الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
190. بَابُ : أَيْنَ يُصَلِّي الإِمَامُ الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ
190. باب: یوم الترویہ کو امام ظہر کہاں پڑھے؟
Chapter: Where Should The Imam Pray Zuhr On The Day Of At-Tarwiyah?
حدیث نمبر: 3000
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم , وعبد الرحمن بن محمد بن سلام , قالا: حدثنا إسحاق الازرق، عن سفيان الثوري، عن عبد العزيز بن رفيع، قال: سالت انس بن مالك، فقلت: اخبرني بشيء عقلته عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، اين صلى الظهر يوم التروية؟ قال: بمنى فقلت: اين صلى العصر يوم النفر؟ قال: بالابطح".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْحَاق الْأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: بِمِنًى فَقُلْتُ: أَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ؟ قَالَ: بِالْأَبْطَحِ".
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا، میں نے کہا: آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی چیز بتائیے جو آپ کو یاد ہو، آپ نے ترویہ کے دن ظہر کہاں پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: منیٰ میں۔ پھر میں نے پوچھا: کوچ کے دن ۱؎ عصر کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: ابطح میں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 83 (1653، 1654)، 146 (1763)، صحیح مسلم/الحج 58 (1309)، سنن ابی داود/الحج 59 (1912)، سنن الترمذی/الحج 116 (964)، (تحفة الأشراف: 988)، مسند احمد (3/100)، سنن الدارمی/المناسک 46 (1914) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کوچ کے دن سے مراد یوم نفر آخر یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ ہے۔ ابطح مکہ کے قریب ایک وادی ہے جسے محصب بھی کہا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   سنن النسائى الصغرى3000أنس بن مالكأين صلى الظهر يوم التروية قال بمنى أين صلى العصر يوم النفر قال بالأبطح
   صحيح البخاري1763أنس بن مالكأين صلى الظهر يوم التروية قال بمنى أين صلى العصر يوم النفر قال بالأبطح افعل كما يفعل أمراؤك
   صحيح مسلم3166أنس بن مالكأين صلى الظهر يوم التروية قال بمنى أين صلى العصر يوم النفر قال بالأبطح ثم قال افعل ما يفعل أمراؤك
   جامع الترمذي964أنس بن مالكأين صلى الظهر يوم التروية قال بمنى أين صلى العصر يوم النفر قال بالأبطح ثم قال افعل كما يفعل أمراؤك
   سنن أبي داود1912أنس بن مالكأين صلى رسول الله الظهر يوم التروية فقال بمنى أين صلى العصر يوم النفر قال بالأبطح
   بلوغ المرام641أنس بن مالكصلى الظهر والعصر والمغرب والعشاء،‏‏‏‏ ثم رقد رقدة بالمحصب،‏‏‏‏ ثم ركب إلى البيت،‏‏‏‏ فطاف به

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3000  
´یوم الترویہ کو امام ظہر کہاں پڑھے؟`
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا، میں نے کہا: آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی چیز بتائیے جو آپ کو یاد ہو، آپ نے ترویہ کے دن ظہر کہاں پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: منیٰ میں۔ پھر میں نے پوچھا: کوچ کے دن ۱؎ عصر کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: ابطح میں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3000]
اردو حاشہ:
(1) یوم ترویہ کے دن منیٰ میں ظہر کی نماز پڑھنا سنت ہے لیکن یہ حج کا فرض نہیں کہ اس کے رہ جانے سے کوئی کفارہ لازم آتا ہو۔ سنت یہ ہے کہ یوم ترویہ کی ظہر سے یوم عرفہ کی صبح تک پانچ نمازیں منیٰ میں پڑھی جائیں لیکن اگر کوئی شخص براہ راست یوم عرفہ (9 ذوالحجہ) منیٰ میں ٹھہرے بغیر عرفات پہنچ جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
(2) منیٰ سے واپسی کے موقع پر ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز ابطح (مکہ مکرمہ سے قریب باہر ایک میدان) میں پڑھنا اور وہاں رات کا۔ کچھ حصہ گزارنا مستحب ہے۔ اس عمل کو تحصیب کہا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کے بعد خلفاء بھی یہاں پڑاؤ کرتے رہے ہیں اور جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کی نفی منقول ہے، تو اس سے اس کی سنیت یا استحباب کی نفی نہیں بلکہ اس کے لزوم ووجوب کی نفی مراد ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے رہ جانے سے حج متاثر ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباري: 3/ 591)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3000   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 641  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بالترتیب اپنے اپنے وقت میں) ظہر اور عصر ‘ مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں اور پھر مقام محصب پر تھوڑا سو گئے پھر سوار ہو کر بیت اللہ کی جانب تشریف لے گئے اور طواف کیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 641]
641لغوی تشریح:
«رقد رقدة» یعنی تھوڑا سا ہو گئے۔
«بالمحصب» یہ اس جگہ کا بیان ہے جہاں آپ نے نمازیں ادا فرمائیں اور اسراحت بھی فرمائی اور یہ کوچ کا آخری دن تھا، یعنی ایام تشریق کا تیسرا دن۔
«محصب» بروزن «محمد» ہے۔ جگہ کا نام ہے جو دو پہاڑوں کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔ وہ بہ نسبت مکہ کے منیٰ کے قریب ہے۔ اسے ابطح اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں۔
«فطاف به» اس سے طواف وداع مراد ہے اور یہ حج کاسب سے آخری طواف ہوتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 641   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1912  
´مکہ سے منیٰ جانے کا بیان۔`
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا اور کہا: مجھے آپ وہ بتائیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو یاد ہو کہ آپ نے ظہر یوم الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ) کو کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں، میں نے عرض کیا تو لوٹنے کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کہاں پڑھی؟ فرمایا: ابطح میں، پھر کہا: تم وہی کرو جو تمہارے امراء کریں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1912]
1912. اردو حاشیہ: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مسائل واجب امور میں سے نہیں ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا معمول اورسنت ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے۔ تاہم کسی عذر کے باعث ان پر عمل نہ ہوسکے تو کوئی حرج نہیں۔مباحات میں اولوالامر کی متابعت اور ان کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1912   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.