(مرفوع) حدثني عبد الله بن الصباح، حدثنا محبوب بن الحسن، حدثنا خالد، عن حميد بن هلال، عن ابي بردة، عن ابي موسى، ان رجلا اسلم، ثم تهود، فاتى معاذ بن جبل وهو عند ابي موسى، فقال: ما لهذا؟، قال:" اسلم ثم تهود، قال: لا اجلس حتى اقتله قضاء الله ورسوله صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ رَجُلًا أَسْلَمَ، ثُمَّ تَهَوَّدَ، فَأَتَى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَهُوَ عِنْدَ أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: مَا لِهَذَا؟، قَالَ:" أَسْلَمَ ثُمَّ تَهَوَّدَ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى أَقْتُلَهُ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے محبوب بن الحسن نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے حمید بن ہلال نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص اسلام لایا پھر یہودی ہو گیا پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آئے اور وہ شخص ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ انہوں نے پوچھا اس کا کیا معاملہ ہے؟ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اسلام لایا پھر یہودی ہو گیا، پھر انہوں نے کہا کہ جب تک میں اسے قتل نہ کر لو نہیں بیٹھوں گا، یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے۔
Narrated Abu Musa: A man embraced Islam and then reverted back to Judaism. Mu`adh bin Jabal came and saw the man with Abu Musa. Mu`adh asked, "What is wrong with this (man)?" Abu Musa replied, "He embraced Islam and then reverted back to Judaism." Mu`adh said, "I will not sit down unless you kill him (as it is) the verdict of Allah and His Apostle.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 271
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7157
حدیث حاشیہ: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا اسی سے باب کا مطلب نکلتا ہے کہ شرعی حکم صاف ہوتے ہوئے انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی اجازت لینا ضروری نہیں جانا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7157
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7157
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کے دو الگ الگ علاقوں میں گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ ان دونوں حضرات کی ایک دوسرےکے پاس آمدورفت رہتی تھی چنانچہ ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے آئے تو وہاں آدمیوں کو جمع دیکھا اور ایک آدمی کو دیکھا جس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ باندھے گئے تھے انھوں نے اس کے متعلق پوچھا تو انھیں صورت حال سے آگاہ کردیا گیا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں تو اپنی سواری سے نہیں اتروں گا۔ حتی کہ اسے کیفر کردار تک پہنچادیا جائے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اسے قتل کرنے کے لیے ہی یہاں لایا گیا ہے آپ تشریف لائیں لیکن انھوں نے اصرار کیا تو اسے قتل کردیا گیا پھر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی سواری سے اترے۔ (صحیح البخاری المغازی حدیث: 4341۔ 4342) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال یہ ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتد یہودی کو قتل کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماتحت حاکم اپنے حاکم اعلیٰ کے نوٹس میں لائے بغیر حدود اور قصاص کے فیصلے کر سکتا ہے اور ایسا کرنا شریعت کے خلاف نہیں۔ واللہ اعلم۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7157
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4071
´مرتد کے حکم کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا، پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھیجا، جب وہ (معاذ) یمن آئے تو کہا: لوگو! میں تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے گاؤ تکیہ رکھ دیا تاکہ وہ اس پر (ٹیک لگا کر) بیٹھیں، پھر ایک شخص ان کے پاس لایا گیا جو یہودی تھا، وہ اسلام قبول کر لینے کے بعد کافر ہو گیا تھا، تو معاذ رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4071]
اردو حاشہ: (1) حدیث کی باب کے ساتھ مناسبت بالکل واضح ہے کہ مرتد اگر اپنے ارتداد سے توبہ نہ کرے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنا تعارف کرا سکتا ہے، چاہے وہ صاحب مرتبہ ہو یا کوئی عام آدمی ہو جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اہل یمن کو اپنا تعارف کرایا۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علماء، امراء اور مسلمان بھائی ایک دوسرے کی زیارت کے لیے جا سکتے ہیں۔ (4) اکرام ضیف، یعنی مہمان کی عزت افزائی کرنے پر بھی یہ حدیث دلالت کرتی ہے، جس طرح کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے معزز مہمان حضرت معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے تکیہ یا گدا وغیرہ بچھایا تھا۔ (5) حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی منکر اور غیر شرعی کام کے انکار میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ (6) جس شخص پر، اس کے کسی جرم کی وجہ سے، حد واجب ہو چکی ہو اس پر حد قائم کرنا ضروری ہے۔ (7) یہ حدیث دلیل ہے کہ شرعی حد کی تنفیذ، حاکم وقت کی شرعی ذمہ داری ہے، اس میں سستی، غفلت اور اپنی صوابدید پر معافی دینا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4071