كتاب الزهد کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل 31. بَابُ: ذِكْرِ الْمَوْتِ وَالاِسْتِعْدَادِ لَهُ باب: موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزھد 4 (2307)، سنن النسائی/الجنائز 3 (1825)، (تحفة الأشراف: 15080، 15087)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/293) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: موت کی یاد سے دنیا کی بے ثباتی ذہن میں جمتے ہی آخرت کا خیال پیدا ہوتا ہے، یہی فائدہ قبروں کی زیارت کا بھی ہے، نبی اکرم ﷺ نے موت کو لذتوں کو مٹانے والی کہا یعنی موت کی یاد آدمی کے دل و دماغ کو دنیا کی لذتوں سے دور کر دیتے ہیں، یا موت کے آتے ہی آدمی کا تعلق دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے خود بخود ختم ہو جاتا ہے، امام قرطبی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ بڑا مختصر جملہ ہے، جو تذکیر و نصیحت میں بلیغ اور جامع ہے، کیونکہ جس نے صحیح معنوں میں موت کو یاد کیا تو اس سے اس پر دنیاوی لذت کرکری ہو جاتی ہے، اور مستقبل میں اس کی تمنا اور آرزو کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، اور جن نعمتوں کے بارے میں وہ سوچتا تھا، اس میں بڑی کمی آ جاتی ہے، لیکن غافل دل اور ٹھہری ہوئی طبیعتیں لمبے چوڑے وعظ و نصیحت اور تفنن کلام کی محتاج ہوتی ہیں، ورنہ حدیث رسول: لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو، اور آیت کریمہ: «كل نفس ذائقة الموت» ”ہر نفس کو موت کا مزا چکنا ہے“ (سورة الأنبياء: 35) ہی سامع کے لیے کافی ہے، اور دیکھنے والے کو مشغول کر دینے والی ہے، نیز کہتے ہیں: موت کی یاد کے نتیجے میں اس دار فانی سے بے رغبتی کا شعور و احساس پیدا ہوتا ہے، اور ہر لحظہ باقی رہنے والی آخرت کی طرف توجہ ہو جاتی ہے، تو انسان دو حالات میں گھر کر رہ جاتا ہے، ایک تنگی اور وسعت کی حالت اور دوسری نعمت و ابتلاء کی حالت تو تنگی اور ابتلاء کی صورت میں موت کی یاد سے یہ صورت حال اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے کہ یہ حالت ہمیشہ برقرار رہنے والی نہیں ہے، بلکہ موت اس سے زیادہ سخت ہے، اور نعمت اور وسعت کی حالت میں موت کی یاد اس کو دنیاوی نعمتوں اور وسعتوں سے دھوکہ کھانے اور اس سے سکون حاصل کرنے سے روک دیتی ہے،اور موت انسان کو ان چیزوں سے دور کر دیتی ہے، موت کی کوئی معلوم عمر نہیں ہے، اور نہ اس کا زمانہ ہی معلوم ہے اور نہ اس کی بیماری ہی معلوم ہے، تو آدمی کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ ملاحظہ ہو: التذکرۃ بأحوال الموتیٰ وأمورالآخرۃ (الفریوائی) قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ آپ کے پاس ایک انصاری شخص آیا، اس نے آپ کو سلام کیا، پھر کہنے لگا: اللہ کے رسول! مومنوں میں سے کون سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والا ہے“، اس نے کہا: ان میں سب سے عقلمند کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ان میں موت کو سب سے زیادہ یاد کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے سب سے اچھی تیاری کرے، وہی عقلمند ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7333، ومصباح الزجاجة: 1524) (حسن)» (سند میں فروہ بن قیس اور نافع بن عبد اللہ مجہول ہیں، لیکن حدیث دوسرے شواہد سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1384)
قال الشيخ الألباني: حسن
ابو یعلیٰ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں پر لگا دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/صفة القیامة 25 (2459)، تحفة الأشراف: (4820)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/124) (ضعیف)» (سند میں بقیہ مدلس اور ابن ابی مریم ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس آئے جو مرض الموت میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو“؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی رحمت کی امید کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس بندے کے دل میں ایسے وقت میں یہ دونوں کیفیتیں جمع ہو جائیں، اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز دے گا جس کی وہ امید کرتا ہے، اور جس چیز سے ڈرتا ہے، اس سے محفوظ رکھے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 11 (983)، (تحفة الأشراف: 262) (حسن)» (سند میں سیار بن حاتم ضعیف ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1051)
قال الشيخ الألباني: حسن
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں: نکل اے پاک جان! جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، نکل، تو لائق تعریف ہے، اور خوش ہو جا، اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناراض نہیں ہے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل پڑتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: خوش آمدید! پاک جان جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، تو داخل ہو جا، تو نیک ہے اور خوش ہو جا اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے، اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناخوش نہیں، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس کے اوپر اللہ عزوجل ہے، اور جب کوئی برا شخص ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: نکل اے ناپاک نفس، جو ایک ناپاک بدن میں تھی، نکل تو بری حالت میں ہے، خوش ہو جا گرم پانی اور پیپ سے، اور اس جیسی دوسری چیزوں سے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل جاتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب ملتا ہے: یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: ناپاک روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، جو کہ ناپاک بدن میں تھی، لوٹ جا اپنی بری حالت میں، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اس کو آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہ قبر میں آ جاتی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13387، ومصباح الزجاجة: 1525) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالی کا آسمان کے اوپر بلندی میں ہونا ثابت ہے، فاسد عقائد والے اس کا انکار کرتے ہیں، اور اہل حدیث اور اہل حق کو مشبہہ اور مجسمہ کہتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے آسمان کے اوپر بلندی میں ہونے کے عقیدے پر کتاب و سنت کے بے شمار دلائل ہیں، اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین اور ائمہ دین کا اس پر اتفاق ہے، اور یہ چیز انسان کی فطرت میں ہے کہ اپنے خالق و مالک کو پکارتے ہی اس کے ہاتھ اوپر اٹھ جاتے ہیں، اور نگاہیں اوپر دیکھنے لگتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی موت کسی زمین میں لکھی ہوتی ہے تو ضرورت اس کو وہاں لے جاتی ہے، جب وہ اپنے آخری نقش قدم کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض کر لیتا ہے، زمین قیامت کے دن کہے گی: اے رب! یہ تیری امانت ہے جو تو نے میرے سپرد کی تھی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5941، ومصباح الزجاجة: 9541) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند کرتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہے“، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ سے ملنے کو برا جاننا یہ ہے کہ موت کو برا جانے، اور ہم میں سے ہر شخص موت کو برا جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ یہ موت کے وقت کا ذکر ہے، جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے، تو وہ اس سے ملنا پسند کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے، اور جب اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے نہیں ملنا چاہتا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 41 (6507، 6508 تعلیقاً)، صحیح مسلم/الذکروالدعاء (2684)، سنن الترمذی/الجنائز 68 (1067)، سنن النسائی/الجنائز 10 (1839)، (تحفة الأشراف: 16103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/44، 55، 207، 218، 236) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پیش آئے موت کی تمنا نہ کرے، اگر موت کی خواہش کی ضرورت پڑ ہی جائے تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے اگر مرنا میرے لیے بہتر ہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 13 (3108)، (تحفة الأشراف: 1037)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المرضی 19 (5672)، الدعوات 30 (6351)، صحیح مسلم/الذکر 4 (2680)، سنن الترمذی/الجنائز 3 (971)، سنن النسائی/الجنائز 2 (1822)، مسند احمد (3/101، 104، 163، 171، 195، 208، 247، 281) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|