الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام 40. باب اسْتِحْبَابِ التَّبْكِيرِ بِالصُّبْحِ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا وَهُوَ التَّغْلِيسُ وَبَيَانِ قَدْرِ الْقِرَاءَةِ فِيهَا: باب: صبح کی نماز کے لئے سویرے جانے اور اس کی قرأت کے بیان میں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مؤمن عورتیں نماز پڑھتی تھیں صبح کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پھر اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی لوٹتی تھیں کہ ان کو کوئی نہیں پہچانتا تھا (یعنی نماز کے بعد اتنا اندھیرا ہوتا تھا)۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مؤمن بیبیاں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (نماز پڑھنے کے لئے) نماز فجر میں حاضر ہوتی تھیں اور پھر اپنے گھروں میں لوٹ جاتی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سویرے نماز پڑھ لینے کے سبب سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح ادا کرتے تھے اور عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئیں جاتی تھیں اور اندھیرے میں پہچانی نہ جاتی تھیں اور انصاری نے اپنی روایت میں «مُتَلَفِّفَاتٍ» کہا ہے اس کے معنی بھی وہی لپٹی ہوئیں کے ہیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کے وقت اور نہایت گرمی میں (یعنی زوال کے بعد) پڑھا کرتے تھے اور عصر ایسے وقت میں کہ آفتاب صاف ہوتا اور مغرب جب کہ آفتاب ڈوب جاتا اور عشاء میں کبھی تاخیر کرتے اور کبھی اول پڑھتے اور جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے اول وقت پڑھتے اور جب دیکھتے کہ لوگ دیر میں آئے تو دیر کرتے اور صبح کی نماز اندھیرے میں ادا کرتے تھے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے وہی روایت بیان کی جو ابھی اوپر گزری ہے جس کو غندر نے روایت کیا ہے۔
سیار بن سلامہ نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا کہ وہ پوچھتے تھے سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا حال۔ شعبہ نے کہا: کیا تم نے سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے سنا؟ انہوں کہا کہ گویا میں ابھی سن رہا ہوں (یعنی مجھے ایسا یاد ہے) پھر سیار نے کہا کہ میں نے اپنے باپ کو سنا کہ وہ سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ علیہ وسلم کی نماز کا حال پوچھتے تھے تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرواہ نہ رکھتے تھے اگر عشاء میں آدھی رات تک تاخیر ہو جائے اور اس سے پہلے سونے کو اچھا نہ جانتے تھے اور نہ اس کے بعد باتیں کر نے کو۔ شعبہ نے کہا کہ میں پھر ان سے (یعنی سیار سے) ملا اور پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ظہر اس وقت پڑھتے تھے جب آفتاب ڈھل جاتا اور عصر جب کہ آدمی جاتا (یعنی عصر کی نماز کے بعد) مدینہ کے کنارے تک اور آفتاب میں گرمی رہتی اور کہا کہ مغرب کو میں نہیں جانتا کہ کیا ذکر کیا۔ میں نے ان سے پھر ملاقات کی اور پوچھا تو انہوں نے کہا کہ صبح ایسے وقت پڑھتے کہ نماز کے بعد آدمی اپنے ہم نشین کو دیکھتا جس کو پہچانتا تھا تو اس کو پہچان لیتا اور اس میں ساٹھ آیتوں سے سو آیتوں تک پڑھتے۔
سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروا نہ رکھتے تھے اگر عشاء میں آدھی رات تک تاخیر ہوتی اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد باتوں کو برا جانتے۔ شعبہ نے کہا کہ میں ان سے پھر ملا تو انہوں نے کہا: یا تہائی رات تک۔
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز تہائی رات میں پڑھتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد باتیں کرنے کو برا جانتے تھے۔ اور نماز فجر میں سو آیتوں سے ساٹھ تک پڑھتے تھے اور ایسے وقت فارغ ہوتے کہ ایک دوسرے کا چہرہ پہچان لیتا۔
|