حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعمرو الناقد ، وابن ابي عمر واللفظ لابي بكر، قالوا، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عروة ، عن ابي حميد الساعدي ، قال: " استعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من الاسد، يقال له ابن اللتبية، قال عمرو، وابن ابي عمر: على الصدقة، فلما قدم، قال: هذا لكم وهذا لي اهدي لي، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، فحمد الله واثنى عليه، وقال: ما بال عامل ابعثه، فيقول هذا لكم وهذا اهدي لي، افلا قعد في بيت ابيه او في بيت امه حتى ينظر ايهدى إليه ام لا، والذي نفس محمد بيده لا ينال احد منكم منها شيئا، إلا جاء به يوم القيامة يحمله على عنقه بعير له رغاء او بقرة لها خوار او شاة تيعر، ثم رفع يديه حتى راينا عفرتي إبطيه، ثم قال: اللهم هل بلغت؟ مرتين "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالُوا، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: " اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَسْدِ، يُقَالُ لَهُ ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ، قَالَ عَمْرٌو، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ: عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ، قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا لِي أُهْدِيَ لِي، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَالُ عَامِلٍ أَبْعَثُهُ، فَيَقُولُ هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَفَلَا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ فِي بَيْتِ أُمِّهِ حَتَّى يَنْظُرَ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَنَالُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةٌ لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةٌ تَيْعِرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَتَيْ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ مَرَّتَيْنِ "،
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسد کے قبیلہ میں سے ایک شخص کو جس کو ابن لتبیہ کہتے تھے صدقہ وصول کرنے پر مقرر کیا جب وہ لوٹ کر آیا تو کہنے لگا، یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے تحفہ کے طور پر ملا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی اور ستائش کی پھر فرمایا: ”کیا حال ہے اس تحصیلدار کا جس کو میں مقرر کرتا ہوں پھر کہتا ہے یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ ملا۔ وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا پھر دیکھتے کہ اس کو ہدیہ ملتا یا نہیں۔ (یعنی اگر اس وقت بھی جب سرکاری کام نہ ہو کوئی ہدیہ دیا کرتا ہو تو اس کا ہدیہ کام کے بعد بھی درست ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اس نے ہدیہ دباؤ سے دیا ہے یا کسی غرض سے اور ایسا ہدیہ لینا حرام ہے) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، کوئی تم میں سے ایسا مال نہ لے گا مگر قیامت کے دن اپنی گردن پر لاد کر اس کو لاۓ گا، اونٹ ہو گا تو وہ بڑبڑاتا ہو گا، گائے ہو گی تو وہ چلاتی ہو گی، بکری ہو گی تو وہ میمیں میمیں کرتی ہو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی ہم کو نظر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! میں نے (تیرا حکم) پہنچا دیا۔“
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعبد بن حميد ، قالا: اخبرنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن ابي حميد الساعدي ، قال: استعمل النبي صلى الله عليه وسلم ابن اللتبية رجلا من الازد على الصدقة، فجاء بالمال، فدفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: هذا مالكم وهذه هدية اهديت لي، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " افلا قعدت في بيت ابيك وامك فتنظر ايهدى إليك ام لا "، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم خطيبا ثم ذكر نحو حديث سفيان.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ اللُّتْبِيَّةِ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَجَاءَ بِالْمَالِ، فَدَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذِهِ هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفَلَا قَعَدْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ فَتَنْظُرَ أَيُهْدَى إِلَيْكَ أَمْ لَا "، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ سُفْيَانَ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ وہ شخص قبیلہ ازد سے تھا۔
حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن ابي حميد الساعدي ، قال: " استعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من الازد على صدقات بني سليم يدعى ابن الاتبية، فلما جاء حاسبه، قال: هذا مالكم وهذا هدية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فهلا جلست في بيت ابيك وامك حتى تاتيك هديتك إن كنت صادقا، ثم خطبنا فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: اما بعد فإني استعمل الرجل منكم على العمل مما ولاني الله، فياتي، فيقول: هذا مالكم وهذا هدية اهديت لي، افلا جلس في بيت ابيه وامه حتى تاتيه هديته إن كان صادقا، والله لا ياخذ احد منكم منها شيئا بغير حقه إلا لقي الله تعالى يحمله يوم القيامة، فلاعرفن احدا منكم لقي الله يحمل بعيرا له رغاء او بقرة لها خوار او شاة تيعر، ثم رفع يديه حتى رئي بياض إبطيه، ثم قال: اللهم هل بلغت بصر عيني وسمع اذني "،حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: " اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَزْدِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ الْأُتْبِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ، قَالَ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَهَلَّا جَلَسْتَ فِي بَيْتِ أَبِيكَ وَأُمِّكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ هَدِيَّتُكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، ثُمَّ خَطَبَنَا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَسْتَعْمِلُ الرَّجُلَ مِنْكُمْ عَلَى الْعَمَلِ مِمَّا وَلَّانِي اللَّهُ، فَيَأْتِي، فَيَقُولُ: هَذَا مَالُكُمْ وَهَذَا هَدِيَّةٌ أُهْدِيَتْ لِي، أَفَلَا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ هَدِيَّتُهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا، وَاللَّهِ لَا يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا بِغَيْرِ حَقِّهِ إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى يَحْمِلُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَلَأَعْرِفَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ لَقِيَ اللَّهَ يَحْمِلُ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ أَوْ شَاةً تَيْعَرُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رُئِيَ بَيَاضُ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ بَصُرَ عَيْنِي وَسَمِعَ أُذُنِي "،
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسد کے قبیلہ سے ایک شخص کو جسے ابن لتبیہ کہتے تھے، بنی سلیم کے صدقے تحصیل کرنے کے لیے مقرر کیا جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حساب لیا، وہ کہنے لگا یہ تو آپ کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے۔ (جو لوگوں نے مجھ کو دیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنے ماں باپ یا ماں کے گھر میں بیٹھا ہوتا تیرا ہدیہ تیرے پاس آ جاتا اگر تو سچا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سنایا ہم کو اور اللہ تعریف کی اور ستائش کی بعد اس کے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو کام پر مقرر کرتا ہوں ان کاموں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو دیئے، پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے یہ تمہارا مال ہے، اور یہ مجھ کو ہدیہ ملا۔ بھلا وہ اپنے باپ یا اماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا پھر اس کا ہدیہ اس کے پاس آ جاتا اگر وہ سچا ہے۔ قسم اللہ کی کوئی تم میں سے کوئی چیز ناحق نہ لے مگر اللہ تعالیٰ سے ملے گا اس کو لادے ہوئے اور میں پہچانوں گا تم میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملے گا اونٹ اٹھائے ہوئے اور وہ بڑبڑا رہا ہو گا یا گائے اٹھائے ہوئے وہ آواز کرتی ہو گی یا بکری اٹھائے ہوئے وہ چلاتی ہو گی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دکھلائی دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“”اللہ میں نے پہنچا دیا۔“”ابوحمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میری آنکھ نے یہ دیکھا اور میرے کان نے یہ سنا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے کانوں نے سنا اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے پوچھو وہ بھی اس وقت میرے ساتھ موجود تھے۔
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صدقہ وصول کرنے کے لیے مقرر کیا وہ بہت سی چیزیں لے کر آیا اور کہنے لگا، یہ تو آپ کا مال ہے، یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔ عروہ نے کہا: میں نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے پوچھا یہ حدیث تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: بےشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے میرے کان نے سنی۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا وكيع بن الجراح ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد ، عن قيس بن ابي حازم ، عن عدي بن عميرة الكندي ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من استعملناه منكم على عمل فكتمنا مخيطا فما فوقه كان غلولا ياتي به يوم القيامة، قال: فقام إليه رجل اسود من الانصار كاني انظر إليه، فقال: يا رسول الله، اقبل عني عملك، قال: وما لك، قال: سمعتك تقول كذا وكذا، قال: وانا اقوله الآن من استعملناه منكم على عمل فليجئ بقليله وكثيره، فما اوتي منه اخذ وما نهي عنه انتهى "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ الْكِنْدِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ فَكَتَمَنَا مِخْيَطًا فَمَا فَوْقَهُ كَانَ غُلُولًا يَأْتِي بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ أَسْوَدُ مِنْ الْأَنْصَارِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْبَلْ عَنِّي عَمَلَكَ، قَالَ: وَمَا لَكَ، قَالَ: سَمِعْتُكَ تَقُولُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: وَأَنَا أَقُولُهُ الْآنَ مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ مِنْكُمْ عَلَى عَمَلٍ فَلْيَجِئْ بِقَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ، فَمَا أُوتِيَ مِنْهُ أَخَذَ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ انْتَهَى "،
سیدنا عدی بن عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جس شخص کو تم میں سے ہم کسی کام پر مقرر کریں پھر وہ ایک سوئی یا اس سے زیادہ چھپا رکھے تو وہ «غلول» ہے قیامت کے دن اس کو لے آئے گا۔“ یہ سن کر ایک سانولا انصاری کھڑا ہوا گویا میں اس کو دیکھ رہا ہوں اور بولا: یا رسول اللہ! اپنا کام مجھ سے لے لیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کیا ہوا۔“ وہ بولا: میں نے سنا آپ فرماتے تھے ایسا ایسا (یعنی ایک سوئی کا بھی مؤاخذہ ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کہتا ہوں اب بھی پر جس کو ہم کام پر مقرر کریں وہ تھوڑی بہت سب چیزیں لے کر آئے پھر جو اس کو ملے وہ لے لے اور جو نہ ملے اس سے باز رہے۔“(اس صورت میں کوئی بھی مواخذہ نہیں ہے)۔