سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
44. باب وَمِنْ سُورَةِ الزُّخْرُفِ
44. باب: سورۃ الزخرف سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3253
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا محمد بن بشر العبدي، ويعلى بن عبيد، عن حجاج بن دينار، عن ابي غالب، عن ابي امامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا اوتوا الجدل "، ثم تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية " ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون سورة الزخرف آية 58 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح إنما نعرفه من حديث حجاج بن دينار، وحجاج ثقة مقارب الحديث، وابو غالب اسمه حزور.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، وَيَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ "، ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ " مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلا جَدَلا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ سورة الزخرف آية 58 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، وَحَجَّاجٌ ثِقَةٌ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَأَبُو غَالِبٍ اسْمُهُ حَزَوَّرُ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد جب گمراہ ہو جاتی ہے تو جھگڑا لو اور مناظرہ باز ہو جاتی ہے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی «ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون» یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعاً جھگڑالو ہیں (الزخرف: ۵۸)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہم اسے صرف حجاج بن دینار کی روایت سے جانتے ہیں، حجاج ثقہ، مقارب الحدیث ہیں اور ابوغالب کا نام حزور ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 7 (48) (تحفة الأشراف: 4936) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (48)

   جامع الترمذي3253صدي بن عجلانما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا أوتوا الجدل ثم تلا رسول الله هذه الآية ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون
   سنن ابن ماجه48صدي بن عجلانما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا أوتوا الجدل ثم تلا هذه الآية بل هم قوم خصمون
   مشكوة المصابيح180صدي بن عجلانما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا اوتوا الجدل

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3253 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3253  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعاً جھگڑالو ہیں (الزخرف: 58)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3253   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 180  
´جھگڑا کس قدر بری چیز ہے`
«. . . وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ» . ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: (مَا ضَرَبُوهُ - [64] - لَكَ إِلَّا جدلا بل هم قوم خصمون) ‏‏‏‏رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہدایت پانے کے بعد کوئی قوم گمراہ نہیں ہوئی، مگر وہ قوم جس کو جدال و جھگڑا دیا گیا ہو۔ (یعنی جھگڑا لو قوم ہدایت پانے کے بعد گمراہ ہو جاتی ہے۔) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تائید کے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی «ماضربوه لك الا جدلا» یہ لوگ آپ سے جھگڑے کی مثال بیان کرتے ہیں اس لیے کہ یہ خود ہی جھگڑالو لوگ ہیں۔ اس حدیث کو احمد و ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 180]

تحقیق الحدیث
اس کی سند حسن ہے۔
اسے حاکم [448/2] اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔
◄ اس روای میں دو راوی حجاج بن دینار اور ابوغالب جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث راوی تھے۔

فقہ الحدیث:
➊ حق کے مقابلے میں مجادلہ کرنا کفار قریش کا طریقہ ہے۔
➋ قرآن و حدیث کے مقابلے میں الزامی اعتراض مردود ہوتا ہے۔
➌ خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔
➍ کفار و مشرکین بھی اپنے باطل عقائد کو ثابت کرنے کے لئے دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ ان کے دلائل باطل ہوتے ہیں۔
➎ اہل حق کا آپس میں ایک دوسرے سے مناظرے کرنا غلط ہے، لیکن یاد رہے کہ اگر اہل باطل سے مناظرے کی ضرورت پڑ جائے تو عقائد و اصول پر مناظرہ کرنا چاہئیے نہ کہ معمولی معمولی مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے رہیں۔
➏ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تفسیر، شرح اور بیان ہیں۔
➐ قرآن و حدیث کو ایک دوسرے سے ٹکرانا گمراہی ہے۔
➑ دین حق میں شبہے پیدا کرنا گمراہ لوگوں کا کام ہے۔ ديكهئے: [مشكوٰة المصابيح مع فوائد غزنويه ج 1ص 232 تحت ح 171]
➒ شرک و کفر کرنے والے لوگ اللہ کے سوا دو قسم کے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں:
اول:
جو اپنی عبادت پر راضی تھے، مشرکین و کفار کے ساتھ یہ معبودان باطلہ بھی جہنم میں ہوں گے۔
دوم:
وہ جو اپنی عبادت پر راضی نہیں تھے بلکہ شرک و کفر کے مخالف تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ جہنم اور عذاب سے بچائے گا اور یہ اپنی عبادت کرنے والوں سے بری ہوں گے۔ مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں سے بری ہوں گے جو انہیں اللہ کا بیٹا اور رب سمجھتے تھے۔
➓ تمام کفار و مشرکین اسی کوشش میں سرگرم ہیں کہ دین حق کو مٹا دیں جبکہ حق کے مقابلے میں یہی لوگ ذلیل و رسوا ہوں گے اور دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 180   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث48  
´بدعات اور جدال (بے جا بحث و تکرار) سے اجتناب و پرہیز۔`
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پر رہنے کے بعد گمراہ اس وقت ہوئی جب وہ «جدال» (بحث اور جھگڑے) میں مبتلا ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: «بل هم قوم خصمون» بلکہ وہ جھگڑالو لوگ ہیں (سورة الزخرف: 58) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 48]
اردو حاشہ:
(1)
حق کے مقابلے میں باطل اور جھوٹی گفتگو کرنے کا نام جَدَل ہے۔

(2)
اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام ؑ کو اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ حق و باطل میں امتیاز فرما دیں، پھر کچھ لوگ ایمان لے آتے ہیں کچھ حق واضح ہو جانے کے باوجود باطل پر اڑے رہتے ہیں، پھر مومن کہلانے والوں میں سے بھی بعض پختہ اور کامل ایمان کے حامل ہوتے ہیں، بعض لوگ کمزور ایمان والے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ غلط راستہ اختیار کر لیں گے، اس لیے ایمان والوں کو استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ایمان پر خاتمہ ہو۔

(3)
بعض اوقات پختہ ایمان والوں کی آئندہ نسل کمزور ایمان والی یا ایمان سے محروم بھی ہو سکتی ہے۔
یہ لوگ دنیوی مفاد کے لیے اپنے آپ کو مسلمان کہلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات پر کما حقہ عمل کرنے کی ہمت بھی نہیں پاتے، چنانچہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی غلط روی کے جواز کے لیے کسی آیت یا حدیث سے الٹا سیدھا استدلال کر کے اپنے ضمیر کو بھی مطمئن کر لیں اور ناقدین کو بھی خاموش کر دیں لیکن چونکہ ان کے دلائل کمزور ہوتے ہیں، لہذا بحث و مباحثہ کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور ان کی نفس پرستی کی وجہ سے امت کا اتحاد پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔

(4)
اختلافات کے خاتمے کا فطری اور درست طریقہ یہ ہے کہ بحث و مباحثہ اخلاص کے ساتھ حق کی تلاش کے جذبہ سے کیا جائے۔
جب ایک موقف صحیح ثابت ہو جائے تو اسے تسلیم کر لیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 48   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.