صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
5. بَابُ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ الإِمَارَةَ أَعَانَهُ اللَّهُ:
5. باب: جسے بن مانگے سرداری ملے تو اللہ اس کی مدد کرے گا۔
(5) Chapter. If somebody does not seek authority of ruling, then Allah will surely help him (if he is given such authority).
حدیث نمبر: 7146
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا جرير بن حازم، عن الحسن، عن عبد الرحمن بن سمرة، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الرحمن بن سمرة، لا تسال الإمارة، فإنك إن اعطيتها عن مسالة وكلت إليها، وإن اعطيتها عن غير مسالة اعنت عليها، وإذا حلفت على يمين، فرايت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وات الذي هو خير".(مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے حسن نے اور ان سے عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبدالرحمٰن! حکومت کے طالب نہ بننا کیونکہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد حکومت ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے اور وہ تمہیں بلا مانگے ملی تو اس میں تمہاری (اللہ کی طرف سے) مدد کی جائے گی اور اگر تم نے قسم کھا لی ہو پھر اس کے سوا دوسری چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو اور وہ کام کرو جس میں بھلائی ہو۔

Narrated `Abdur-Rahman bin Samura: The Prophet said, "O `Abdur-Rahman! Do not seek to be a ruler, for if you are given authority on your demand then you will be held responsible for it, but if you are given it without asking (for it), then you will be helped (by Allah) in it. If you ever take an oath to do something and later on you find that something else is better, then you should expiate your oath and do what is better."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 260



   صحيح البخاري6722عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها من غير مسألة أعنت عليها وإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك
   صحيح البخاري7147عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها إن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك
   صحيح البخاري7146عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير
   صحيح البخاري6622عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أوتيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أوتيتها من غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير
   صحيح مسلم4715عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة أكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   صحيح مسلم4281عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وائت الذي هو خير
   جامع الترمذي1529عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أتتك عن مسألة وكلت إليها إن أتتك عن غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير ولتكفر عن يمينك
   سنن أبي داود2929عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إذا أعطيتها عن مسألة وكلت فيها إلى نفسك وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   سنن النسائى الصغرى5386عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   بلوغ المرام1173عبد الرحمن بن سمرة وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وائت الذي هو خير

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1173  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ اور اس کام کے خلاف کو بہتر دیکھو تو قسم کا کفارہ ادا کر دو اور جو بہتر ہے وہ کر لو۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ جو کام بہتر ہے اسے کرو اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔ اور ابوداؤد کی روایت میں اس طرح ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے کر وہ کام کرو جو بہتر ہے۔ دونوں احادیث کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1173»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب قول الله تعالي: "لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم"، حديث:6622، ومسلم، الأيمان، باب ندب من حلف يمينًا فرأي غير ها خيرًا منها...، حديث:1652، وأبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3277.»
تشریح:
حدیث کے مجموعی الفاظ کفارے کی ادائیگی قسم توڑنے سے پہلے بھی اسی طرح جائز قرار دیتے ہیں جس طرح قسم توڑنے کے بعد۔
جمہور کا یہی مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔
لیکن ابوداود کی مذکورہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ اس میں کفارے کے بعد ثُـمَّ کے لفظ سے امر خیر کا حکم ہے‘ اور ثُـمَّ کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوسعید ہے۔
شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔
فتح مکہ کے بعد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔
سجستان اور کابل کے فاتح ہیں۔
بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور یہیں ۵۰ ہجری میں یا اس کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1173   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1529  
´کسی کام پر قسم کھانے کے بعد اس سے بہتر کام جان جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبدالرحمٰن! منصب امارت کا مطالبہ نہ کرو، اس لیے کہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اسی کے سپرد کر دیئے جاؤ گے ۱؎، اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی مدد و توفیق تمہارے شامل ہو گی، اور جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر دوسرے کام کو اس سے بہتر سمجھو تو جسے تم بہتر سمجھتے ہو اسے ہی کرو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1529]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اللہ کی نصرت وتائید تمہیں حاصل نہیں ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1529   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2929  
´حکومت و اقتدار کو طلب کرنا کیسا ہے؟`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت و اقتدار کی طلب مت کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اس معاملے میں اپنے نفس کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی توفیق و مدد تمہارے شامل حال ہو گی ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2929]
فوائد ومسائل:
انسان کا کوئی معاملہ ایسا نہیں۔
جو اللہ عزوجل کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر درست ہوسکے جب کہ حکومت تو بہت بڑی اور کٹھن ذمہ داری ہے۔
اس لئے مانگ کر حکومت لینا اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔


حضرت یوسف ؑ کا یہ فرمانا کہ (اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ) (یوسف:55) مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے۔
کسی منصب کے طلب کےلئے نہیں، بلکہ ایک عمومی پیش کش پر نوعیت کی تعین کے لئے تھا۔
کیونکہ یہ بات اس وقت انہوں نے کہی جب عزیز مصر نے ذمہ داری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ (إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ) (یوسف:54) آپ آج سے ہمارے ہاں ذی مرتبہ اور امانت دار ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب ملک وقوم کے حالات دگرگوں ہوں اور کوئی باصلاحیت فرد نیک نیتی سے یہ سمجھتا ہو کہ وہ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہ ہو سکتا ہے۔
تو اس کو آگے آنا چاہیے۔
ایسا شخص اگر امام عادل کے جیسے وصف سے موصوف ہو تو اس کے متعلق بشارتوں کا بھی اعلان ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2929