فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2733
´حج تمتع کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں تمتع کیا ۱؎ یعنی پہلے عمرہ کیا پھر حج کیا اور ہدی بھیجی، بلکہ اپنے ساتھ ذوالحلیفہ سے ہدی لے گئے (وہاں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عمرہ کا تلبیہ پکارا پھر حج کا تلبیہ پکارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی تمتع کیا، یعنی عمرے کا احرام باندھا پھر حج کا۔ البتہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ہدی بھیجی اور اپنے ساتھ بھی لیے گئے، اور کچھ لوگ ایسے تھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2733]
اردو حاشہ:
(1) حج تمتع کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف اس بات میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع فرمایا یا قران؟ صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قران فرمایا تھا۔ اور تمتع، قران کو بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ لغوی طور پر تمتع کے معنیٰ فائدہ اٹھانا ہیں۔ تمتع اور قران دونوں میں حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے، لہٰذا دونوں کو لغوی طور پر تمتع کہا جا سکتا ہے ورنہ اصل تمتع یہی ہے کہ عمرہ کر کے حلال ہو، پھر الگ احرام کے ساتھ حج کرے۔ اس حدیث میں بھی تمتع لغوی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
(2) ”پہلے عمرے کی لبیک پکاری“ یہ بات مشہور روایات کے خلاف ہے۔ سابقہ روایت میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے بیان ہے کہ آپ نے حج کی لبیک پکاری۔ صحیح یہ ہے کہ آپ نے حج پر عمرہ داخل فرمایا۔
(3) ہر حرام چیز حلال ہونے سے مراد احرام کا ختم ہوناہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2733
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2932
´حج افراد کرنے والے کے طواف کا بیان۔`
وبرہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اس حال میں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ میں نے حج کا احرام باندھ رکھا ہے، تو کیا میں بیت اللہ کا طواف کروں؟ تمہیں کیا چیز روک رہی ہے؟ اس نے کہا: میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو اس سے روکتے دیکھا ہے ۱؎، لیکن آپ ہمیں ان سے زیادہ پسند ہیں انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حج کا احرام باندھا پھر بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2932]
اردو حاشہ:
(1) مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص نے میقات سے حج کا احرام باندھا ہو، وہ مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف کر سکتا ہے یا نہیں؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ حاجی طواف قدوم نہیں کرے گا، اگر وہ مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف اور سعی کر لے گا تو اس کا طواف اس کے حج کو عمرہ بنا دے گا، لہٰذا وہ طواف اور سعی کرنے کے بعد حلال ہو جائے اور حج کے دنوں میں حج کا نیا احرام باندھے اور حج کرے۔ اس طرح اس کا حج تمتع بن جائے گا اور اس کے لیے قربانی ذبح کرنی واجب ہوگی۔ ان کا یہ موقف صحیح نہیں تھا۔ ان کے برعکس جمہور کا موقف ہی راجح ہے کہ مفرد طواف قدوم کر سکتا ہے۔ بہرحال حج تمتع کے علاوہ، حج افراد اور حج قران بھی جائز ہیں۔ حج قران کی صورت میں حاجی مکہ جاتے ہی طواف وسعی کرنے کے باوجود حالت احرام ہی میں رہے گا تاآنکہ حج کے افعال سے فارغ ہو جائے۔ اس کے لیے قربانی لازم ہوگی۔ یہ طواف، طواف قدوم ہوگا۔ اس کا حج کا احرام قائم رہے گا۔ حج کے دنوں میں اسی احرام سے حج کرے اور یہ صرف حج ہوگا، قربانی واجب نہیں ہوگی۔ حج تمتع کرنے والا طواف وسعی کے بعد حلال ہو جائے گا اور پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھے گا۔ متمتع کے لیے بھی قربانی ضروری ہے۔
(2) ہر مسلمان پر اتباع کتاب وسنت واجب ہے۔ اگر کوئی مفتی یا عالم کوئی ایسا فتویٰ صادر کرے جو قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2932