حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 180
´جھگڑا کس قدر بری چیز ہے`
«. . . وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ» . ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ: (مَا ضَرَبُوهُ - [64] - لَكَ إِلَّا جدلا بل هم قوم خصمون) رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه . . .»
”. . . سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہدایت پانے کے بعد کوئی قوم گمراہ نہیں ہوئی، مگر وہ قوم جس کو جدال و جھگڑا دیا گیا ہو۔ (یعنی جھگڑا لو قوم ہدایت پانے کے بعد گمراہ ہو جاتی ہے۔)“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تائید کے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی «ماضربوه لك الا جدلا» ”یہ لوگ آپ سے جھگڑے کی مثال بیان کرتے ہیں اس لیے کہ یہ خود ہی جھگڑالو لوگ ہیں۔“ اس حدیث کو احمد و ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 180]
تحقیق الحدیث
اس کی سند حسن ہے۔
اسے حاکم [448/2] اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔
◄ اس روای میں دو راوی حجاج بن دینار اور ابوغالب جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث راوی تھے۔
فقہ الحدیث:
➊ حق کے مقابلے میں مجادلہ کرنا کفار قریش کا طریقہ ہے۔
➋ قرآن و حدیث کے مقابلے میں الزامی اعتراض مردود ہوتا ہے۔
➌ خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔
➍ کفار و مشرکین بھی اپنے باطل عقائد کو ثابت کرنے کے لئے دلائل پیش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں حالانکہ ان کے دلائل باطل ہوتے ہیں۔
➎ اہل حق کا آپس میں ایک دوسرے سے مناظرے کرنا غلط ہے، لیکن یاد رہے کہ اگر اہل باطل سے مناظرے کی ضرورت پڑ جائے تو عقائد و اصول پر مناظرہ کرنا چاہئیے نہ کہ معمولی معمولی مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے رہیں۔
➏ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تفسیر، شرح اور بیان ہیں۔
➐ قرآن و حدیث کو ایک دوسرے سے ٹکرانا گمراہی ہے۔
➑ دین حق میں شبہے پیدا کرنا گمراہ لوگوں کا کام ہے۔ ديكهئے: [مشكوٰة المصابيح مع فوائد غزنويه ج 1ص 232 تحت ح 171]
➒ شرک و کفر کرنے والے لوگ اللہ کے سوا دو قسم کے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں:
اول:
جو اپنی عبادت پر راضی تھے، مشرکین و کفار کے ساتھ یہ معبودان باطلہ بھی جہنم میں ہوں گے۔
دوم:
وہ جو اپنی عبادت پر راضی نہیں تھے بلکہ شرک و کفر کے مخالف تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ جہنم اور عذاب سے بچائے گا اور یہ اپنی عبادت کرنے والوں سے بری ہوں گے۔ مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں سے بری ہوں گے جو انہیں اللہ کا بیٹا اور رب سمجھتے تھے۔
➓ تمام کفار و مشرکین اسی کوشش میں سرگرم ہیں کہ دین حق کو مٹا دیں جبکہ حق کے مقابلے میں یہی لوگ ذلیل و رسوا ہوں گے اور دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 180