الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
47. باب ذِكْرِ الْخَوَارِجِ وَصِفَاتِهِمْ:
47. باب: خوارج اور ان کی صفات کا ذکر۔
Chapter: The Khawarij and their attributes
حدیث نمبر: 2449
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن رمح بن المهاجر ، اخبرنا الليث ، عن يحيى بن سعيد ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، قال: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجعرانة منصرفه من حنين، وفي ثوب بلال فضة، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقبض منها يعطي الناس، فقال: يا محمد اعدل، قال: " ويلك ومن يعدل إذا لم اكن اعدل لقد خبت وخسرت إن لم اكن اعدل، فقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: دعني يا رسول الله فاقتل هذا المنافق، فقال: معاذ الله ان يتحدث الناس اني اقتل اصحابي، إن هذا واصحابه يقرءون القرآن، لا يجاوز حناجرهم، يمرقون منه كما يمرق السهم من الرمية "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ مُنْصَرَفَهُ مِنْ حُنَيْنٍ، وَفِي ثَوْبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبِضُ مِنْهَا يُعْطِي النَّاسَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ اعْدِلْ، قَالَ: " وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ لَقَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَقْتُلَ هَذَا الْمُنَافِقَ، فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْهُ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "،
لیث نے یحییٰ بن سعید سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے ابو زبیر سے اور انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جبکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں چاندی تھی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھر بھر کے لوگوں کو دے رہے تھے۔تو اس نے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عدل کیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیرے لئے ویل (ہلاکت یاجہنم) ہو!اگر میں عدل نہیں کررہا تو کون عدل کرے گا؟ اگر میں عدل نہیں کررہا تو میں ناکام ہوگیا اور خسارے میں پڑ گیا۔"اس پر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کو قتل کردوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (میں اس بات سے) اللہ کی پناہ (مانگتا ہوں)!کہ لوگ ایسی باتیں کریں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔یہ شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا، (یہ لوگ) اس طرح اس (دین اسلام) سے نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے (آگے) نکل جاتا ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حنین سے واپسی کے وقت جعرانہ میں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ جبکہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں کچھ چاندی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹھی بھر بھر کر لوگوں کو دے رہے تھے تو اس نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! انصاف کیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تباہ ہو، اگر میں عدل نہیں کر رہا تو عدل کون کرے گا؟ تو ناکام ہوا اور خسارے میں پڑا۔ اگر میں عدل نہیں کر رہا ہوں (جس کا متبوع و مقتدی ہی نعوذ باللہ) غیر منصف ہے تو پھر تابع اور مقتدی کی حالت کیا ہوگی تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ لوگ باتیں کریں کہ میں اپنے ہی ساتھیوں کو مروا دیتا ہوں یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ اس سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے
ترقیم فوادعبدالباقی: 1063

   صحيح البخاري3138جابر بن عبد اللهشقيت إن لم أعدل
   صحيح مسلم2449جابر بن عبد اللهيقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون منه كما يمرق السهم من الر
   سنن ابن ماجه172جابر بن عبد اللهيمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   مسندالحميدي1308جابر بن عبد اللهويحك، فمن يعدل إذا لم أعدل؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث172  
´خوارج کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں تشریف فرما تھے، اور آپ بلال رضی اللہ عنہ کی گود میں سے سونا، چاندی اور اموال غنیمت (لوگوں میں) تقسیم فرما رہے تھے، تو ایک شخص نے کہا: اے محمد! عدل و انصاف کیجئیے، آپ نے عدل سے کام نہیں لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا برا ہو، اگر میں عدل و انصاف نہ کروں گا تو میرے بعد کون عدل کرے گا؟، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے اور بھی ساتھی ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہیں، لیک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 172]
اردو حاشہ:
(1)
جس شخص نے یہ گستاخی کی اس کا نام ذُوالْخُوَيْصِرَه تھا۔
اور یہ واقعه غزوہ حنین کے بعد پیش آیا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانه کے مقام پر غزوہ حنین سے حاصل ہونے والا مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم فرمایا۔

(2)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل یا فرمان پر اعتراض کرنا یا اسے غلط قرار دینا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کو ناقابل عمل قرار دینا منافقوں کا شیوہ ہے، مومن سے ایسی حرکت کا صدور ممکن نہیں۔
 
(3)
اس واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم وعفو، اور صبروبرداشت کی ایک اعلیٰ مثال ہے کہ ایسی گستاخی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سزا نہیں دی۔

(4)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس شخص کو منافق قرار دے کر قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید نہیں فرمائی۔
گویا اس شخص کے منافق ہونے کی تصدیق فرمائی، تاہم حکمت کی بنا پر اسے سزائے موت دینے سے احتراز فرمایا۔

(5)
اس شخص کی حرکت میں ارشاد نبوی کی حجت کا انکار پایا جاتا ہے، بعد میں خوارج نے بھی بہت سی احادیث کا انکار کیا کیونکہ ان کے خیال میں وہ قرآن کے اس مزعومہ مفہوم کے خلاف تھیں جو ان کے خیال میں قرآن کا صحیح مطلب تھا۔
لیکن اہل سنت کی نظر میں قرآن مجید کی آیات کا وہی مطلب درست ہوتا ہے جس کی تائید صحیح احادیث سے ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 172   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2449  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
خبت و خسرت:
اگر مخاطب کے صیغے ہوں (اور واضح صورت یہی ہے)
تو معنی ہو گا جس کو ایسا مقتدیٰ اور پیشوا ملا جو غیر منصف ہے اس کی ناکامی و نامرادی یا نقصان میں کیا شبہ ہو سکتا ہے اور اگر متکلم کا صیغہ ہو تو معنی ہو گا اگر میں مقتدیٰ اور پیشوا ہو کر بھی عادل نہیں ہوں،
تو پھر مجھ سے زیادہ ناکام اور نامراد گھاٹے کا شکار کون ہے۔
(2)
لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهم:
ان کے حلق اور حنجرہ سے نہیں اترنا۔
ان کے دل اس کے فہم و معرفت سے عاری ہیں،
اور اس کی تلاوت سے سوائے طوطے کی طرح الفاظ دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے،
یا ان کی انتہا پسندی اور حرفیت پسندی کی بنا پر ان کا عمل اور تلاوت اوپر نہیں چڑھتی اور اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتی۔
(3)
يمرقون منه:
قراءت سے بلا فائدہ اور فہم و سمجھ نکل جاتے ہیں۔
اس سے ان کے دل و دماغ متاثر نہیں ہوتے۔
(4)
كَمَا يَمْرُقُ السَّهمُ مِنَ الرَّمِيَّة:
جس طرح تیر،
شکار سے اس حالت میں نکل جاتا ہے کہ اس کی کوئی چیز اسی کو نہیں لگی ہوتی۔
الرمية اس شکار کو کہتے ہیں جس پر تیر پھینکا جاتا ہے۔
یعنی فعيلة،
مفعولۃ کے معنی میں ہے۔
فوائد ومسائل:
یہ واقعہ 8 ہجری میں حنین سے واپسی پر جعرانہ کے مقام پر پیش آیا۔
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے سے ہرگزرنے والے کو چاندی کی مٹھی عنایت فرما رہے تھے اور اس میں دینی حکمت ومصلحت کے تحت کمی وبیشی ہو سکتی ہے،
محض خواہش نفس سے یہ کام نہیں ہو سکتا اور اس بدبخت نے اس کو خواہش نفس کا شاخسانہ قرار دے کر یہ گستاخانہ بات کہہ ڈالی۔
جس اُمت کا رسول ہی یہ رویہ اختیار کرے اس میں عدل وانصاف کہاں سے پیدا ہو سکتا ہے۔
اور اسے عدل وانصاف کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔
لیکن انتہا پسند لوگ جو دینی حکم اور مصالح کو نہیں سمجھتے۔
وہ ہر جگہ ایسا ہی رویہ اپناتے ہیں اور شرعی حکموں پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عقل کا مالک سمجھ کر ان کا انکار کر دیتے ہیں اور اپنے جرم کی پردہ پوشی کے لیے یہ کہتے ہیں یہ شرعی حکم ہی نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2449   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.