(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد، قال: كان عمر بن الخطاب يقول: الدية للعاقلة ولا ترث المراة من دية زوجها شيئا حتى قال له الضحاك بن سفيان كتب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اورث امراة اشيم الضبابي من دية زوجها فرجع عمر، قال احمد بن صالح، حدثنا عبد الرزاق بهذا الحديث، عن معمر، عن الزهري، عن سعيد، وقال فيه، وكان النبي صلى الله عليه وسلم استعمله على الاعراب. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِح، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ يَقُولُ: الدِّيَةُ للْعَاقِلةِ وَلا تَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا شَيْئًا حَتَّى قَالَ لهُ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ كَتَبَ إِلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُوَرِّثَ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيَّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا فَرَجَعَ عُمْرُ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِح، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ مُعَمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، وَقَالَ فِيهِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَعْرَابِ.
سعید کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پہلے کہتے تھے کہ دیت کنبہ والوں پر ہے، اور عورت اپنے شوہر کی دیت سے کچھ حصہ نہ پائے گی، یہاں تک کہ ضحاک بن سفیان نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھ بھیجا تھا کہ اشیم ضبابی کی بیوی کو میں اس کے شوہر کی دیت میں سے حصہ دلاؤں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے قول سے رجوع کر لیا ۱؎۔ احمد بن صالح کہتے ہیں کہ ہم سے عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر کے واسطہ سے بیان کی ہے وہ اسے زہری سے اور وہ سعید سے روایت کرتے ہیں، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (یعنی ضحاک کو) دیہات والوں پر عامل بنایا تھا۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ آپ کو صحیح حدیث مل گئی، حدیث یا آیت کے مل جانے پر رائے اور قیاس پر اعتماد صحیح نہیں ہے، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کہ جن کی اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ضروری ہے ان کا یہ حال ہو کہ اپنی رائے و قیاس کو حدیث پہنچتے ہی چھوڑ دیں تو فقہاء و مجتہدین کی رائے کس شمار میں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدیات 19 (1415)، سنن ابن ماجہ/الدیات 12 (2642)، (تحفة الأشراف: 4973)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/452) (صحیح)»
Narrated Umar ibn al-Khattab: Saeed said: Umar ibn al-Khattab said: Blood-money is meant for the clan of the slain, and she will not inherit from the blood-money of her husband. Ad-Dahhak ibn Sufyan said: The Messenger of Allah ﷺ wrote to me that I should give a share to the wife of Ashyam ad-Dubabi from the blood-money of her husband. So Umar withdrew his opinion. Ahmad ibn Salih said: AbdurRazzaq transmitted this tradition to us from Mamar, from az-Zuhri on the authority of Saeed. In this version he said: The Prophet ﷺ made him governor over the bedouins.
USC-MSA web (English) Reference: Book 18 , Number 2921
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (3063) وللحديث شواھد حسن عند الطبراني (2/276 ح 5315) وغيره
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2927
فوائد ومسائل: 1۔ مقتول کے سلسلے میں ملنے والی دیت اس کی ملکیت شمار ہوکر اس کے شرعی وارثوں میں تقسیم ہوگی۔ جن میں سے ایک وارث بیوی بھی ہے۔
2۔ کسی بھی مسلمان کو روا نہیں کہ صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے آئمہ مجتہدین کے فتویٰ رائے یا اجتہاد کو ترجیح دے۔
3۔ اشیم ضبابی کو ابن عبد البر نے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں شمار کیا ہے۔ اور ضبابی کے متعلق لکھتے ہیں۔ کہ یہ ضباب کی طرف نسبت ہے۔ جو کہ کوفہ میں ایک قلعہ ہے۔ (عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2927
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1415
´شوہر کی دیت سے بیوی کے میراث پانے کا بیان۔` سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر رضی الله عنہ کہتے تھے: دیت کی ادائیگی عاقلہ ۱؎ پر ہے، اور بیوی اپنے شوہر کی دیت سے میراث میں کچھ نہیں پائے گی، یہاں تک کہ ان کو ضحاک بن سفیان کلابی نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک فرمان لکھا تھا: ”اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے میراث دو“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1415]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: دیت کے باب میں عقل، عقول اور عاقلہ کا ذکر اکثر آتا ہے اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے: عقل دیت کا ہم معنی ہے، اس کی اصل یہ ہے کہ قاتل جب کسی کو قتل کرتا تودیت کی ادائیگی کے لیے اونٹوں کو جمع کرتا، پھر انہیں مقتول کے اولیاء کے گھر کے سامنے رسیوں میں باندھ دیتا، اسی لیے دیت کا نام عقل پڑگیا، اس کی جمع عقول آتی ہے، اور عاقلہ باپ کی جہت سے قاتل کے وہ قریبی لوگ ہیں جو قتل خطا کی صورت میں دیت کی ادائیگی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
2؎: سنن ابوداؤد کی روایت میں ا تنا اضافہ ہے کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول ”بیوی شوہر کی دیت سے میراث نہیں پائے گی“ سے رجوع کرلیا۔
نوٹ: (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ سعید بن المسیب کے عمر رضی اللہ عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، ملاحظہ ہو صحیح ابی داؤد رقم: 2599)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1415