الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
Chapters on Shares of Inheritance
2. بَابُ : فَرَائِضِ الصُّلْبِ
2. باب: (میراث میں) اولاد کے حصوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2721
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي قيس الاودي ، عن الهزيل بن شرحبيل ، قال: جاء رجل إلى ابي موسى الاشعري، وسلمان بن ربيعة الباهلي فسالهما عن ابنة، وابنة ابن واخت لاب، وام، فقالا: للابنة النصف وما بقي فللاخت، وائت ابن مسعود فسيتابعنا فاتى الرجل ابن مسعود فساله واخبره بما، قالا، فقال عبد الله: قد ضللت إذا وما انا ولكني ساقضي بما قضى به من المهتدين رسول الله صلى الله عليه وسلم:" للابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وما بقي فللاخت".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ الْأَوْدِيِّ ، عَنِ الْهُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ الْبَاهِلِيِّ فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ لِأَبٍ، وَأُمٍّ، فَقَالَا: لِلِابْنَةِ النِّصْفُ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ، وَائْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَيُتَابِعُنَا فَأَتَى الرَّجُلُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَسَأَلَهُ وَأَخْبَرَهُ بِمَا، قَالَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا وَلَكِنِّي سَأَقْضِي بِمَا قَضَى بِهِ مِنَ الْمُهْتَدِينَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِلِابْنَةِ النِّصْفُ وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ".
ہذیل بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے (حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا: آدھا بیٹی کے لیے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے، لیکن تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، اور ان سے بھی معلوم کر لو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابوموسیٰ اشعری، اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں ایسا حکم دوں تو گمراہ ہو گیا، اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا، لیکن میں وہ فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، بیٹی کے لیے آدھا، اور پوتی کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس طرح دو تہائی پورے ہو جائیں، اور جو ایک تہائی بچا وہ بہن کے لیے ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفرائض 8 (6736)، سنن ابی داود/الفرائض 4 (2890)، سنن الترمذی/الفرائض 4 (2093)، (تحفة الأشراف: 9594)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/389، 428، 440، 463)، سنن الدارمی/الفرائض 7 (2932) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی ترکہ کے مال کو چھ حصوں میں بانٹ دیا جائے، تین حصہ بیٹی کو، ایک پوتی کو اور دو حصے بہن کو ملیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مرنے والے کی ایک لڑکی کے ساتھ اس کی پوتیاں بھی ہوں یا ایک ہی پوتی ہو تو آدھا حصہ بیٹی کو ملے گا اور دو تہائی ۲-۳ پوتیوں پر برابر تقسیم ہو جائے گا، اور بہنیں بیٹی کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہیں یعنی بیٹیوں کے حصہ سے جو بچ رہے وہ بہنوں کو مل جاتا ہے، دوسری روایت میں یوں ہے کہ جب ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سنا تو کہا کہ مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے، اور جمہور علماء اس فتوی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں، لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ بیٹی کے ہوتے ہوئے بہن میراث سے محروم ہوجاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاہے: «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة إن امرؤ هلك ليس له ولد وله أخت فلها نصف ما ترك وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد فإن كانتا اثنتين فلهما الثلثان مما ترك وإن كانوا إخوة رجالا ونساء فللذكر مثل حظ الأنثيين» (سورة النساء: 176) اے رسول! لوگ آپ سے (کلالہ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ خود تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے،اگر کوئی آدمی مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ اس بہن کو (حقیقی ہو یا علاتی) ترکہ ملے گا، اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا، اگر اولاد نہ ہو پس اگر دو بہنیں ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا، اور اگر کئی شخص اس رشتہ کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لیے عورتوں کے دوگنا حصہ ہے) اور ولد کا لفظ عام ہے، بیٹا اور بیٹی دونوں کو شامل ہے، تو معلوم ہوا کہ بہن دونوں سے محروم ہو جاتی ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ ولد سے یہاں بیٹا مراد ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے یوں فرمایا: «وهو يرثهآ إن لم يكن لها ولد» (سورة النساء: 176) ... اور اگر وہ بہن مر جائے تو یہ بھائی اس کا وارث ہو گا، بشرطیکہ اس مرنے والی بہن کی اولاد نہ ہو (اور نہ ہی باپ) ... اور یہاں بالاجماع ولد سے بیٹا مراد ہے، اس لئے کہ اجماعاً مرنے والی کی لڑکی بھائی کو محروم نہیں کر سکتی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح خ المرفوع منه فقط

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاري6742عبد الله بن مسعودللابنة النصف ولابنة الابن السدس وما بقي فللأخت
   جامع الترمذي2093عبد الله بن مسعودللابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وللأخت ما بقي
   سنن أبي داود2890عبد الله بن مسعودلابنته النصف ولابنة الابن سهم تكملة الثلثين وما بقي فللأخت من الأب والأم
   سنن ابن ماجه2721عبد الله بن مسعودللابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وما بقي فللأخت
   المعجم الصغير للطبراني1150عبد الله بن مسعودللابنة النصف ولابنة الابن السدس وما بقي فللأخت من الأب والأم
   بلوغ المرام807عبد الله بن مسعود للابنة النصف ولابنة الابن السدس تكملة الثلثين وما بقى فللأخت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2721  
´(میراث میں) اولاد کے حصوں کا بیان۔`
ہذیل بن شرحبیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری اور سلمان بن ربیعہ باہلی رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اور ان سے اس نے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کے (حصہ کے) بارے میں پوچھا، تو ان دونوں نے کہا: آدھا بیٹی کے لیے ہے، اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے، لیکن تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، اور ان سے بھی معلوم کر لو، وہ بھی ہماری تائید کریں گے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی مسئلہ معلوم کیا، نیز بتایا کہ ابوموسیٰ اشعری، اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے، تو عبداللہ بن مسع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2721]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اجتہادی مسائل میں اختلاف رائے ہوجاتا تھا لیکن وہ اس کی بنیاد پر باہمی مخالفت اور دشمنی کا رویہ نہیں اپناتے تھے۔

(2)
اجتہادی رائے کے مقابلے میں قرآن و حدیث کی نص قابل عمل ہے۔
اجتہاد کی اہمیت صرف اسی وقت تک ہے جب عالم کو پیش آمدہ مسئلے میں قرآن وحدیث کی نص معلوم نہ ہو۔

(3)
دونوں صحابۂ کرام ؓ کی رائے کی بنیاد غالباً اس اصول پر تھی کہ قریب کی موجودگی میں دور کا وارث محروم ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے بیٹی کی موجودگی میں پوتی کو محروم قراردیا۔
اور بیٹی سے بچا ہوا حصہ بہن کو دلوایا۔

(4)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنی رائے کی بنیاد ارشاد نبوی پر رکھی اور وہ اصول بیان فرمایا جودوسرے صحابۂ کرام ؓ کو معلوم نہ تھا۔

(5)
اگر وارث صرف دوبیٹیاں ہوں تو ان کا حصہ دو تہائی ہے۔
بیٹیوں کی عدم موجودگی میں پوتیوں کا یہی حصہ ہے۔
جس طرح ایک بیٹی کا حصہ نصف ہے، اسی طرح بیٹی کی عدم موجودگی میں ایک پوتی کا حصہ نصف ہے۔
ان اصولوں کی روشنی میں ایک بیٹی اور ایک پوتی کی صورت میں بیٹی کا حصہ نصف ہے، اور بیٹی اورپوتی کا مجموعی حصہ دوتہائی ہے، لہٰذا دو تہائی میں سے نصف بیٹی کو دے کر باقی چھٹا حصہ پوتی کو ملتا ہے۔

(6)
اس صورت میں بیٹی اور پوتی کو برابر حصہ نہیں ملتا کیونکہ ان کا درجہ، یعنی میت سے تعلق برابر نہیں۔

(7)
بیٹی، بیٹیوں یا پوتی، پوتیوں کی موجودگی میں بہن عصبہ ہے۔

(8)
  تقلید سراسر گمراہی ہے، خواہ وہ کسی بڑے سے بڑے امام یا صحابی ہی کی کیوں نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2721   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2093  
´بیٹی کے ساتھ پوتی کی وراثت کا بیان۔`
ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ان سے بیٹی، پوتی اور حقیقی بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا، ان دونوں نے جواب دیا: بیٹی کو آدھی میراث اور حقیقی بہن کو باقی حصہ ملے گا، انہوں نے اس آدمی سے یہ بھی کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، وہ بھی ہماری طرح جواب دیں گے، وہ آدمی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آیا، ان سے مسئلہ بیان کیا اور ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ نے جو کہا تھا اسے بھی بتایا، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: اگر میں بھی ویسا ہی جواب دوں تب ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2093]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
کل ترکہ کے (12) حصے فرض کریں گے جن میں سے:
مرنے والے کی بیٹی کے لیے کل ترکہ کا آدھا =6 حصے،
پوتی کے لیے چھٹا حصہ =2حصے اور مرنے والے کی بہن کے لیے باقی ترکہ =4 حصے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2093   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2890  
´صلبی (حقیقی) اولاد کی میراث کا بیان۔`
ہزیل بن شرحبیل اودی کہتے ہیں ایک شخص ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور سلیمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور ان دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا کہ ایک بیٹی ہو اور ایک پوتی اور ایک سگی بہن (یعنی ایک شخص ان کو وارث چھوڑ کر مرے) تو اس کی میراث کیسے بٹے گی؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ بیٹی کو آدھا اور سگی بہن کو آدھا ملے گا، اور انہوں نے پوتی کو کسی چیز کا وارث نہیں کیا (اور ان دونوں نے پوچھنے والے سے کہا) تم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جا کر پوچھو تو وہ بھی اس مسئلہ میں ہماری موافقت کریں گے، تو وہ شخص ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا اور انہیں ان دونوں کی بات بتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2890]
فوائد ومسائل:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جوا ب آیت میراث میں مذکور ہے۔
(فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ۔
)
(النساء:11) اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں۔
اور دوسے زیادہ ہوں۔
تو انہیں ترکہ سے دو تہائی ملے گا۔
لہذا ایک لڑکی کو نصف دینے کے بعد پوتی کو صرف چھٹا حصہ ملے گا۔
یوں دونوں مل کر دو لڑکیوں کی جگہ پر کردیں گی۔


صلبی اولاد سے مراد بیٹا بیٹی پوتا اور پوتی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2890   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.