الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الديات
دیت کے مسائل
20. باب في دِيَةِ الْجَنِينِ:
پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان
حدیث نمبر: 2417
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن منصور، عن إبراهيم، عن عبيد بن نضيلة، عن المغيرة بن شعبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم:"ان امراتين كانتا تحت رجل، فتغايرتا، فضربت إحداهما الاخرى بعمود، فقتلتها وما في بطنها، فاختصما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقضى فيه غرة، وجعلها على عاقلة المراة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا تَحْتَ رَجُلٍ، فَتَغَايَرَتَا، فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِعَمُودٍ، فَقَتَلَتْهَا وَمَا فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَضَى فِيهِ غُرَّةً، وَجَعَلَهَا عَلَى عَاقِلَةِ الْمَرْأَةِ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ دو عورتیں ایک آدمی کے نکاح میں تھیں، ایک دوسری سے غیرت کے سبب اختلاف میں مبتلا ہوئیں تو ایک نے دوسری پر لوہے کا ڈنڈا دے مارا، جس سے دوسری عورت فوت ہوگئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ یہ جھگڑا لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے بدلے ایک لونڈی یا غلام کی دیت کا فیصلہ کیا اور مارنے والی عورت کے عاقلہ پر اس عورت کی دیت کو ڈالا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2425]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6910]، [مسلم 1682]، [أبوداؤد 4568]، [ترمذي 1411]، [نسائي 4836]، [ابن ماجه 2633] و [ابن حبان 6016]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2416)
اس قضیے میں دو دیت ہیں۔
ایک تو عورت کی دیت، دوسرے پیٹ کے بچے کی دیت۔
تو عورت کی دیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مارنے والی قاتل عورت کے عاقلہ پر ڈالی، اس کے شوہر پر نہیں، اور عاقلہ سے مراد باپ یعنی دهدیال والے اور اہلِ قبیلہ والے رشتے دار ہیں، پھر اس دیت کا وارث مقتولہ عورت کے بیٹوں اور شوہر کو قرار دیا، قاتلہ عورت کے اہلِ خانہ نے اس پر اعتراض کیا جس کا تذکرہ آگے آ رہا ہے، اور اسقاطِ حمل یعنی بچے کے رحمِ مادر میں مر جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی یا غلام کو بھی آزاد کرنے کا اس عورت کے عاقلہ کو حکم دیا، ڈنڈا کیونکہ آلۂ قتل نہیں اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبہ العمد یا قتلِ خطا قرار دیتے ہوئے اس میں دیت کو لازم قرار دیا، اور خلافِ قاعده قاتل کے بجائے عاقلہ پر دیت لازم کی اس لئے کہ قتل کرنے والی سے عمداً و قصداً یہ جرم سرزد نہیں ہوا تو اس کے ساتھ سب کی ہمدردی اور غمخواری ہو، (والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2418
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، حدثنا ابن جريج، عن عمرو هو: ابن دينار، عن طاوس، عن ابن عباس: ان عمر نشد الناس قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجنين فقام حمل بن مالك بن النابغة، فقال: كنت بين امراتين، فضربت إحداهما الاخرى بمسطح،"فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنينها بغرة، وان تقتل بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرٍو هُوَ: ابْنُ دِينَار، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ عُمَرَ نَشَدَ النَّاسَ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ فَقَامَ حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ، فَقَالَ: كُنْتُ بَيْنَ امْرَأَتَيْنِ، فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِمِسْطَحٍ،"فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنِينِهَا بِغُرَّةٍ، وَأَنْ تُقْتَلَ بِهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جنین (پیٹ کا بچہ) کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تلاش کیا تو حمل بن مالک بن نابغہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں دو عورتوں کے بیچ میں تھا، ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی اٹھا کر ماری (وہ مرگئی اور اس کا بچہ بھی مرگیا «كما فى الرواية الأولى») تو اس قضیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین کی دیت غلام یا لونڈی آزاد کرنے کا فیصلہ کیا اور مارنے والی عورت کے قتل کا حکم دیا، یعنی اس کو قتل عمد قرار دے کر قصاص میں اور عورت کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2426]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4572]، [نسائي 4753، 4831]، [ابن ماجه 2641]، [ابن حبان 6021]، [موارد الظمآن 1525]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.