الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
The Book of Tricks
11. بَابٌ في النِّكَاحِ:
11. باب: نکاح پر جھوٹی گواہی گزر جائے تو کیا حکم ہے۔
(11) Chapter. (To play tricks) in marriage.
حدیث نمبر: 6971
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن ذكوان، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" البكر تستاذن، قلت: إن البكر تستحيي، قال: إذنها صماتها"، وقال بعض الناس: إن هوي رجل جارية يتيمة او بكرا، فابت فاحتال، فجاء بشاهدي زور على انه تزوجها، فادركت، فرضيت اليتيمة، فقبل القاضي شهادة الزور، والزوج يعلم ببطلان ذلك، حل له الوطء.حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ، قُلْتُ: إِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحْيِي، قَالَ: إِذْنُهَا صُمَاتُهَا"، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِنْ هَوِيَ رَجُلٌ جَارِيَةً يَتِيمَةً أَوْ بِكْرًا، فَأَبَتْ فَاحْتَالَ، فَجَاءَ بِشَاهِدَيْ زُورٍ عَلَى أَنَّهُ تَزَوَّجَهَا، فَأَدْرَكَتْ، فَرَضِيَتِ الْيَتِيمَةُ، فَقَبِلَ الْقَاضِي شَهَادَةَ الزُّورِ، وَالزَّوْجُ يَعْلَمُ بِبُطْلَانِ ذَلِكَ، حَلَّ لَهُ الْوَطْءُ.
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے ذکوان نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ کنواری لڑکی شرمائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔ اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر کسی یتیم لڑکی یا کنواری لڑکی سے نکاح کا خواہشمند ہو۔ لیکن لڑکی راضی نہ ہو اس پر اس نے حیلہ کیا اور دو جھوٹے گواہوں کی گواہی اس کی دلائی کہ اس نے لڑکی سے شادی کر لی ہے پھر جب وہ لڑکی جوان ہوئی اور اس نکاح سے وہ بھی راضی ہو گئی اور قاضی نے اس جھوٹی شہادت کو قبول کر لیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سارا ہی جھوٹ اور فریب ہے تب بھی اس سے جماع کرنا جائز ہے۔

Narrated `Aisha: Allah's Apostle said, "It is essential to have the consent of a virgin (for the marriage). I said, "A virgin feels shy." The Prophet; said, "Her silence means her consent." Some people said, "If a man falls in love with an orphan slave girl or a virgin and she refuses (him) and then he makes a trick by bringing two false witnesses to testify that he has married her, and then she attains the age of puberty and agrees to marry him and the judge accepts the false witness and the husband knows that the witnesses were false ones, he may consummate his marriage."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 86, Number 101

   صحيح البخاري6946عائشة بنت عبد اللهيستأمر النساء في أبضاعهن قال نعم قلت فإن البكر
   صحيح البخاري5137عائشة بنت عبد اللهرضاها صمتها
   صحيح البخاري6971عائشة بنت عبد اللهالبكر تستأذن البكر تستحيي قال إذنها صماتها
   سنن النسائى الصغرى3268عائشة بنت عبد اللهاستأمروا النساء في أبضاعهن قيل فإن البكر تستحي وتسكت قال هو إذنها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6971  
6971. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے نکاح کی اجازت لی جائے گی۔ میں نے کہا: کنواری لڑکی تو شرمائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کوئی یتیم بچی یا کنواری لڑکی سے نکاح کرنا چاہیے لیکن لڑکی نکاح پر رضا مند نہ ہوتو یہ حیلہ کرے كہ دو جھوٹے گواہ لائے جو گواہی دیں کہ اس مرد نے اس عورت سے نکاح کیا ہے جب لڑکی کو خبر پہنچی تو وہ بھی راضی ہوگئی، قاضی نے بھی جھوٹی گواہی قبول کر لی، حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ اس نے نکاح نہیں کیا۔ اس کے باوجود اس عورت سے جماع کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6971]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث بالا سے حضرت امام بخاری نے بعض الناس کے ایک نہایت ہی کھلے ہوئے غلط فیصلے کی تردید فرمائی ہے۔
جیسا کہ روایات کے ذیل میں تشریح ہے۔
فقہاء کی ایسی ہی حیلہ بازیوں کی قلعی کھولنا یہاں کتاب الحیل کا مقصد ہے جیسا کہ بنظر انصاف مطالعہ کرنے والوں پر ظاہر ہوگا۔
شیخ سعدی نے ایسے ہی فقہائے کرام کے بارے میں کہا ہے:
فقیہان طریق جدل ساختند لم لا نسلم درانداختند کتنے ہی علمائے احناف حق پسند ایسے بھی ہیں جو ان حیلہ سازیوں کو تسلیم نہیں کرتے وہ یقینا ان سے مستثنیٰ ہیں۔
جزاهم اﷲ أحسن الجزاء۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6971   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6971  
6971. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے نکاح کی اجازت لی جائے گی۔ میں نے کہا: کنواری لڑکی تو شرمائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کوئی یتیم بچی یا کنواری لڑکی سے نکاح کرنا چاہیے لیکن لڑکی نکاح پر رضا مند نہ ہوتو یہ حیلہ کرے كہ دو جھوٹے گواہ لائے جو گواہی دیں کہ اس مرد نے اس عورت سے نکاح کیا ہے جب لڑکی کو خبر پہنچی تو وہ بھی راضی ہوگئی، قاضی نے بھی جھوٹی گواہی قبول کر لی، حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ اس نے نکاح نہیں کیا۔ اس کے باوجود اس عورت سے جماع کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6971]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کی قباحت اورخرابی بیان کرنے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے ہیں:
پہلی صورت کنواری لڑکی کے متعلق تھی، دوسری شوہردیدہ کے بارے میں اور تیسری صورت میں گواہی کے بعد اعتراف ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سب صورتوں میں ایک ہی موقف کو بار بار بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہو سکتا ہے لیکن باطنی اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایسا شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل مواخذہ ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
بعض اوقات تم میں سے کوئی اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہوتا ہے، اس طرح میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اسے غیر کا حق مل رہا ہے تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں نے اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دیا ہے۔
(صحیح البخاري، الحیل، حدیث: 6967)

اس واضح اور دو ٹوک حدیث کے باوجود بعض لوگوں کواس بات پر اصرار ہے کہ عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہو جاتا ہے اور یہ حضرات اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کا محل نزاع کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں کیونکہ یہ حدیث اموال کے بارے میں ہے، عقود ومعاملات کے بارے میں نہیں ہے، حالانکہ یہ حدیث عام ہے خواہ حکم حاکم مال سے متعلق ہو یا کسی دوسرے حق کے بارے میں ہو، وہ حق خواہ مالِ عقود سے متعلق ہویا عقد نکاح سے تعلق رکھتا ہو۔
اموال وعقود کی تفریق دست ہنرشناس کا نتیجہ ہو سکتا ہے لیکن حدیث کے الفاظ اس تفریق کی اجازت نہیں دیتے۔
ان حضرات کا یہ کہنا کہ یہ حدیث جھوٹی گواہی کے متعلق نہیں بلکہ چرب لسانی اور زبان درازی کے بارے میں ہے۔

ہمارے رحجان کے مطابق اس طرح کی موشگافی حدیث سے ثابت نہیں ہوتی اور نہ شرعاً اس طرح کی سخن بازی کی اجازت ہی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6971   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.