سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
17. بَابُ : صَدَاقِ النِّسَاءِ
17. باب: عورتوں کے مہر کا بیان۔
Chapter: Dowries of women
حدیث نمبر: 1887
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، عن ابن عون . ح وحدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا يزيد بن زريع ، حدثنا ابن عون ، عن محمد بن سيرين ، عن ابي العجفاء السلمي ، قال: قال عمر بن الخطاب :" لا تغالوا صداق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، او تقوى عند الله، كان اولاكم واحقكم بها محمد صلى الله عليه وسلم، ما اصدق امراة من نسائه، ولا اصدقت امراة من بناته اكثر من اثنتي عشرة اوقية، وإن الرجل ليثقل صدقة امراته حتى يكون لها عداوة في نفسه، ويقول: قد كلفت إليك علق القربة، او عرق القربة، وكنت رجلا عربيا مولدا، ما ادري ما علق القربة، او عرق القربة".
(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ . ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ :" لَا تُغَالُوا صَدَاقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوًى عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ أَوْلَاكُمْ وَأَحَقَّكُمْ بِهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُثَقِّلُ صَدَقَةَ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ، وَيَقُولُ: قَدْ كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ، أَوْ عَرَقَ الْقِرْبَةِ، وَكُنْتُ رَجُلًا عَرَبِيًّا مَوْلِدًا، مَا أَدْرِي مَا عَلَقُ الْقِرْبَةِ، أَوْ عَرَقُ الْقِرْبَةِ".
ابوعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: عورتوں کے مہر مہنگے نہ کرو، اس لیے کہ اگر یہ دنیا میں عزت کی بات ہوتی یا اللہ تعالیٰ کے یہاں تقویٰ کی چیز ہوتی تو اس کے زیادہ حقدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں میں سے کسی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا، اور مرد اپنی بیوی کے بھاری مہر سے بوجھل رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مہر اس کے دل میں بیوی سے دشمنی کا سبب بن جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں نے تیرے لیے تکلیف اٹھائی یہاں تک کہ مشک کی رسی بھی اٹھائی، یا مجھے مشک کے پانی کی طرح پسینہ آیا۔ ابوعجفاء کہتے ہیں: میں پیدائش کے اعتبار سے عربی تھا ۱؎، عمر رضی اللہ عنہ نے جو لفظ «علق القربۃ» یا «عرق القربۃ» کہا: میں اسے نہیں سمجھ سکا۔

وضاحت:
۱؎: یعنی اصلاً عرب کا رہنے والا نہ تھا بلکہ دوسرے ملک سے آ کر عرب میں پیدا ہوا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/النکاح 29 (2106)، سنن الترمذی/النکاح 23 (1114)، سنن النسائی/النکاح 66 (3349)، (تحفة الأشراف: 10655)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/41، 48) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that: Abu Ajfa As-Sulami said: “Umar bin Khattab said: 'Do not go to extremes with regard to the dowries of women, for if that were a sign of honor and dignity in this world or a sign of Taqwa before Allah, then Muhammad (ﷺ) would have done that before you. But he did not give any of his wives and none of his daughters were given more than twelve uqiyyah. A man may increase dowry until he feels resentment against her and says: “You cost me everything I own,” or, “You caused me a great deal of hardship.”'” (Hassan)
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1887 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1887  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جائز کاموں میں افراد و تفریط سے پرہیز کرتے ہوئے درمیانہ انداز اختیار کرنا چاہیے۔

(2)
بہت زیادہ حق مہر مقرر کرنا ثواب کا کام ہے، نہ عزت کا۔

(3)
طاقت سے بڑھ کر حق مہر مقرر کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
مرد اس کی ادائیگی کے لیے محنت مشقت کرتا ہے اور ادا نہیں کر پاتا تو دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔
دل میں کہتا ہے کہ میں اس عورت کی وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا ہوں جبکہ مناسب حق مہر آسانی سے ادا ہو جاتا ہے جس سے میاں بیوی کی باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے جو شرعاً مقصود ہے۔

(4)
مشکیزے کی رسی اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس رقم کی ادائیگی کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑی حتی کہ میں نے ایسے کام بھی کیے جو حقیر سمجھے جاتے ہیں۔

(5)
مشکیزے کا پسینہ بھی یہی مفہوم رکھتا ہے کہ پانی بھرنے کی مزدوری کی اور اس کام میں پسینہ بہایا، تب میرا حق مہر ادا کرسکا۔
جب اس طرح کی طعن و تشنیع تک نوبت پہنچ جائے تو ازدواجی زندگی تلخ ہو جاتی ہے اس سے بچنے کے لیے حق مہر طاقت کے مطابق ہی مقرر کرنا چاہیے۔

(6)
جب حق مہر کی یہ کیفیت ہے جس کا حکم بھی ہے اور وہ مسنون بھی ہے تو غیر شرعی رسم و رواج پورے کرنے کے لیے جو ناروا اخراجات کا بوجھ اٹھایا جاتا ہے وہ کیسے جائز ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے گھروں میں اکثر جگھڑے ہوتے ہیں اور طلاق تک نوبت پہنچتی ہے۔

(7)
مولد عربی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے ماں باپ خالص عرب نہ ہوں اسی طرح غیر عربی اور مخلوط النسل کو بھی مولد کہا جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1887   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.