تخریج: «أخرجه البخاري، الحوالات، باب الحوالة وهل يرجع في الحوالة، حديث:2287، ومسلم، المساقاة، باب تحريم مطل الغني، حديث:1564، وأحمد:2 /463.»
تشریح:
1. اس حدیث میں حوالے کا بیان ہے جس کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ مقروض اپنے قرض میں شخصی ضمانت دے‘ یعنی ایک شخص دوسرے سے کہے کہ فلاں صاحب کو قرض دے دو‘ ادائیگی کا ذمہ میں لیتا ہوں۔
اور دوسرا یہ کہ مقروض قرض خواہ کو اپنے مقروض کے سپرد کر دے‘ مثلاً: زید نے خالد سے ہزار روپیہ لینا ہے اور خالد نے حمید سے ہزار روپیہ لینا ہے تو خالد زید سے کہے کہ تم میرا قرض حمید سے وصول کر لو۔
شریعت نے اس صورت کو بھی جائز رکھا ہے‘ بشرطیکہ حمید اس بات کا اقرار کر لے کہ میں نے واقعی خالد کا قرض دینا ہے اور وہ ہزار روپیہ میں تجھے ادا کر دوں گا۔
2. اس حدیث کے الفاظ فَلْیَتَّبِـعْ اور فَلْیَحْتَلْ دونوں کا ماحصل ایک ہی ہے کہ اسے اس پیشکش کو قبول کر لینا چاہیے۔
3. یہ حکم اہل ظاہر کے نزدیک وجوب کے لیے ہے مگر جمہور نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے۔
4.عرب ممالک کے بنکوں میں ڈرافٹ کو
”حوالہ
“ کہا جاتا ہے۔
اور ڈرافٹ بنا کر دینے والا بنک‘ رقم جمع کرانے والے کو ایک رسید جاری کرتا ہے کہ اس رسید کے ذریعے سے فلاں بنک سے یہ رقم وصول کر لی جائے۔
یہ حوالے کا جدید مرو جہ نظام ہے جو کہ شریعت کی اجازت کے عین مطابق ہے۔
إن شاء اللّٰہ۔