۔ ان کاموں میں سے اسے دنیا میں تکلیف وغیرہ پہنچے تو اس پر صبر کرتا ہے۔ دنیا میں معاش کے سلسلے میں اسے محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ دنیا میں بیماری اور پریشانیاں ”دنیا کے رنجو غم“ سب اس میں داخل ہیں۔
➋ ”بکار شخص“ اس سے مراد صرف کافر ہی نہیں بلکہ وہ اشخاص بھی اس میں داخل ہیں جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں، جانوروں کو ایذا پہنچاتے ہیں، آبادیوں کو ویران کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی بھی پروا نہیں کرتے۔ فسق و فجور میں بگ ٹٹ دوڑے جاتے ہیں، حتی کہ ان کے فسق و فجور کی وجہ سے بارش رک جاتی ہے اور ان کی نحوست سے قحط سالی آپڑتی ہے۔ بے گناہ جانور اور درخت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، البتہ وہ لوگ جن سے گناہ تو صادر ہوتے ہیں (کیونکہ ہر انسان خطاکار ہے) مگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں، معافی مانگتے ہیں تو وہ ”فاجر“ اور ”بکار“ کے تحت داخل نہیں کیونکہ معافی اور توبہ گناہ ک ختم کر دیتے ہیں، بلکہ توبہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ رحمتیں فرماتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (استغفروا ربکم انہ کان غفارا o یرسل السمآء علیکم مدرارا) (نوح 11، 10/71) لہٰذا توبہ اور استغفار کرنے والا انسان، خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو، لوگوں، شہروں، جانوروں اور درختوں کے لیے رحمت کا سبب ہے۔
➊ ”مومن شخص“ یہاں مومن سے متقی شخص مراد ہے جو لوگوں کو بھی ایذا نہیں پہنچاتا اور جانوروں پر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی پابندی کرتا ہے۔ ان کاموں میں سے اسے دنیا میں تکلیف وغیرہ پہنچے تو اس پر صبر کرتا ہے۔ دنیا میں معاش کے سلسلے میں اسے محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ دنیا میں بیماری اور پریشانیاں ”دنیا کے رنجو غم“ سب اس میں داخل ہیں۔
➋ ”بکار شخص“ اس سے مراد صرف کافر ہی نہیں بلکہ وہ اشخاص بھی اس میں داخل ہیں جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں، جانوروں کو ایذا پہنچاتے ہیں، آبادیوں کو ویران کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی بھی پروا نہیں کرتے۔ فسق و فجور میں بگ ٹٹ دوڑے جاتے ہیں، حتی کہ ان کے فسق و فجور کی وجہ سے بارش رک جاتی ہے اور ان کی نحوست سے قحط سالی آپڑتی ہے۔ بے گناہ جانور اور درخت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، البتہ وہ لوگ جن سے گناہ تو صادر ہوتے ہیں (کیونکہ ہر انسان خطاکار ہے) مگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں، معافی مانگتے ہیں تو وہ ”فاجر“ اور ”بکار“ کے تحت داخل نہیں کیونکہ معافی اور توبہ گناہ ک ختم کر دیتے ہیں، بلکہ توبہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ رحمتیں فرماتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (استغفروا ربکم انہ کان غفارا o یرسل السمآء علیکم مدرارا) (نوح 11، 10/71) لہٰذا توبہ اور استغفار کرنے والا انسان، خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو، لوگوں، شہروں، جانوروں اور درختوں کے لیے رحمت کا سبب ہے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1932]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1933
کفار و مشرکین کی موت سے لوگوں راحت ملتی ہے۔
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک جنازہ نظر آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ «مستریح» ہے یا «مستراح منہ» ہے، (کیونکہ) جب مومن مرتا ہے تو دنیا کی مصیبتوں، بلاؤں اور تکلیفوں سے نجات پا لیتا ہے، اور فاجر مرتا ہے تو اس سے (اللہ کے) بندے، ملک و شہر، پیڑ پودے، اور چوپائے (سب) راحت پا لیتے ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1933]
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک جنازہ نظر آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ «مستریح» ہے یا «مستراح منہ» ہے، (کیونکہ) جب مومن مرتا ہے تو دنیا کی مصیبتوں، بلاؤں اور تکلیفوں سے نجات پا لیتا ہے، اور فاجر مرتا ہے تو اس سے (اللہ کے) بندے، ملک و شہر، پیڑ پودے، اور چوپائے (سب) راحت پا لیتے ہیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1933]
1933۔ اردو حاشیہ: باب میں کافر کا لفظ ہے اور حدیث میں فاجر کا، اشارہ ہے کہ فاجر سے مراد کافر ہے یا کافروں جیسا۔ واللہ أعلم۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1933]
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2202
ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آرام پانے والا ہے یا لوگوں کو اس سے آرام (چھٹکارہ) حاصل ہو گیا ہے۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مُسْتَرِیحٌ اور مُسْتَرَاحٌ مِّنْه سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن بندہ دنیا کی تکلیفوں اور مشقتوں سےآرام پاتا ہے اور برے بندہ سے، بندوں، علاقوں اوردرختوں اور حیوانات کو آرام مل جاتا ہے۔“... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2202]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
برے اور بدکار انسان کے ہاتھ اور زبان سے تمام مخلوق تنگ ہوتی ہے۔
اور اس کی بدعملیوں اور کرتوتوں کی نحوست سے بھی مخلوق کے لیے اذیت اورتکلیف کا باعث بنتی ہے وہ ہر چیز کے خلاف ہاتھ اور زبان استعمال کرتا ہے اس کے گناہوں کے سبب بارش بند ہوتی ہے۔
فوائد ومسائل:
برے اور بدکار انسان کے ہاتھ اور زبان سے تمام مخلوق تنگ ہوتی ہے۔
اور اس کی بدعملیوں اور کرتوتوں کی نحوست سے بھی مخلوق کے لیے اذیت اورتکلیف کا باعث بنتی ہے وہ ہر چیز کے خلاف ہاتھ اور زبان استعمال کرتا ہے اس کے گناہوں کے سبب بارش بند ہوتی ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2202]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6513
6513. حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(یہ مرنے والا یا تو) خود آرام پانے والا ہے یا دوسرے بندوں کو آرام دینے والا ہے مومن تو ہر صورت میں آرام ہی پاتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6513]
حدیث حاشیہ:
ایماندار بندہ تو آرام ہی پاتا ہے۔
جعلنا اللہ منهم۔
آمین۔
ایماندار بندہ تو آرام ہی پاتا ہے۔
جعلنا اللہ منهم۔
آمین۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6513]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6513
6513. حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(یہ مرنے والا یا تو) خود آرام پانے والا ہے یا دوسرے بندوں کو آرام دینے والا ہے مومن تو ہر صورت میں آرام ہی پاتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6513]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے پیش نظر ہر مرنے والا دو حالتوں میں سے ایک کا ضرور سامنا کرتا ہے یا وہ خود آرام پانے والا ہے یا دوسروں کو اس سے آرام ملتا ہے۔
ہر حالت میں اس پر موت کے وقت سختی بھی کی جا سکتی ہے اور اس پر نرمی کا بھی امکان ہے۔
پہلی صورت میں اسے موت کی سختیوں سے پالا پڑتا ہے۔
موت کی شدت کا تعلق انسان کی پرہیزگاری یا بدکاری سے نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ شخص اہل تقویٰ سے ہے تو اس کے درجات بلند ہوتے ہیں اور اگر مومن اہل تقویٰ نہیں تو اس کی برائیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
پھر وہ دنیا کی اذیتوں اور تکلیفوں سے نجات پا جاتا ہے۔
موت کی سختی کے باوجود مومن کو فرشتوں کی بشارت سے اس قدر راحت ملتی ہے کہ اس کے مقابلے میں موت کی سختی کا کچھ وزن نہیں ہوتا، گویا مومن اس قسم کی سختی کو محسوس ہی نہیں کرتا۔
(فتح الباري: 444/11)
اس حدیث کے پیش نظر ہر مرنے والا دو حالتوں میں سے ایک کا ضرور سامنا کرتا ہے یا وہ خود آرام پانے والا ہے یا دوسروں کو اس سے آرام ملتا ہے۔
ہر حالت میں اس پر موت کے وقت سختی بھی کی جا سکتی ہے اور اس پر نرمی کا بھی امکان ہے۔
پہلی صورت میں اسے موت کی سختیوں سے پالا پڑتا ہے۔
موت کی شدت کا تعلق انسان کی پرہیزگاری یا بدکاری سے نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ شخص اہل تقویٰ سے ہے تو اس کے درجات بلند ہوتے ہیں اور اگر مومن اہل تقویٰ نہیں تو اس کی برائیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
پھر وہ دنیا کی اذیتوں اور تکلیفوں سے نجات پا جاتا ہے۔
موت کی سختی کے باوجود مومن کو فرشتوں کی بشارت سے اس قدر راحت ملتی ہے کہ اس کے مقابلے میں موت کی سختی کا کچھ وزن نہیں ہوتا، گویا مومن اس قسم کی سختی کو محسوس ہی نہیں کرتا۔
(فتح الباري: 444/11)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6513]


محمد بن كعب الأنصاري ← الحارث بن ربعي السلمي