فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4401
´امام سے پہلے قربانی کے جانور کے ذبح کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فرمایا: ”جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہے، اسے چاہیئے کہ پھر سے قربانی کرے“، ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے کہ جس میں ہر ایک کی گوشت کی خواہش ہوتی ہے، اور پھر انہوں نے پڑوسیوں کا حال بیان کیا، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی۔ انہوں نے کہا: میرے پاس بکری کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو مجھے گوشت والی دو بکریوں سے زیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4401]
اردو حاشہ:
(1) عنوان کے ساتھ حدیث کی مناسبت بظاہر تو معلوم نہیں ہوتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے غالباََ رسول اللہ ﷺ کے فرمان: [مَن ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاةِ، فليُعِدِ ] ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کر لی، وہ دوبارہ قربانی ذبح کرے۔“ کو امام کے ذبح کرنے پر محمول کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور بعض دیگر اہل علم کا یہی قول ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ امام کے ذبح کرنے سے پہلے بھی قربانی ذبح کی جا سکتی ہے بشر طیکہ نماز عید کے بعد ہو۔ ظاہراََ تو حدیث مبارکہ سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ والله أعلم
(2) افضل یہ ہے کہ انسان اپنی قربانی کا جانور خود، اپنے ہاتھوں ہی سے ذبح کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں مینڈھے خود ہی ذبح کیے تھے۔ اس پراجماع ہے، تاہم اگر کوئی دوسرا شخص بھی ذبح کر دے تو قربانی جائز ہوگی۔
(3) پورے گھرانے کی طرف ایک جانور(بھیڑ، بکری، چھترا، چھتری اور مینڈھے وغیرہ) قربانی کفایت کر جاتی ہے، تا ہم دو یا زیادہ جانور ذبح کرنا افضل اور پسندیدہ عمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4401