الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

شمائل ترمذي کل احادیث 417 :حدیث نمبر
شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ إِدَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالن کا بیان
کدو سے کھانا زیادہ ہوتا ہے
حدیث نمبر: 160
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد قال: حدثنا حفص بن غياث، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن حكيم بن جابر، عن ابيه قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم فرايت عنده دباء يقطع فقلت: ما هذا؟ قال: «نكثر به طعامنا» قال ابو عيسى:" وجابر هو جابر بن طارق ويقال: ابن ابي طارق، وهو رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نعرف له إلا هذا الحديث الواحد، وابو خالد اسمه: سعد"حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُ عِنْدَهُ دُبَّاءً يُقَطَّعُ فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: «نُكَثِّرُ بِهِ طَعَامَنَا» قَالَ أَبُو عِيسَى:" وَجَابِرٌ هُوَ جَابِرُ بْنُ طَارِقٍ وَيُقَالُ: ابْنُ أَبِي طَارِقٍ، وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْرِفُ لَهُ إِلَا هَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ، وَأَبُو خَالِدٍ اسْمُهُ: سَعْدٌ"
حکیم بن جابر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کدو دیکھے جو کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے ہم اپنا کھانا زیادہ کر لیں گے۔ امام ابوعیسیٰ ‏‏‏‏ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں جابر سے مراد جابر بن طارق ہیں ان کو ابن ابی طارق بھی کہا جاتا ہے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن سے ہمارے علم کے مطابق صرف یہی ایک حدیث مروی ہے، اور سند حدیث میں جو ابوخالد آئے ہیں ان کا نام سعد ہے۔

تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» :
«سنن ابن ماجه: 3304»
اس روایت کی سند اس وجہ سے ضعیف ہے کہ اس کے راوی اسماعیل بن ابی خالد مدلس تھے۔ دیکھئیے: [طبقات المدلسين 36/2، انوار الصحيفه ص 106]
اور یہ سند عن سے ہے۔ یاد رہے کہ امام وکیع نے حفص بن غیاث کی متابعت کر رکھی ہے اور عنعنہ اسماعیل کے علاوہ باقی سند صحیح ہے۔ دیکھئیے: [مسند الحميدي: 862 بتحقيقي]
شیخ البانی رحمہ اللہ کا تدلیس کے بارے میں موقف تھا، لہٰذا وہ اسماعیل مذکور کی تصریح سماع کے بغیر ہی اس حدیث کو اپنے سلسلہ صیحہ میں لے آئے۔ 525/5 ح 2400)!!
ہم اصولِ حدیث کے پابند ہیں، لہٰذا بسا اوقات ایک مدلس راوی کی معنعن روایت میں سماع کی تصریح تلاش کرنے میں کئی کئی دن مشغول اور سرگرداں رہتے ہیں، پھر اس جدوجہد میں مکمل ناکامی کے بعد مجبور ہو کر اس روایت پر ضعف کا حکم لگاتے ہیں اور بعد میں جب بھی صحیح یا حسن سند سے سماع کی تصریح مل جائے تو علانیہ رجوع کرتے ہوئے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیتے ہیں اور حق کی طرف رجوع کرنے میں ہمیں لوگوں کی ملامت، تضحیک اور طعن و تشنیع کی کوئی پروا نہیں ہے۔ «والحمدلله»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.