سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
Chapters On Al-Fitan
26. باب مَا جَاءَ مَا أَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
26. باب: قیامت تک واقع ہونے والی چیزوں کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2191
Save to word مکررات اعراب
حدثنا عمران بن موسى القزاز البصري، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا علي بن زيد بن جدعان القرشي، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما صلاة العصر بنهار، ثم قام خطيبا فلم يدع شيئا يكون إلى قيام الساعة إلا اخبرنا به، حفظه من حفظه، ونسيه من نسيه، وكان فيما قال: " إن الدنيا حلوة خضرة، وإن الله مستخلفكم فيها، فناظر كيف تعملون، الا فاتقوا الدنيا واتقوا النساء ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وكان فيما قال: " الا لا يمنعن رجلا هيبة الناس ان يقول بحق إذا علمه "، قال: فبكى ابو سعيد، فقال: قد والله راينا اشياء فهبنا. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فكان فيما قال: " الا إنه ينصب لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته، ولا غدرة اعظم من غدرة إمام عامة يركز لواؤه عند استه ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فكان فيما حفظنا يومئذ: " الا إن بني آدم خلقوا على طبقات شتى، فمنهم من يولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت مؤمنا، ومنهم من يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت كافرا، ومنهم من يولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت كافرا، ومنهم من يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت مؤمنا، الا وإن منهم البطيء الغضب سريع الفيء، ومنهم سريع الغضب سريع الفيء فتلك بتلك، الا وإن منهم سريع الغضب بطيء الفيء، الا وخيرهم بطيء الغضب سريع الفيء، الا وشرهم سريع الغضب بطيء الفيء، الا وإن منهم حسن القضاء حسن الطلب، ومنهم سيئ القضاء حسن الطلب، ومنهم حسن القضاء سيئ الطلب فتلك بتلك، الا وإن منهم السيئ القضاء السيئ الطلب، الا وخيرهم الحسن القضاء الحسن الطلب، الا وشرهم سيئ القضاء سيئ الطلب، الا وإن الغضب جمرة في قلب ابن آدم، اما رايتم إلى حمرة عينيه وانتفاخ اوداجه فمن احس بشيء من ذلك فليلصق بالارض ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وجعلنا نلتفت إلى الشمس هل بقي منها شيء؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا إنه لم يبق من الدنيا فيما مضى منها إلا كما بقي من يومكم هذا فيما مضى منه "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن حذيفة، وابي مريم، وابي زيد بن اخطب، والمغيرة بن شعبة، وذكروا ان النبي صلى الله عليه وسلم حدثهم بما هو كائن إلى ان تقوم الساعة، وهذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةَ الْعَصْرِ بِنَهَارٍ، ثُمَّ قَامَ خَطِيبًا فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا أَخْبَرَنَا بِهِ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ، وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، وَكَانَ فِيمَا قَالَ: " إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا، فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَكَانَ فِيمَا قَالَ: " أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ "، قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ، فَقَالَ: قَدْ وَاللَّهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَكَانَ فِيمَا قَالَ: " أَلَا إِنَّهُ يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ غَدْرَتِهِ، وَلَا غَدْرَةَ أَعْظَمُ مِنْ غَدْرَةِ إِمَامِ عَامَّةٍ يُرْكَزُ لِوَاؤُهُ عِنْدَ اسْتِهِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَكَانَ فِيمَا حَفِظْنَا يَوْمَئِذٍ: " أَلَا إِنَّ بَنِي آدَمَ خُلِقُوا عَلَى طَبَقَاتٍ شَتَّى، فَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ كَافِرًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ كَافِرًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمُ الْبَطِيءَ الْغَضَبِ سَرِيعَ الْفَيْءِ، وَمِنْهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمْ سَرِيعَ الْغَضَبِ بَطِيءَ الْفَيْءِ، أَلَا وَخَيْرُهُمْ بَطِيءُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ بَطِيءُ الْفَيْءِ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمْ حَسَنَ الْقَضَاءِ حَسَنَ الطَّلَبِ، وَمِنْهُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ حَسَنُ الطَّلَبِ، وَمِنْهُمْ حَسَنُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمُ السَّيِّئَ الْقَضَاءِ السَّيِّئَ الطَّلَبِ، أَلَا وَخَيْرُهُمُ الْحَسَنُ الْقَضَاءِ الْحَسَنُ الطَّلَبِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ، أَلَا وَإِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَى حُمْرَةِ عَيْنَيْهِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِهِ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَلْصَقْ بِالْأَرْضِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَجَعَلْنَا نَلْتَفِتُ إِلَى الشَّمْسِ هَلْ بَقِيَ مِنْهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا فِيمَا مَضَى مِنْهَا إِلَّا كَمَا بَقِيَ مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا فِيمَا مَضَى مِنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ حُذَيْفَةَ، وَأَبِي مَرْيَمَ، وَأَبِي زَيْدِ بْنِ أَخْطَبَ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَذَكَرُوا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ۱؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو ۲؎، آپ نے یہ بھی فرمایا: خبردار! حق جان لینے کے بعد کسی آدمی کو لوگوں کا خوف اسے بیان کرنے سے نہ روک دے، ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے روتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں اور (بیان کرنے سے) ڈر گئے آپ نے یہ بھی بیان فرمایا: خبردار! قیامت کے دن ہر عہد توڑنے والے کے لیے اس کے عہد توڑنے کے مطابق ایک جھنڈا ہو گا اور امام عام کے عہد توڑنے سے بڑھ کر کوئی عہد توڑنا نہیں، اس عہد کے توڑنے والے کا جھنڈا اس کے سرین کے پاس نصب کیا جائے گا، اس دن کی جو باتیں ہمیں یاد رہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی: جان لو! انسان مختلف درجہ کے پیدا کیے گئے ہیں کچھ لوگ پیدائشی مومن ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں مرتے ہیں، کچھ لوگ مومن پیدا ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندہ رہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگوں کو غصہ دیر سے آتا ہے اور جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے، کچھ لوگوں کو غصہ جلد آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، یہ دونوں برابر ہیں، جان لو! کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں جلد غصہ آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، جان لو! ان میں سب سے بہتر وہ ہیں جو دیر سے غصہ ہوتے ہیں اور جلد ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، اور سب سے برے وہ ہیں جو جلد غصہ ہوتے ہیں اور دیر سے ٹھنڈے ہوتے ہیں، جان لو! کچھ لوگ اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتے ہیں اور اچھے ڈھنگ سے قرض وصول کرتے ہیں، کچھ لوگ بدسلوکی سے قرض ادا کرتے ہیں، اور بدسلوکی سے وصول کرتے ہیں، جان لو! ان میں سب سے اچھا وہ ہے جو اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتا ہے اور اچھے ڈھنگ سے وصول کرتا ہے، اور سب سے برا وہ ہے جو برے ڈھنگ سے ادا کرتا ہے، اور بدسلوکی سے وصول کرتا ہے، جان لو! غصہ انسان کے دل میں ایک چنگاری ہے کیا تم غصہ ہونے والے کی آنکھوں کی سرخی اور اس کی گردن کی رگوں کو پھولتے ہوئے نہیں دیکھتے ہو؟ لہٰذا جس شخص کو غصہ کا احساس ہو وہ زمین سے چپک جائے، ابو سعید خدری کہتے ہیں: ہم لوگ سورج کی طرف مڑ کر دیکھنے لگے کہ کیا ابھی ڈوبنے میں کچھ باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جان لو! دنیا کے گزرے ہوئے حصہ کی بہ نسبت اب جو حصہ باقی ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا حصہ آج کا تمہارے گزرے ہوئے دن کی بہ نسبت باقی ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں حذیفہ، ابومریم، ابوزید بن اخطب اور مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ان لوگوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قیامت تک ہونے والی چیزوں کو بیان فرمایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 19 (4000) (تحفة الأشراف: 4366) (ضعیف) (سند میں ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں، اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، دیکھیے: الصحیحہ: 486، و911)»

وضاحت:
۱؎: یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث و نائب بنائے گا، یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ و نائب ہے یہ غلط بات ہے، بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیسا کہ خضر کی دعا میں ہے «والخلیفۃ بعد» ۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن بعض فقراته صحيح. فانظر مثلا ابن ماجة (4000) الرد على بليق (86)، ابن ماجة (4000) // ضعيف سنن ابن ماجة (865) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2191) إسناده ضعيف
علي بن زيد بن جدعان: ضعيف (تقدم:589)
   صحيح مسلم4537سعد بن مالكلكل غادر لواء عند استه يوم القيامة
   صحيح مسلم4538سعد بن مالكلكل غادر لواء يوم القيامة يرفع له بقدر غدره لا غادر أعظم غدرا من أمير عامة
   جامع الترمذي2191سعد بن مالكينصب لكل غادر لواء يوم القيامةبقدر غدرته لا غدرة أعظم من غدرة إمام عامة يركز لواؤه عند استه
   سنن ابن ماجه2873سعد بن مالكينصب لكل غادر لواء يوم القيامة بقدر غدرته

   جامع الترمذي2191سعد بن مالكلا يمنعن رجلا هيبة الناس أن يقول بحق إذا علمه
   سنن ابن ماجه4008سعد بن مالكلا يحقر أحدكم نفسه قالوا يا رسول الله كيف يحقر أحدنا نفسه قال يرى أمرا لله عليه فيه مقال ثم لا يقول فيه فيقول الله له يوم القيامة ما منعك أن تقول في كذا وكذا فيقول خشية الناس فيقول فإياي كنت أحق أن تخشى
   سنن ابن ماجه4007سعد بن مالكلا يمنعن رجلا هيبة الناس أن يقول بحق إذا علمه
   المعجم الصغير للطبراني44سعد بن مالكلا يمنعن أحدكم هيبة الناس أن يقول الحق إذا رآه أو سمعه

   صحيح مسلم6948سعد بن مالكالدنيا حلوة خضرة الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون اتقوا الدنيا اتقوا النساء أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء
   جامع الترمذي2191سعد بن مالكالدنيا حلوة خضرة الله مستخلفكم فيها فناظر كيف تعملون اتقوا الدنيا اتقوا النساء
   سنن ابن ماجه4000سعد بن مالكالدنيا خضرة حلوة وإن الله مستخلفكم فيها فناظر كيف تعملون ألا فاتقوا الدنيا اتقوا النساء

   جامع الترمذي2191سعد بن مالكيولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت مؤمنا يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت كافرا يولد مؤمنا ويحيا مؤمنا ويموت كافرا يولد كافرا ويحيا كافرا ويموت مؤمنا سريع الغضب بطيء الفيء خيرهم بطيء الغضب سريع الفيء شرهم سريع الغضب بطيء الفيء منهم حسن القضاء حسن الطلب منهم سيئ الق
   المعجم الصغير للطبراني343سعد بن مالكيولد مؤمنا ويحيى مؤمنا ويموت مؤمنا يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت كافرا يولد كافرا ويحيى كافرا ويموت مؤمنا

   جامع الترمذي2191سعد بن مالكلم يبق من الدنيا فيما مضى منها إلا كما بقي من يومكم هذا فيما مضى منه

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2191 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2191  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث ونائب بنائے گا،
یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ ونائب ہے یہ غلط بات ہے،
بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیساکہ خضرکی دعامیں ہے (والخلیفةبعد)
2؎:
یعنی تمہارے دین کے کاموں کے لیے دنیا جس قدر مفید اور معاون ہو اسی قدر اس کی چاہت کرو،
اور عورتوں کی مکاری اور ان کی چالبازی سے ہوشیار رہو۔

3؎:
اس حدیث سے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے:

(1)
کھڑے ہوکر وعظ و نصیحت کرنا مسنون ہے۔

(2)
انسان بھول چوک کا شکار ہوتاہے،
یہاں تک کہ صحابہ کرام بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔

(3)
اظہار حق کے لیے لوگوں کا ڈر و خوف مانع نہ ہو۔

(4) دنیا اورعورتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

(5) عہد توڑنا قیامت کے دن رسوائی کا باعث ہوگی۔

(6) انسان پیدائش سے لے کر مرنے تک ایمان و کفر کی آزمائش سے گزر تاہے۔

(7) غصہ کے مختلف مراحل ہیں۔

(8) قرض کا لین دین،
کس انداز سے ہو۔

(9) غصہ کی حالت میں انسان کیا کرے؟
(10) دنیا سے اس کا کس قدر حصہ باقی رہ گیا ہے۔

(سند میں (علی بن زید بن جدعان) ضعیف ہیں،
اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے،
لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں،
دیکھیے: (الصحیحة: 486،
و 911)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2191   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4537  
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن اس کی سرین پر جھنڈا ہو گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4537]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عزت و شرف کی علامت و نشانی سامنے پیشانی پر ہوتی ہے،
یہاں رسوائی اور ذلت کے لیے جھنڈا اس کی سرین کے پاس ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4537   



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.