الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
60. بَابٌ في الزَّوْجَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا قَبْلَ الآخَرِ
باب: میاں بیوی میں سے کوئی دوسرے سے پہلے مسلمان ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2008
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا حفص بن جميع ، حدثنا سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان امراة جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاسلمت فتزوجها رجل، قال: فجاء زوجها الاول، فقال: يا رسول الله، إني قد كنت اسلمت معها وعلمت بإسلامي، قال:" فانتزعها رسول الله صلى الله عليه وسلم من زوجها الآخر وردها إلى زوجها الاول".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ جُمَيْعٍ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ ، عَنْ عِكرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَتْ فَتَزَوَّجَهَا رَجُلٌ، قَالَ: فَجَاءَ زَوْجُهَا الْأَوَّلُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَسْلَمْتُ مَعَهَا وَعَلِمَتْ بِإِسْلَامِي، قَالَ:" فَانْتَزَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا الْآخَرِ وَرَدَّهَا إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اسلام قبول کیا، اور اس سے ایک شخص نے نکاح کر لیا، پھر اس کا پہلا شوہر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں اپنی عورت کے ساتھ ہی مسلمان ہوا تھا، اور اس کو میرا مسلمان ہونا معلوم تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دوسرے شوہر سے چھین کر پہلے شوہر کے حوالے کر دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطلاق 23 (2238، 2239)، سنن الترمذی/النکاح 42 (1144)، (تحفة الأشراف: 6107)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232، 323) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حفص بن جمیع ضعیف راوی ہیں، اور سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے)

It was narrated from Ibn 'Abbas that: a woman came to the Prophet and became Muslim, and a man married her. Then her first husband came and said: "O Messenger of Allah, I became Muslim with her, and she knew that I was Muslim." So the Messenger of Allah took her away from her second husband and returned her to her first husband.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2009
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن خلاد ، ويحيى بن حكيم ، قالا: حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا محمد بن إسحاق ، عن داود بن الحصين ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رد ابنته على ابي العاص بن الربيع بعد سنتين بنكاحها الاول".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ بَعْدَ سَنَتَيْنِ بِنِكَاحِهَا الْأَوَّلِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس دو سال کے بعد اسی پہلے نکاح پر بھیج دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطلاق 24 (2240)، سنن الترمذی/النکاح 42 (1143)، (تحفة الأشراف: 6073)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/217، 261، 351) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: چونکہ ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ (سن ۶ ہجری) سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اس لیے زینب رضی اللہ عنہا کی واپسی کے لیے نئے نکاح کی ضرورت نہیں پڑی، مشرکین پر مسلمان عورتوں کو حرام قرار دینے کا ذکر صلح حدیبیہ کے مکمل ہونے کے بعد نازل ہونے والی آیت میں کیا گیا ہے، لہذا اس مدت کے دوران نکاح فسخ نہیں ہوا کیونکہ اس بارے میں کوئی شرعی حکم تھا ہی نہیں، اور جب نکاح فسخ نہیں ہوا تو نئے نکاح کی ضرورت پڑے گی ہی نہیں، رہی «عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ» والی روایت جو آگے آ رہی ہے تو وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کا معارضہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ حجاج بن أرطاۃ کی وجہ سے ضعیف ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ زینب رضی اللہ عنہا نے ۲ ھ میں یا ۳ ھ کی ابتداء میں ہجرت کی، اور ان کی وفات ۸ ھ کے شروع میں ہوئی ہے، اس طرح ان کی ہجرت اور وفات کے درمیان کل پانچ برس چند ماہ کا وقفہ ہے، لہذا ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام اور زینب رضی اللہ عنہا کی ان کو واپسی اسی مدت کے دوران عمل میں آئی، اور صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قبول اسلام صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے، رہا یہ مسئلہ کہ زینب کی واپسی کتنے سال بعد ہوئی تو اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بعض میں دو سال، بعض میں تین سال اور بعض میں چھ سال کا ذکر ہے، لیکن صحیح ترین روایت یہ ہے کہ ان کی واپسی تین سال بعد ہوئی تھی، تین سال مکمل تھے اور کچھ مہینے مزید گزرے تھے۔

It was narrated from Ibn 'Abbas that: the Messenger of Allah returned his daughter to Abul-'As bin Rabi' after two years, on the basis of the first marriage contract.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2010
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، قال: حدثنا ابو معاوية ، عن حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رد ابنته زينب على ابي العاص بن الربيع بنكاح جديد".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نئے نکاح پر بھیج دیا۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/النکاح 42 (1142)، (تحفة الأشراف: 8672)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/207) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں)

وضاحت:
۱؎: صحیح یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو پہلے نکاح پر برقرار رکھا، اور دارقطنی نے کہا کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے، اور صواب ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح ہی سے لوٹا دیا۔ اور امام ترمذی کتاب العلم میں کہتے ہیں کہ میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا کہ اس باب میں ابن عباس کی حدیث عمرو بن شعیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: تعجب ہے کہ اس ضعیف حدیث کو اصل بنا دیں اور اس سے صحیح حدیث کو رد کر دیں اور کہیں کہ وہ اصول کے خلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرف صحابہ کی ایک جماعت گئی ہے «ومن بعدہم»، ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اسلام قبول کرنے والے آدمی اور اس کے ساتھ اس کی اسلام نہ لانے والی بیوی کے درمیان جدائی نہ کراتے، بلکہ جب دوسرا اسلام لاتا تو نکاح اپنے حال پر رہتا، جب تک وہ عورت دوسرا نکاح نہ کر لے، اور یہ سنت معلومہ اور مشہورہ ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ابوسفیان نے مرالظہران میں جو خزاعہ کا علاقہ ہے، اسلام قبول کیا، اور وہاں فتح مکہ سے پہلے مسلمان تھے، تو وہ دارالاسلام ٹھہرا، اور ابوسفیان مکہ واپس چلے گئے، اور ان کی بیوی ہندہ جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، مکہ میں تھی، اس نے ابوسفیان کی داڑھی پکڑ کر کہا اس بوڑھے گمراہ کو قتل کر دو، پھر اس کے کافی دنوں بعد ہندہ نے اسلام قبول کیا، وہ دارالحرب میں مقیم تھی، اور کافر تھی، جب کہ ابوسفیان مسلمان تھے، اور عدت گزر جانے کے بعد ہندہ مسلمان ہوئی، لیکن دونوں کا نکاح قائم رہا، کیونکہ درحقیقت اس کی عدت نہیں گزری، یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو گئی، اور اسی طرح حکیم بن حزام کا حال گزرا، صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابوجہل دونوں کی بیویاں مکہ میں مسلمان ہوئیں اور مکہ دارالاسلام ہو گیا، اور نبی کریم ﷺکی حکومت وہاں قائم ہو گئی، اور عکرمہ یمن کی طرف بھاگے وہ دارالحرب تھا، اور صفوان بھی دارالحرب چل دیئے، پھر صفوان مکہ میں لوٹے تو وہ دارالاسلام تھا، اور جنگ حنین میں حاضر ہوئے، لیکن اس وقت تک کافر تھے، اس کے بعد مسلمان ہوئے اور ان کی بیوی پہلے ہی نکاح سے ان کے پاس رہیں، کیونکہ درحقیقت ان کی عدت نہیں گزری تھی، اور اہل مغازی نے لکھا ہے کہ ایک انصاری عورت مکہ میں ایک شخص کے پاس تھی، پھر وہ مسلمان ہو گئی اور اس نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، اس کے بعد اس کا شوہر آیا وہ عدت میں تھی، تو اپنے پرانے نکاح ہی پر شوہر سے جا ملی۔ (الروضہ الندیہ)۔

It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, from his grand father, that: the Messenger of Allah, returned his daughter Zainab to Abul-As bin Rabi', with a new marriage contract.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.