(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن الشيباني، قال: سمعت ابن ابي اوفى، يقول:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نبيذ الجر الاخضر"، قلت: فالابيض، قال: لا ادري. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى، يَقُولُ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ الْأَخْضَرِ"، قُلْتُ: فَالْأَبْيَضُ، قَالَ: لَا أَدْرِي.
ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبز لاکھی برتن کی نبیذ سے منع فرمایا۔ (شیبانی کہتے ہیں) میں نے کہا: اور سفید؟ (برتن سے) انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس باب اور اگلے ابواب میں مذکور تمام برتنوں میں شروع میں (جب شراب حرام کی گئی تھی) حلال نبیذ بنانا بھی ممنوع قرار دیا تھا گیا کیونکہ ان برتنوں میں نشہ لانے والے شراب کے اثرات باقی تھے تو نبیذ بناتے وقت اس میں فوراً نشہ پیدا ہو جانے کا خطرہ تھا، اور جب بہت دن گزر گئے اور وہ سارے برتن خوب خوب سوکھ گئے تب ان میں نبیذ بنانے کی اجازت دے دی گئی، لیکن بعض علما ہمیشہ کے لیے ممانعت کے قائل ہیں، دیکھئیے باب نمبر ۳۶ اور اس کے بعد کے ابواب کی احادیث و آثار۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5624
اردو حاشہ: سبز مٹکے سے مراد وہ مٹکا ہے جسے روغن لگا کر مسام بند کر دیے گئے ہوں۔ ایسے مٹکے میں نبیذ بنائی جائے تو جلدی نشہ پیدا ہو نے کا خطرہ ہوتا ہے، اس لیے اس سے منع فرمایا گیا۔صحیح بخاری میں (حدیث:5596) میں لفظ ”لا“ کے ساتھ روایت منقول ہے، یعنی جوابا انھوں نے فرمایا کہ سفید مٹکے میں بھی جائز نہیں، جبکہ مذکورہ روایت میں ”لا“ کے ساتھ ”ادری“ کا بھی اضافہ ہے جو شیخ البانی ؒ کے نزدیک شاذ ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5624
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3690
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔` ابن عمر اور ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمبی، سبز رنگ کے برتن، تارکول ملے ہوئے برتن اور لکڑی کے برتن ۱؎ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3690]
فوائد ومسائل: فائدہ: اسلام سے پہلے لوگ جن برتنوں میں شراب بنایا کرتھے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے ان میں نبیذ (پھلوں کھجوروں کشمش اوردیگر خشک یا تر پھلوں کا پانی کے ذریعے بنایا ہوا آمیزہ) جو بطور مشروب استعمال ہوتا تھا بنا کر پینے سے منع فرما دیا اس غرض سے عموما چار قسم کے برتن استعمال کئے جاتے ہیں۔
1۔ الدباء بڑے سائز کے کدو جب خشک ہوجاتے تو ان کے اندر کا گودا وغیرہ نکال کر سخت خول کو برتن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ افریقہ کے ملکوں میں آج بھی اس کا رواج ہے۔ وہاں ایسے کدو بھی پائے جاتے ہیں جو نیچے سے گول ہوتے ہیں۔ اور اوپر کی طرف ان کی بہت لمبی گردن ہوتی ہے۔ ان کو بھی اند ر سے خالی کرکےمشروب وغیرہ کے برتن کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل صراحی کی شکل کا ہوتا ہے۔ فارسی شاعری میں اس لئے کدو کا لفظ شراب کے برتن یا صراحی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے باہر کی سطح سخت اور نم پروف جبکہ اندر کی سطح اسفنجی ہوتی ہے اور اس کو شراب کےلئے استعمال کیا جائے۔ تو دھونے کے باوجود اس کی اندرونی اسفنجی سطح میں خامرہ یعنی وہ مادہ جو نبیذ کے رس وغیرہ میں خمیر اٹھانے کا سبب بن جاتا ہے۔ موجود ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے برتنوں میں پھلوں کا رس تیار کرنے یا رکھنے سے منع کردیا گیا ہے۔
2۔ حنتم شراب بنانے کی غرض سے مٹی کےبڑے بڑے برتنوں کو اس طرح بنایا جاتا تھا کہ کہ ان کی مٹی گوندھتے وقت اس میں خون اور بال ملا دیے جاتے۔ اس سے ان برتنوں کا رنگ سیاہی مائل سبز ہوجاتا تھا۔ غرض یہ ہوتی تھی کہ اس کی سطح سے ہوا کا گزر بند ہوجائے۔ اور تخمیرکا عمل تیز اورشدید ہوجائے۔ دیکھئے۔ (فتح الباري، کتاب الأشربة، باب ترخیص النبي ﷺ في الأوعیة)ایسے برتنوں کے اندرہوا کی بندش کو یقینی بنانے کےلئے کوئی روغن وغیرہ بھی لگا دیا جاتا تھا۔ یہ برتن اپنی ساخت میں گندے اورغلیظ ہونے کے علاوہ اندرونی سطح پر شراب کے خامروں کو چھپائے رکھتے تھے۔ جن کی وجہ سے اس میں بھی تیزی سے تخمیر کا عمل شروع ہوجاتا تھا۔
3۔ مزقت وہ برتن جس کے اندرروغن زفت ملایا گیا ہو۔ یہ تارکول سے ملتا جلتا معدنی روغن ہے۔ (لسان العرب) زفت ملنے کا مقصد بھی وہی تھا کہ ہوا کا گزر نہ ہو اور شراب سازی کےلئے عمل تخمیر جلد اور شدت سے شروع ہوجائے۔ یہ بھی دوسرے برتنوں کی طرح شراب کے خامروں کا حامل ہوتا تھا۔ اس کے علاہ روغن ملنے کی وجہ سے چیچیا اور ناصاف بھی ہوتا تھا۔
4۔ نقیر کھجور کے تنے کو اندر سے کھوکھلا کر تے، لیکن اس کی جڑٰیں اس طرح زمین میں رہنے دیتے ظاہر ہے کہ اس کا صحیح طور پردھونا ممکن نہ تھا۔ نیز اس کے اندرونی سطح پر شراب کے خامرے اور دوسری گندگی بھی موجود رہتی تھی۔ اس میں پھلوں وغیرہ کا مشروب (نبیذ بنایا جاتا۔ ) تو وہ جلد شراب میں تبدیل ہوجاتا تھا۔ اس کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا گیا۔ عرب ان برتنوں میں شراب کے علاوہ نبیز بھی بناتے تھے۔ اور اس میں بہت جلد ترشی آجاتی تھی۔ چونکہ یہ لوگ پہلے ان برتنوں کے مشروبات اورشراب کے عادی تھے تو انہیں معمولی نشے کا احساس بھی نہ ہوتا تھا۔ اس لئے حرمت شراب کی ابتداء میں ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا گیا۔ مگر بعد ازاں اجازت دے دی گئی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3690