وعن الزبير بن العوام رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لان ياخذ احدكم حبله، فياتي بحزمة من الحطب على ظهره، فيبيعها، فيكف الله بها وجهه، خير له من ان يسال الناس، اعطوه او منعوه» . رواه البخاري.وعن الزبير بن العوام رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لأن يأخذ أحدكم حبله، فيأتي بحزمة من الحطب على ظهره، فيبيعها، فيكف الله بها وجهه، خير له من أن يسأل الناس، أعطوه أو منعوه» . رواه البخاري.
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا جنگل سے اپنی پشت پر اٹھا کر لائے پھر اسے فروخت کر دے تو (اللہ تعالیٰ) اس وجہ سے اس کے چہرے کو مانگنے سے روک دیتا ہے۔ یہ (کام) اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے اور لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔“(بخاری)
हज़रत ज़ुबैर बिन अवाम रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “अगर तुम में से कोई रस्सी ले कर लकड़ियों का गट्ठा जंगल से अपनी पीठ पर उठा कर लाए फिर उसे बेच दे तो (अल्लाह तआला) इस वजह से उस के चहरे को मांगने से रोक देता है । ये (काम) उस के लिए इस से अच्छा है कि वह लोगों से मांगता फिरे और लोग उसे दें या न दें ।” (बुख़ारी)
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الزكاة، باب الاستعفاف عن المسألة، حديث:1471.»
Az-Zubair bin Al-Awwam (RAA) narrated that The Messenger of Allah (ﷺ) said:
“It is better for any of you to take a rope and cut some wood (from the forest) and carry it over his back and sell it, to preserve his dignity (as he is earning his own living), rather than ask a person for something and that person may give him or not.” Related by Al-Bukhari.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 518
لغوی تشریح 518: بِحُزْمَۃِ الْحَطَبِ حزمۃ کی ”حا“ پر ضمہ اور ”زا“ ساکن ہے۔ لکڑیوں کا گٹھا۔ فَیَکُفَّ الْلّٰہَ بِھَا وَجھَہُ یعنی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کی عزت وآبرو کو محفوظ رکھتا ہے اور دستِ سوال دراز کرنے کی رسوائی سے باز رکھتا ہے۔
فائدہ 518: اس حدیث کی رو سے گداگری اور بھیک مانگنا قابلِ مذمت فعل ہے۔ کما کر کھانا اور محنت و مشقت کر کے حاصل کرنا بہتر ہے۔ سوالی اور گداگر کو اگر کچھ مل بھی جائے تو سوال کرنے کی ذلت کیا کچھ کم ہے۔ بھیک مانگنے سے عزت وآبرو نہیں رہتی۔ معاشرے میں وقار کم ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی نگاہوں میں ایسے آدمی کا کوئی مقام ومرتبہ نہیں رہتا۔ مفت خوری کی بد عادت ایسے آدمی کو کاہل و سست بنا کر رکھ دیتی ہے۔ معاشرے کی ترقی متأثر ہو جاتی ہے۔ اور ایسا شخص بسا اوقات چوری اور ہیراپھیری جیسی بری عادات کا خوگر بن کر رہ جاتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 518
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1836
´سوال کرنا اور مانگنا مکروہ اور ناپسندیدہ کام ہے۔` زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی اپنی رسی لے اور پہاڑ پر جا کر ایک گٹھا لکڑیوں کا اپنی پیٹھ پر لادے، اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت پر قناعت کرے، تو یہ اس کے لیے لوگوں کے سامنے مانگنے سے بہتر ہے کہ لوگ دیں یا نہ دیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1836]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) بھیک مانگنا اسلام کی نظر میں قابل نفرت چیز ہے۔ اگر آدمی کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو جو معاشرے میں وقار کا حال سمجھا جاتا ہے تو محنت مزدوری کو عار نہیں سمجھنا چاہیے۔ جو چیز کسی کی ملکیت نہ ہو اس میں سے ہر شخص ضرورت کے مطابق لے سکتا ہے۔ جو پیشہ لوگوں کی نظر میں حقیر ہے اس کے ذریعے سے دیانت داری کے ساتھ کام کرتے ہوئے روزی کمانا بھی عزت کا باعث ہے۔ جو شخص معذوری کی وجہ سے روزی نہیں کما سکتا، اسلامی حکومت یا مسلمان عوام کا فرض ہے کہ اس کی جائز ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1836
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1471
1471. حضرت زبیر بن عوام ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”تم میں سے کوئی رسی لے اور لکڑیوں کا گٹھا اپنی پشت پر لاد کر لائے اور اسے فروخت کرے۔ اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اس کے چہرے کو سوال سے بچائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، وہ اسے دیں یا نہ دیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1471]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے راوی حضرت زبیر بن عوام ؓ ہیں جن کی کنیت ابوعبداللہ قریشی ہے۔ ان کی والدہ حضرت صفیہ عبدالمطلب کی بیٹی اور آنحضور ﷺ کی پھوپھی ہیں۔ یہ اور ان کی والدہ شروع میں ہی اسلام لے آئے تھے جب کہ ان کی عمر سولہ سال کی تھی۔ اس پر ان کے چچا نے دھویں سے ان کا دم گھوٹ کر تکلیف پہنچائی تاکہ یہ اسلام چھوڑ دیں مگر انہوں نے اسلام کو نہ چھوڑا۔ یہ تمام غزوات میں آنحضور ﷺ کے ساتھ رہے اور یہ وہ ہیں جنہوں نے سب سے اول تلوار اللہ کے راستے میں سونتی۔ اور آنحضور ﷺ کے ساتھ جنگ احد میں ڈٹے رہے۔ اور عشرہ مبشرہ میں ان کا بھی شمار ہے۔ چونسٹھ سال کی عمر میں بصرہ میں شہید کردئیے گئے۔ یہ حادثہ 36 ھ میں پیش آیا۔ اول وادی سباع میں دفن ہوئے۔ پھر بصرہ میں منتقل کردئیے گئے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1471
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2373
2373. حضرت زبیر بن عوام ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص رسیاں اٹھا کر لکڑیوں کا گٹھا بنائے، پھر اسے فروخت کردے، اس کے باعث اللہ تعالیٰ اس کی خود داری محفوظ رکھے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے، اسےکچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2373]
حدیث حاشیہ: بڑے ہی ایمان افروز انداز میں مسلمانوں کو تجارت کی ترغیب دلائی گئی ہے خواہ وہ کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر ہو۔ بہرحال سوال کرنے سے بہتر ہے خواہ ا س کوپہاڑ سے لکڑیاں کاٹ کر اپنے سر پر لاد کر لانی پڑیں۔ اور ان کی فروخت سے وہ گزران کرسکے۔ بیکاری سے یہ بدرجہا بہتر ہے۔ روایت میں صرف لکڑی کا ذکر ہے۔ حضرت امام نے گھاس کو بھی باب میں شامل فرما لیا ہے گھاس جنگل سے کھود کر لانا اور بازار میں فروخت کرنا۔ یہ بھی عنداللہ بہت ہی محبوب ہے کہ بندہ کسی مخلوق کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔ آگے حدیث میں گھاس کا بھی ذکر آرہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2373
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2075
2075. حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اپنی رسیوں کولے(اور لکڑیاں اکٹھی کرکے لائے تو ایسا کرنالوگوں کے سامنے دست سوال پھیلانے سے بہتر ہے۔)" [صحيح بخاري، حديث نمبر:2075]
حدیث حاشیہ: یعنی سوال سے بچنا اور خود محنت مزدوری کرکے گذران کرنا ایک سچے مسلمان کی زندگی یہی ہونی ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2075
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1471
1471. حضرت زبیر بن عوام ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”تم میں سے کوئی رسی لے اور لکڑیوں کا گٹھا اپنی پشت پر لاد کر لائے اور اسے فروخت کرے۔ اللہ تعالیٰ اس وجہ سے اس کے چہرے کو سوال سے بچائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، وہ اسے دیں یا نہ دیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1471]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں سوال کی مذمت بیان ہوئی ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو آدمی اپنا مال بڑھانے کی غرض سے سوال کرتا ہے وہ اپنے لیے انگاروں کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگتا، اب اس کی مرضی ہے انہیں کم کرے یا زیادہ کرے۔ “(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2399(1041) رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: ”مانگنا ایک زخم ہے جس سے انسان اپنے چہرے کو زخمی کرتا ہے، البتہ ایسا شخص جو مجبوری کی وجہ سے سوال کرے یا سربراہ مملکت سے مانگے تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں۔ “(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1639)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1471
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2075
2075. حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اپنی رسیوں کولے(اور لکڑیاں اکٹھی کرکے لائے تو ایسا کرنالوگوں کے سامنے دست سوال پھیلانے سے بہتر ہے۔)" [صحيح بخاري، حديث نمبر:2075]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں ایک سچے مسلمان کی علامت بیان ہوئی ہے کہ وہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے،دوسروں کے سامنے دست سوال نہیں پھیلاتا کیونکہ اس میں ذلت ورسوائی ہے۔ مسلمان کبھی دوسروں کے سامنے خود کو ذلیل وخوار نہیں کرتا۔ مسند احمد میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سی کمائی زیادہ پاک اور اچھی ہے؟تو آپ نے فرمایا: "آدمی کا اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا،نیز ہر تجارت جو پاکبازی کے ساتھ ہو۔ "(مسند احمد: 4/141) اس سے معلوم ہوا کہ سب سے اچھی کمائی تو وہ ہے جو خود اپنے دست وبازو اور محنت سے کی جائے اور اس تجارت کی کمائی بھی پاکیزہ ہے جو شریعت کے احکام کے مطابق اور دیانت داری کے ساتھ ہو۔ والله اعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2075