صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
1ق. باب معرفة العفاص والوكاء وحكم ضالة الغنم والإبل
باب: گمشدہ چیز کا اعلان کرنا اور بھٹکی ہوئی بکری اور اونٹ کے حکم کا بیان۔
ترقیم عبدالباقی: 1722 ترقیم شاملہ: -- 4498
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟، قَالَ: لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟، قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا "، قَالَ يَحْيَي: أَحْسِبُ قَرَأْتُ عِفَاصَهَا.
ہمیں یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی، انہوں نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمان رحمہ اللہ سے، انہوں نے منبعث رضی اللہ عنہ کے مولیٰ یزید سے اور انہوں نے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے (کسی کی) گری، بھولی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ڈھکنے/تھیلی اور بندھن کی شناخت کر لو، پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آ جائے (تو اسے دے دو) ورنہ اس کا جو چاہو کرو۔“ اس نے کہا: گمشدہ بکری (کا کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا بھیڑیے کی ہے۔“ اس نے پوچھا: تو گمشدہ اونٹ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اس سے کیا تعلق ہے؟ اس کی مشک اور اس کا موزہ اس کے ساتھ ہے، وہ (خود ہی) پانی پر پہنچتا ہے اور درخت (کے پتے) کھاتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لیتا ہے۔“ (یحییٰ نے کہا: میرا خیال ہے میں نے عفاصہا پڑھا تھا۔ (بعض روایات میں ”وکاءہا“ (اس کا بندھن) ہے))۔ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4498]
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور بندھن کی شناخت کر لے، پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کر، اگر اس کا مالک آ جائے، (تو اس کو دے دے) وگرنہ اس سے فائدہ اٹھا۔“ تو اس نے پوچھا، گم شدہ بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پکڑ لو گے یا تمہارا کوئی مسلمان بھائی پکڑ لے گا یا پھر بھیڑیے کا لقمہ بنے گی۔“ اس نے سوال کیا تو گم شدہ اونٹ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ تیرا کیا تعلق؟ اس کے ساتھ اس کا مشکیزہ اور جوتا موجود ہے، پانی پر پہنچتا ہے اور درخت کے پتے کھاتا ہے حتی کہ اس کا مالک اس کو پا لیتا ہے۔“ راوی یحییٰ کا خیال ہے، میں نے امام مالک کے سامنے عفاصِها [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4498]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1722
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ترقیم عبدالباقی: 1722 ترقیم شاملہ: -- 4499
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ ابْنُ حُجْرٍ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ : " أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا سَنَةً ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟، قَالَ: خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟، قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا "،
اسماعیل بن جعفر نے ہمیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمان رحمہ اللہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے منبعث رضی اللہ عنہ کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) یزید سے اور انہوں نے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (کسی کی) گری پڑی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”ایک سال اس کا اعلان کرو، پھر اس کے بندھن اور تھیلی وغیرہ کی شناخت رکھو، پھر اس سے خرچ کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! گمشدہ بکری؟ آپ نے فرمایا: ”اسے پکڑ لو، وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا بھیڑیے کی ہے۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ؟ کہا: اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے حتی کہ آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے۔۔ یا آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ پھر فرمایا: ”تمہارا اس سے کیا تعلق؟ اس وقت تک کہ اس کا مالک اسے پا لے، اس کا موزہ اور اس کی مشک اس کے ساتھ ہے۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4499]
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی ایک سال تک تشہیر کرو، پھر اس کے بندھن اور تھیلی کی پہچان کر لے، پھر اس کو خرچ کر لے پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کو اپنی طرف سے دے دے۔“ اس نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گم شدہ بکری؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو پکڑ لے، کیونکہ وہ تیرے قابو میں آئے گی یا تمہارا بھائی پکڑ لے گا یا پھر بھیڑیے کا لقمہ بنے گی۔“ اس نے کہا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گم شدہ اونٹ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آ گئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سرخ ہو گئے یا چہرہ سرخ ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا اس سے کیا واسطہ؟ اس کا جوتا، اس کا مشکیزہ اس کے پاس ہے حتی کہ اس کا مالک اس کو پا لے گا۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4499]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1722
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ترقیم عبدالباقی: 1722 ترقیم شاملہ: -- 4500
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَغَيْرُهُمْ، أَنَّ رَبِيعَةَ بْنَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِحَدَّثَهُمْ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ حَدِيثِ مَالِكٍ، غَيْرَ أَنَّهُ زَادَ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ، قَالَ: وَقَالَ عَمْرٌو: فِي الْحَدِيثِ " فَإِذَا لَمْ يَأْتِ لَهَا طَالِبٌ فَاسْتَنْفِقْهَا "،
عبداللہ بن وہب نے ہمیں خبر دی، کہا: مجھے سفیان ثوری، مالک بن انس رحمہ اللہ، عمرو بن حارث اور دیگر لوگوں نے خبر دی کہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمان رحمہ اللہ نے انہیں اسی سند کے ساتھ مالک کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، البتہ انہوں نے یہ اضافہ کیا: کہا: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں آپ کے ساتھ تھا، اس نے آپ سے کسی کی گری پڑی چیز کے بارے میں پوچھا۔ اور (ابن وہب نے) کہا: عمرو نے حدیث میں کہا: ”جب اسے تلاش کرنے والا کوئی نہ آئے تو اسے خرچ کر لو۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4500]
امام صاحب اپنے ایک اور استاد کی سند سے، ربیعہ کی مذکورہ بالا سند سے، امام مالک، (حدیث نمبر: 4498) کی طرح حدیث بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت زید ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور میں بھی اس کے ساتھ تھا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گری پڑی چیز کے بارے میں سوال کیا اور عمرو کی حدیث میں یہ ہے، ”تو جب اس کا طالب نہ آئے تو اس کو خرچ کر لے۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4500]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1722
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ترقیم عبدالباقی: 1722 ترقیم شاملہ: -- 4501
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ , يَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " فَاحْمَارَّ وَجْهُهُ وَجَبِينُهُ وَغَضِبَ " وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ: " ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ لَمْ يَجِئْ صَاحِبُهَا كَانَتْ وَدِيعَةً عِنْدَكَ ".
سلیمان بن بلال نے مجھے ربیعہ بن ابی عبدالرحمان رحمہ اللہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے منبعث رضی اللہ عنہ کے مولیٰ یزید سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔۔ اس کے بعد اسماعیل بن جعفر کی حدیث کی طرح بیان کیا، مگر انہوں نے کہا: ”تو آپ کا چہرہ اور پیشانی سرخ ہو گئے اور آپ غصہ ہوئے۔“ اور انہوں نے اس قول ”پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو۔“ کے بعد۔۔ یہ اضافہ کیا: ”اگر اس کا مالک نہ آیا تو وہ تمہارے پاس امانت ہو گی۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4501]
امام صاحب اپنے ایک اور استاد کی سند سے حدیث نمبر 4499 کی طرح بیان کرتے ہیں، مگر اس میں یہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اور پیشانی سرخ ہو گئی اور ناراض ہو گئے اور اس قول کے بعد کہ پھر ایک سال تک تشہیر کر، یہ اضافہ ہے، ”اگر اس کا مالک نہ آئے تو وہ تیرے پاس امانت ہو گی۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4501]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1722
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ترقیم عبدالباقی: 1722 ترقیم شاملہ: -- 4502
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ، فَقَالَ: " اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ لَمْ تَعْرِفْ، فَاسْتَنْفِقْهَا وَلْتَكُنْ وَدِيعَةً عِنْدَكَ، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا يَوْمًا مِنَ الدَّهْرِ فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، وَسَأَلَهُ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا دَعْهَا، فَإِنَّ مَعَهَا حِذَاءَهَا وَسِقَاءَهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَجِدَهَا رَبُّهَا، وَسَأَلَهُ عَنِ الشَّاةِ، فَقَالَ: خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ "،
سلیمان بن بلال نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے منبعث رضی اللہ عنہ کے مولیٰ یزید سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی کے گرے یا بھولے ہوئے سونے اور چاندی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی تھیلی اور (باندھنے کی) رسی کی شناخت کر لو، پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو، اگر (کچھ بھی) نہ جان پاؤ تو اسے خرچ کر لو اور وہ تمہارے پاس امانت ہو گی، اگر کسی بھی دن اس کا طلب کرنے والا آ جائے تو اسے اس کی ادائیگی کر دو۔“ اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اس سے کیا واسطہ؟ اس کا جوتا اور مشک اس کے ساتھ ہے، وہ مالک کے پا لینے تک (خود ہی) پانی پر آتا اور درخت کھاتا ہے۔“ اس نے آپ سے بکری کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پکڑ لو، وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا بھیڑیے کی ہے۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4502]
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ میں سونا، چاندی گری ہوئی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے تسمہ اور تھیلی کو پہچان لو، پھر ایک سال تک اعلان کرو، اگر تم مالک کو نہ جان سکو تو اس کو خرچ کر لو اور وہ مال تیرے پاس امانت ہو گا، اگر اس کا مانگنے والا کبھی بھی آ گیا تو تمہیں اسے ادا کرنا ہو گا“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سائل نے گمشدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا اس سے کیا تعلق ہے؟ اسے رہنے دے، کیونکہ اس کا جوتا اور اس کا مشکیزہ اس کے ساتھ ہے، پانی پر پہنچ جاتا ہے، درختوں سے کھا لیتا ہے حتی کہ اس کا مالک اس کو پا لیتا ہے۔“ اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکری کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو پکڑ لو، کیونکہ وہ تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کے لئے یا بھیڑیے کے لیے ہے۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4502]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1722
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ترقیم عبدالباقی: 1722 ترقیم شاملہ: -- 4503
وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَرَبِيعَةُ الرَّأْيِ ابْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ : " أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ زَادَ رَبِيعَةُ " فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ "، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ وَزَادَ " فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَعَرَفَ عِفَاصَهَا وَعَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ ".
حماد بن مسلمہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے یحییٰ بن سعید اور ربیعہ بن ابی عبدالرحمان رحمہ اللہ نے منبعث رضی اللہ عنہ کے مولیٰ یزید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا۔ (اس روایت میں) ربیعہ نے اضافہ کیا: تو آپ غصے ہوئے حتی کہ آپ کے دونوں رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔۔ اور انہوں نے انہی کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور (آخر میں) یہ اضافہ کیا: ”اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تھیلی، (اندر جو تھا اس کی) تعداد اور اس کے بندھن کو جانتا ہو تو اسے دے دو ورنہ وہ تمہاری ہے۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4503]
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا، ربیعہ اس میں یہ اضافہ کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سرخ ہو گئے، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے، جس میں یہ اضافہ ہے، ”اگر اس کا مالک آ جائے اور اس کی تھیلی، اس کی گنتی، اس کا بندھن پہچان لے تو اسے اس کو دے دے، وگرنہ وہ تیری چیز ہے۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4503]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1722
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ترقیم عبدالباقی: 1722 ترقیم شاملہ: -- 4504
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: " عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ لَمْ تُعْتَرَفْ، فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا ثُمَّ كُلْهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ "،
مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا: مجھے ضحاک بن عثمان نے ابونضر سے حدیث بیان کی، انہوں نے بسر بن سعید سے اور انہوں نے حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (کسی کی) گری اور بھولی ہوئی چیز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال اس کی تشہیر کرو، اگر اس کی شناخت نہ ہو پائے (کوئی اسے اپنی چیز کی حیثیت سے نہ پہچان سکے) تو اس کی تھیلی اور بندھن کی شناخت کر لو، پھر اسے کھاؤ (استعمال کرو)، پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے اس کی ادائیگی کر دو۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4504]
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تشہیر کرو، اگر اس کو پہچانا نہ جا سکے تو تم اس کی تھیلی اور بندھن کی شناخت کر کے اس کو استعمال کرو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کی امانت اسے ادا کر دو۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4504]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1722
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ترقیم عبدالباقی: 1722 ترقیم شاملہ: -- 4505
وحَدَّثَنِيهِ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ " فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا وَإِلَّا فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا ".
ابوبکر حنفی نے ضحاک بن عثمان سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور انہوں نے حدیث میں کہا: ”اگر اسے پہچان لیا جائے تو ادا کر دو ورنہ اس کی تھیلی، بندھن، (جس) برتن (میں بند تھی) اور تعداد کی پہچان (محفوظ) رکھو۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4505]
امام صاحب مذکورہ بالا حدیث ایک اور استاد سے نقل کرتے ہیں، ضحاک بن عثمان کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں اس میں ہے، ”اگر اس کی شناخت ہو گئی تو اسے دے دو، وگرنہ اس کی تھیلی، اس کا بندھن اور اس کی تعداد کو پہچان لو۔“ [صحيح مسلم/كتاب اللقطة/حدیث: 4505]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1722
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

