الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
35. بَابُ حَدِيثُ الإِفْكِ:
35. باب: واقعہ افک کا بیان۔
(35) Chapter. The narration of AI-Ifk.
حدیث نمبر: 4144
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني يحيى , حدثنا وكيع , عن نافع بن عمر , عن ابن ابي مليكة , عن عائشة رضي الله عنها:" كانت تقرا إذ تلقونه بالسنتكم سورة النور آية 15 وتقول الولق الكذب. قال ابن ابي مليكة: وكانت اعلم من غيرها بذلك لانه نزل فيها.(موقوف) حَدَّثَنِي يَحْيَى , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:" كَانَتْ تَقْرَأُ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ سورة النور آية 15 وَتَقُولُ الْوَلْقُ الْكَذِبُ. قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: وَكَانَتْ أَعْلَمَ مِنْ غَيْرِهَا بِذَلِكَ لِأَنَّهُ نَزَلَ فِيهَا.
مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ ان سے نافع بن عمر نے ‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا (سورۃ النور کی آیت میں) قرآت «إذ تلقونه بألسنتكم‏» کرتی تھیں اور (اس کی تفسیر میں) فرماتی تھیں کہ «الولق» جھوٹ کے معنی میں ہے۔ ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان آیات کو دوسروں سے زیادہ جانتی تھیں کیونکہ وہ خاص ان ہی کے باب میں اتری تھیں۔

Narrated Ibn Abi Malaika: `Aisha used to recite this Verse:-- 'Ida taliqunahu bi-alsinatikum' (24.15) "(As you tell lie with your tongues.)" and used to say "Al-Walaq" means "telling of a lie. "She knew this Verse more than anybody else as it was revealed about her.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 465



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4144  
4144. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے ﴿إِذْ تَلِقُونَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ﴾ پڑھا، یعنی جس وقت تم اپنی زبانوں سے جھوٹ بولتے تھے، اور فرمایا: وَلَقَ کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ابن ابی ملیکہ نے کہا: حضرت عائشہ‬ ؓ ا‬س قراءت کو دوسروں کی نسبت زیادہ جاننے والی تھیں کیونکہ یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4144]
حدیث حاشیہ:

عام قراءت (تَلَقَّوْنَهُ)
ہے جو (تلقي)
سے ماخوذ ہے جس کے معنی لینا اور قبول کرنا ہیں، جبکہ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک (تَلِقُونَه)
ہے جو ولق سے مشتق ہے۔
اس کے معنی جھوٹ بولنے میں جلدی کرنا ہیں لیکن پہلی قراءت متواتر ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے متعلق اس آیت کا نازل ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ ان کی قرآءت متواتر اور صحیح ہے۔

قراءت متواتر ہ میں ایک تاکو خذف کردیا گیا ہے۔
اصل میں (تتلقونه)
فعل مضارع کا صیغہ ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4144   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.