English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
12. باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين قد بين الله حكمهما، ليفهم السائل:
باب: ایک امر معلوم کو دوسرے امر واضح سے تشبیہ دینا جس کا حکم اللہ نے بیان کر دیا ہے تاکہ پوچھنے والا سمجھ جائے۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 7314
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ وَإِنِّي أَنْكَرْتُهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَلْوَانُهَا؟، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ؟، قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: فَأَنَّى تُرَى ذَلِكَ جَاءَهَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِرْقٌ نَزَعَهَا، قَالَ: وَلَعَلَّ هَذَا عِرْقٌ نَزَعَهُ وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ فِي الِانْتِفَاءِ مِنْهُ".
ہم سے اصبغ بن الفرج نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کو میں اپنا نہیں سمجھتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہیں۔ دریافت کیا کہ ان کے رنگ کیسے ہیں؟ کہا کہ سرخ ہیں۔ پوچھا کہ ان میں کوئی خاکی بھی ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں ان میں خاکی بھی ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ پھر کس طرح تم سمجھتے ہو کہ اس رنگ کا پیدا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ممکن ہے اس بچے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بچے کے انکار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ [صحيح البخاري/كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة/حدیث: 7314]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أبو هريرة الدوسيصحابي
👤←👥أبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري، أبو سلمة
Newأبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري ← أبو هريرة الدوسي
ثقة إمام مكثر
👤←👥محمد بن شهاب الزهري، أبو بكر
Newمحمد بن شهاب الزهري ← أبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري
الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه
👤←👥يونس بن يزيد الأيلي، أبو يزيد، أبو بكر
Newيونس بن يزيد الأيلي ← محمد بن شهاب الزهري
ثقة
👤←👥عبد الله بن وهب القرشي، أبو محمد
Newعبد الله بن وهب القرشي ← يونس بن يزيد الأيلي
ثقة حافظ
👤←👥أصبغ بن الفرج الأموي، أبو عبد الله
Newأصبغ بن الفرج الأموي ← عبد الله بن وهب القرشي
ثقة
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
5305
لعله نزعه عرق قال فلعل ابنك هذا نزعه
صحيح البخاري
6847
هل لك من إبل قال نعم قال ما ألوانها قال حمر قال هل فيها من أورق قال نعم قال فأنى كان ذلك قال أراه عرق نزعه قال فلعل ابنك هذا نزعه عرق
صحيح البخاري
7314
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال هل فيها من أورق قال إن فيها لورقا قال فأنى ترى ذلك جاءها قال يا رسول الله عرق نزعها قال ولعل هذا عرق نزعه ولم يرخص له في الانتفاء منه
صحيح مسلم
3766
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال هل فيها من أورق قال إن فيها لورقا قال فأنى أتاها ذلك قال عسى أن يكون نزعه عرق قال وهذا عسى أن يكون نزعه عرق
صحيح مسلم
3768
هل لك من إبل قال نعم قال ما ألوانها قال حمر قال فهل فيها من أورق قال نعم قال رسول الله فأنى هو قال لعله يا رسول الله يكون نزعه عرق له فقال له النبي وهذا لعله يكون نزعه عرق له
جامع الترمذي
2128
امرأتي ولدت غلاما أسود فقال النبي هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال فهل فيها أورق قال نعم إن فيها لورقا قال أنى أتاها ذلك قال لعل عرقا نزعها قال فهذا لعل عرقا نزعه
سنن أبي داود
2260
عسى أن يكون نزعه عرق
سنن النسائى الصغرى
3508
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال فهل فيها من أورق قال إن فيها لورقا قال فأنى ترى أتى ذلك قال عسى أن يكون نزعه عرق فقال رسول الله وهذا عسى أن يكون نزعه عرق
سنن النسائى الصغرى
3509
هل لك من إبل قال نعم قال ما ألوانها قال حمر قال هل فيها من أورق قال فيها ذود ورق قال فما ذاك ترى قال لعله أن يكون نزعها عرق قال فلعل هذا أن يكون نزعه عرق قال فلم يرخص له في الانتفاء منه
سنن النسائى الصغرى
3510
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال فهل فيها جمل أورق قال فيها إبل ورق قال فأنى كان ذلك قال ما أدري يا رسول الله إلا أن يكون نزعه عرق قال وهذا لعله نزعه عرق فمن أجله قضى رسول الله هذا لا يجوز لرجل أن ينتفي من ولد ولد على ف
سنن ابن ماجه
2002
هل لك من إبل قال نعم قال فما ألوانها قال حمر قال هل فيها من أورق قال إن فيها لورقا قال فأنى أتاها ذلك قال عسى عرق نزعها قال وهذا لعل عرقا نزعه
بلوغ المرام
944
فلعل ابنك هذا نزعه عرق
مسندالحميدي
1115
هل لك من إبل؟
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7314 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7314
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو رنگ مختلف ہونے پر قیاس کیا ہے اور اس میں قیاس صحیح کی شرائط کا بھی پتاچلتا ہے کیونکہ اصل، یعنی اونٹوں کا رنگ مختلف ہونا واضح اور بین ہے۔
جس کااعرابی نے انکار نہیں کیا اور اس کی علت بھی نمایاں ہے جس کی خود اعرابی نے نشاندہی کی ہے۔
اس کا مقصود بھی اعرابی کو مطمئن کرنا تھا۔
اس کی فرع بچوں کی رنگت ہے اور حکم اس رنگت کا مختلف ہونا ہے۔
اس کے علاوہ قرآن وحدیث سے حجیت قیاس پر متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
واللہ أعلم۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7314]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 944
لعان کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالے رنگ کا بچہ جنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ تو اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے کہا سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا وہ کہاں سے آ گیا؟ وہ بولا کوئی رگ اسے کھینچ لائی ہو گی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تیرے اس بیٹے کو بھی کوئی رگ کھینچ لائی ہو گی۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ وہ اس بچے کی نفی کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور اس روایت کے آخر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نفی کی رخصت و اجازت نہ دی۔ «بلوغ المرام/حدیث: 944»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب إذا عرّض بنفي الولد، حديث:5305، ومسلم، اللعان، حديث:1500.»
تشریح:
1. کالے رنگ نے صحابی کو مغالطے اور اشتباہ میں مبتلا کر دیا کہ ہم میاں بیوی میں سے تو کوئی بھی سیاہ رنگ کا نہیں‘ پھر یہ بچہ اس رنگ کا کہاں سے پیدا ہوگیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس نے عندیہ اور مافی الضمیر ظاہر کیا تو آپ نے اسے ڈانٹ پلائی نہ اس کی بیوی کی صریح الفاظ میں صفائی پیش فرمائی‘ بلکہ عربوں کی ذہنی سطح پر اتر کر آپ نے سمجھایا اور اس کے مغالطے کی تصحیح کردی کہ سفید رنگ کے زوجین (میاں بیوی) کے ہاں سیاہ رنگ بچے کی پیدائش بچے کی ماں کی بدکاری و بدچلنی پر دلالت نہیں کرتی۔
یہ خاندانی اثرات ہوتے ہیں جو کبھی بہت دور نسل میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔
اس سے بچے کے نسب پر درحقیقت کوئی عیب اور نقص واقع نہیں ہوتا۔
2. اس سے معلوم ہوا کہ سائل کو جواب حکمت سے اور اس کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھ کر دینا چاہیے۔
فلسفیانہ جواب کی بجائے عام روزمرہ کی مثالوں سے جواب دینا تفہیم مدعا کے لیے زیادہ مفید اور کارگر ہے۔
3.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کی حقیقت کا علم نہ ہو اسے صاحب علم سے دریافت کر لینا انسان کوبہت بڑے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
[بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 944]

فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3508
مرد عورت پر بدکاری کا شبہ کرے اور بیٹے کے بارے میں شک کرے اور اس سے اپنی برأت کا ارادہ کرے تو اس کے حکم کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ بنی فرازہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: کس رنگ کے ہیں؟، اس نے کہا لال رنگ (کے ہیں)، آپ نے فرمایا: کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: (جی ہاں) ان میں خاکست۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3508]
اردو حاشہ:
اس آدمی کو بچے کے بارے میں شک تھا کہ کہیں ناجائز نہ ہو؟ مگرچونکہ اس نے صراحتاً نہ تو الزام لگایا نہ بچے کی نفی کی‘ لہٰذا لعان کی ضرورت نہ پڑی۔ البتہ اس نے اشکال پیش کیا کہ رنگ کے لحاظ سے یہ مجھ سے یکسر مختلف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح مثال بیان فرما کر اشکال دور فرما دیا کہ کبھی کسی دور والے باپ‘ یعنی دادے وغیرہ سے بھی مشابہت ہوجاتی ہے۔ ممکن ہے تیرا کوئی باپ دادا سیاہ رنگ کا ہو۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3508]

فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3510
مرد عورت پر بدکاری کا شبہ کرے اور بیٹے کے بارے میں شک کرے اور اس سے اپنی برأت کا ارادہ کرے تو اس کے حکم کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کھڑا ہو کر کہا: اللہ کے رسول! میرے یہاں ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہاں سے آیا یہ اس کا کالا رنگ؟، اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟، اس نے کہا: جی ہاں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3510]
اردو حاشہ:
(1) بچے میں کئی قسم کی مشابہتیں پائی جاسکتی ہیں‘ قریب کے کسی فرد کے ساتھ بھی‘ بعید کے فرد کے ساتھ بھی اور دوافراد کے ساتھ بھی‘ لہٰذا رنگ وروپ یا نین نقش کی بنا پر کسی بچے کو مشکوک قرار دے کر اس کی نفی نہیں کی جاسکتی جب تک زنا ہونے کا یقین نہ ہو۔ اگر وہ نفی کرے گا تو اسے لعان کرنا پڑے گا یا حد کا مستحق ہوگا۔
(2) اس کے بستر پر یعنی اس کی بیوی یا لونڈی سے پیدا ہوا ہو۔ بیوی یا لونڈی کو استعارتاً بستر کہہ دیا جاتا ہے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3510]

الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2260
جب بچے کے متعلق شک ہو تو کیا حکم ہے؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی فزارہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا بچہ جنا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے جواب دیا: ہاں، پوچھا: کون سے رنگ کے ہیں؟ جواب دیا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا کوئی خاکستری بھی ہے؟ جواب دیا: ہاں، خاکی رنگ کا بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پھر یہ کہاں سے آ گیا؟، بولا: شاید کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بھی ہو سکتا ہے (تمہارے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2260]
فوائد ومسائل:

محض رنگ وروپ کی بناء پر اپنے بچے سے انکار کردینا حرام ہے۔
ہاں کوئی اور واضح دلیل ہو تو اور بات ہے۔
مثلاًشوہر کے غائب رہنے کی صورت میں حمل اور ولادت ہو یا بعد از نکاح چھ ماہ سے کم میں ولادت ہو وغیرہ۔
اس حدیث میں مذکور شخص کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس کا نام ضمضم بن قتادہ تھا۔
(کتاب الغوا مض عبد الغنی بن سعید)

قاضی مفتی اور داعی حضرات کو چاہیے کہ شرعی مسائل سے حسب ضرورت واقعاتی مثالوں سے واضح فرمایا کریں۔

[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2260]

مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2002
آدمی کا اپنے لڑکے میں شک کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا بچہ جنا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، ان میں خاکی رنگ کے بھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں خاکی رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: کسی رگ نے یہ ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2002]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  باپ اور بیٹے کے رنگ میں فرق اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ بیٹا اپنے باپ کی جائز اولاد نہیں۔

(2)
رگ کے زور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ودھیال یا ننھیال کے کسی بزرگ:
مثلاً:
دادی، دادا، نانی، نانا یا ان کے بزرگوں میں سے کسی کی مشابہت بچے میں آگئی ہے، یعنی ان کے خون کا اثر ہے۔

(3)
  اپنی بیوی پر اس طرح اشارے کنائے سے شک کا اظہار بیوی پر اس الزام میں شمار نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں لعان کی ضرورت پڑتی ہے۔
لعان اس وقت ہوتا ہے جب مرد صاف طور پراپنی بیوی پر بدکاری کا الزام عائد کرے یا یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرے کہ یہ بچہ میرا نہیں۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2002]

الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2128
باپ اپنے بچے کا انکار کر دے تو اس کے حکم کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیوی سے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے پوچھا: وہ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا: سرخ۔ آپ نے پوچھا: کیا اس میں کوئی مٹمیلے رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، اس میں ایک خاکستری رنگ کا بھی ہے۔ آپ نے پوچھا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: شاید وہ کوئی خاندانی رگ کھینچ لایا ہو گا ۱؎، آپ نے فرمایا: اس لڑکے نے بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة/حدیث: 2128]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہوگا۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2128]

الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1115
1115- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بنوفزارہ سے تعلق رکھنے والا ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری بیوی نے سیاہ فام لڑکے کو جنم دیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے عرض کی: سرخ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا ان میں کوئی خاکستری بھی ہے؟ اس نے عرض کی: ان میں ایک خاکستری بھی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: وہ کہاں سے آگیا؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1115]
فائدہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ اگر کبھی اولاد میں سے ایک کا رنگ دوسرے بچوں کے بالکل مخالف ہو تو پریشان نہیں ہونا چاہیے، اور گمان نہیں کرنا چاہے کہ یہ بچہ میرے نطفے سے نہیں ہے، بلکہ بعض دفعہ وہ بچہ اپنے خاندان کے پہلے گزرے ہوئے انسان کی مثل ہوتا ہے، اسی چیز کو رگ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1113]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3766
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور الفاظ قتیبہ کے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو فزارہ کا ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، میری بیوی نے سیاہ بچہ جنا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وہ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا، سرخ رنگ کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ان میں کوئی خاکستری (مٹیالا)... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3766]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اورق جمع ورق:
خاکستری،
مٹیالا۔
(2)
عرق:
جڑ،
اصل،
رگ،
مقصود خاندانی نسبت ہے۔
فوائد ومسائل:
بنو فزارہ کے فرد ضمضم بن قتادہ نے اپنی رنگت کا لحاظ کرتے ہوئے بیٹے کی سیاہ رنگت پر ناپسندیدگی اور تعجب کا اظہارکیا۔
اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا۔
آپ نے بات سمجھانے کے لیے ایک تشبیہ اور تمثیل پیش کی تھی کہ بات ذہن نشین ہو جائے یہ قیاس اصطلاحی نہیں ہے کہ اس کو دلیل قیاس بنایا جا سکے۔
لیکن بہر حال اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے،
محض اختلاف رنگت سے بچے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اور اس طرح بچے کی رنگت پر تعجب اور ناپسندیدگی کا اظہار الزام تراشی اور تہمت قرارنہیں دیا جائے گا۔
یا قذف میں تعریض واشارہ پر حد نہیں ہے تصریح کی صورت میں ہی قذف شمار ہوگا اور جمہور کا یہی موقف ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3766]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3768
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہا، اے اللہ کے رسول! میری بیوی نے سیاہ فام بچہ جنا ہے، اور میں اسے انوکھا محسوس کرتا ہوں یا مجھے اس پر حیرت و تعجب ہے (میں اجنبیت اور بیگانگی محسوس کرتا ہوں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے جواب دیا، سرخ رنگ ہیں۔ آپ صلی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3768]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(اني انكره)
میں اس کا انکار کرتا ہوں،
معنی کرنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ تو صریح قذف ہے،
حالانکہ آپ نے اس کو قذف قرارنہیں دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب فرشتوں کو دیکھا تو ﴿نَكِرَهُمْ﴾ ان کو اجنبی اور بیگانہ پایا اور حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے تو فرمایا:
﴿إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ﴾ تم اجنبی اور بیگانہ لوگ ہو
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3768]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5305
5305. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میرے ہاں ایک سیاہ فام بچہ پیدا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان کے کیا رنگ ہیں؟ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا ان میں کوئی سیاہی مائل بھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ سیاہی مائل اونٹ کیسے آ گیا؟ اس نے کہا: شاید کسی رگ نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کو کسی رگ نے کھینچ لیا ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5305]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا کہ باپ کے بارے میں اشارہ بھی معتبر سمجھا جائے گا۔
تشریح:
الفاظ حدیث فلعل ابنُكَ ھَذَا نَزَعَهُ سے نکلا کہ صرف لڑکے کی صورت یا رنگ کے اختلاف پر یہ کہنا درست نہیں کہ یہ لڑکا میرا نہیں ہے جب تک قوی دلیل سے حرام کا ری ثبوت نہ ہو۔
مثلاً آنکھوں سے اس کو زنا کراتے ہوئے دیکھا ہو یا جب خاوند نے جماع کیا ہو اس سے چھ مہینے کم میں لڑکا پیدا ہو، جب جماع کیا ہو اس سے چار برس بعد بچہ پیدا ہو۔
حدیث سے بھی یہی نکلا کہ اشارہ اور کنایہ میں قذف کرناموجب حد نہیں اور مالکیہ کے نزدیک اس میں بھی حد واجب ہوگی۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5305]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6847
6847. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالا بچہ جنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں اس نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا ان میں کوئی سیاہ بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ سیاہ کیسے ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے خیال کے مطابق کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6847]
حدیث حاشیہ:
حکیموں نے لکھا ہے کہ رنگ کے اختلاف سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بچہ اس مرد کا نہیں ہے۔
اس لیے کہ بعض اوقات ماں باپ دونوں گورے ہوتے ہیں مگر لڑکا سانولا پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ماں حمل کی حالت میں کسی سانولے مرد کو یا کالی چیز کو دیکھتی رہتی ہے۔
اس کا رنگ بچہ کے رنگ پر اثر کرتا ہے۔
البتہ اعضاء میں مناسبت ماں باپ سے ضرور ہوتی ہے مگر وہ بھی ایسی مخلوط کہ جس کو قیافہ کا علم نہ ہو وہ نہیں سمجھ سکتا۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ تعریض کے طور پر قذف کرنے میں حد نہیں پڑتی۔
امام شافعی اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہما کا یہی قول ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حد لگاتے۔
مرد نے اپنی عورت کے متعلق جو کہا یہی تعریف کی مثال ہے۔
اس نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکا حرام کا ہے مگر مطلب یہی ہے کہ وہ لڑکا میرے نطفے سے نہیں ہے کیوں کہ میں گورا ہوں میرا لڑکا تو میری طرح گورا ہی ہوتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہی حکمت بتائی اور اس مرد کی تشفی ہو گئی۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6847]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5305
5305. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میرے ہاں ایک سیاہ فام بچہ پیدا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان کے کیا رنگ ہیں؟ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا ان میں کوئی سیاہی مائل بھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ سیاہی مائل اونٹ کیسے آ گیا؟ اس نے کہا: شاید کسی رگ نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کو کسی رگ نے کھینچ لیا ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5305]
حدیث حاشیہ:
(1)
جو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا اس نے دوٹوک الفاظ میں نومولود کی نفی نہیں کی بلکہ نفی کا اشارہ کیا تھا کہ میرا رنگ سفید ہے اور میرے ہاں بچہ سیاہ فام ہے، اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دے کر اسے مطمئن کر دیا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ کسی شکل و صورت یا رنگ کے اختلاف پر یہ کہنا درست نہیں کہ یہ میرا بیٹا نہیں جب تک حرام کاری کا واضح ثبوت نہ ہو، مثلاً:
نکاح کے بعد چھ ماہ سے کم مدت میں بچہ پیدا ہوا تو انکار کیا جا سکتا ہے۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اشارے اور کنائے سے حد قذف نہیں لگائی جا سکتی اور نہ یہ لعان کا باعث ہے جبکہ مالکی حضرات کے نزدیک اشارے اور کنائے سے حد قذف لگائی جا سکتی ہے۔
(فتح الباري: 549/9)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5305]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6847
6847. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے کالا بچہ جنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں اس نے کہا:جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا: وہ سرخ ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا ان میں کوئی سیاہ بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ سیاہ کیسے ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے خیال کے مطابق کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6847]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں تعریض اور اشارہ اس طرح ہے کہ بچے کا کالا پیدا ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ماں نے ایسے شخص سے زنا کیا ہے جس کا رنگ کالا تھا کیونکہ میں سفید رنگ کا ہوں۔
یہ امر واضح ہے کہ تعریض کے ساتھ قذف، صریح قذف کے حکم میں نہیں، لہٰذا ایسا شخص قاذف نہیں ہوگا اور نہ ایسے شخص کی گواہی ہی مردود ہوگی کیونکہ حد قذف واضح تصریح سے واجب ہوتی ہے، تعریض یا اشارے میں حد قذف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، البتہ ایسے شخص کے لیے بھی ڈانٹ ڈپٹ ضروری ہے۔
تعریض اور تصریح میں فرق یہ ہے کہ دوران عدت میں عورت سے نکاح کی تعریض ہو سکتی ہے لیکن تصریح نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی وضاحت کی ہے۔
(2)
واضح رہے کہ اس قسم کا سوال تین طرح سے کیا جا سکتا ہے:
٭جس خاوند کا رنگ سفید ہو اور اس کی بیوی سیاہ رنگ کا بچہ جنم دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ٭میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں سفید رنگ کا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟ ٭میری بیوی نے زنا کیا ہے اور سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے جبکہ میں سفید رنگ کا ہوں، اس کا کیا حکم ہے؟پہلا سوال، محض سوال، دوسرا تعریض اور تیسرا تصریح قذف ہے۔
بہرحال اس قسم کی تعریض سے حد قذف نہیں لگتی۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی ہے بصورت دیگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قذف لگاتے۔
واللہ أعلم
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6847]