سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
Chapters on Zuhd
32. بَابُ: ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى
باب: قبر اور مردے کے گل سڑ جانے کا بیان۔
Chapter: The grave and disintegration (of the body)
حدیث نمبر: 4266
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي هريرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس شيء من الإنسان إلا يبلى , إلا عظما واحدا , وهو عجب الذنب , ومنه يركب الخلق يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْإِنْسَانِ إِلَّا يَبْلَى , إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا , وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ , وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12552)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر الزمر 4 (4814)، تفسیر النبأ 1 (4935)، صحیح مسلم/الفتن 28 (2955)، سنن ابی داود/السنة 24 (4743)، سنن النسائی/الجنائز 117 (2079)، موطا امام مالک/الجنائز 16 (48)، مسند احمد (2/315، 322، 428) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: «ليس من الإنسان شئ إلا يبلى إلا عظما واحدا» انسان کی ہر چیز ایک ہڈی کے علاوہ بوسیدہ ہو جائے گی اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: «إن في الإنسان عظما لا تأكله الأرض أبدا فيه يركب يوم القيامة، قالوا: أي عظم هو قال: عظم الذنب» انسان میں ایک ایسی ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی، قیامت کے دن اسی میں دوبارہ اس کی تخلیق ہو گی، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول وہ کونسی ہڈی ہے؟ تو آپ نے کہا: وہ دم کی ہڈی ہے مستدرک علی الصحیحین اور مسند ابی یعلی میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: «قيل: يارسول الله! ما عجب الذنب؟ قال: مثل حبة خردل» کہا گیا: اللہ کے رسول! دم کی ہڈی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رائی کے دانے کے برابر۔ «عجب»: ع کے فتحہ اور ج کے سکون کے ساتھ اور اس کو «عجم» بھی کہتے ہیں، ریڑھ کی ہڈی کی جڑ میں یہ ایک باریک ہڈی ہوتی ہے، یہ دم کی ہڈی کا سرا ہے، یہ چاروں طرف سے ریڑھ کی باریک والی ہڈی کا سرا ہے، ابن ابی الدنیا، ابوداود اور حاکم کے یہاں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے کہ یہ رائی کے دانے کے مثل ہے، علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ ابن عقیل نے کہا: اللہ رب العزت کا اس میں کوئی راز ہے، جس کا علم صرف اسی کو ہے، اس لیے کہ جو ذات عدم سے وجود بخشے وہ کسی ایسی چیز کی محتاج نہیں ہے جس کو وہ نئی خلقت کی بنیاد بنائے، اس بات کا احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے لیے نشانی بنایا ہے کہ وہ ہر انسان کو اس کے جوہر کے ساتھ زندہ کرے، اور فرشتوں کو اس کا علم صرف اسی طریقے سے ہو گا کہ ہر شخص کی ہڈی باقی اور موجود ہو، تاکہ وہ اس بات کو جانے کہ روحوں کو ان کے اعیان میں ان اجزاء کے ذریعے سے لوٹایا جائے، اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ «ويبلى كل شئ من الإنسان» انسان کی ہرچیز بوسیدہ ہو جائے گی تو اس میں احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اس کا فنا ہو جانا ہے یعنی اس کے اجزاء کلی طور پر ختم ہو جائیں گے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد اس کا پگھلنا اور تحلیل ہونا ہے، تو معہود صورت ختم ہو جائے گی اور وہ مٹی کی شکل میں ہو جائے گی، پھر اس کی دوبارہ ترکیب میں اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے، بعض شراح حدیث کے خیال میں اس سے مراد اس کے بقا کا طویل ہونا ہے، نہ یہ کہ اصل میں وہ ہڈی فنا نہیں ہو گی، اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ ہڈی انسان کی تخلیق کی بنیاد ہے، جو سب سے زیادہ سخت ہے، جیسے دیوار کی بنیاد اور جب زیادہ سخت ہو گی تو اس کو زیادہ بقائے دوام حاصل ہو گا، اور یہ قابل رد ہے اس لیے کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے، اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، اور علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے، اس سے مراد خصوصیت سے انبیاء ہیں، اس لیے کہ زمین ان کے جسم کو نہ کھائے گی، ابن عبدالبر نے ان کے ساتھ شہداء کو رکھا، اور قرطبی نے ثواب کے خواہاں موذن کو، قاضی عیاض کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ ہر آدمی کو مٹی کھا لے گی اور بہت سے اجسام جیسے انبیاء ہیں کو مٹی نہیں کھائے گی۔ حدیث میں «إلا عجب ذنبه» ہے یعنی انسان کے جسم میں اس کے دم کی ہڈی ہی بچے گی جمہور اس کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دم کی ہڈی نہ بوسیدہ ہو گی، اور نہ اس سے مٹی کھائے گی، مزنی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ «إلا» یہاں واو عطف کے معنی میں ہے، یعنی دم کی ہڈی بھی پرانی ہو جائے گی، اور اس معنی کو فراء اور اخفش نے ثابت کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ «واو» «إلا» کے معنی میں آتا ہے، مزنی کی اس شاذ اور منفرد رائے کی تردید حدیث میں وارد وہ صراحت ہے جو ہمام کی روایت میں ہے کہ زمین اس کو کبھی بھی نہ کھائے گی، اور اعرج کی روایت میں ہے: «منہ خلق» اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی میں سب سے پہلے اسی کی پیدائش ہوئی، اور اس کی معارض سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث: «إن أول ما خلق من آدم رأسه» نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں میں توفیق و تطبیق اس طرح سے ہو گی کہ یہ آدم علیہ السلام کے حق میں ہے، اور دم کی ہڈی کی تخلیق اولاد آدم میں پہلے ہے، یا سلمان رضی اللہ عنہ کے قول کا مقصد یہ ہو کہ آدم میں روح پھونکی گئی نہ کہ ان کے جسم کی تخلیق ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباری ۸/۵۵۲-۵۵۳، حدیث نمبر۴۸۱۴)

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4267
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسحاق , حدثني يحيى بن معين , حدثنا هشام بن يوسف , عن عبد الله بن بحير , عن هانئ مولى عثمان , قال: كان عثمان بن عفان إذا وقف على قبر يبكي حتى يبل لحيته , فقيل له: تذكر الجنة والنار , ولا تبكي وتبكي من هذا , قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إن القبر اول منازل الآخرة , فإن نجا منه فما بعده ايسر منه , وإن لم ينج منه فما بعده اشد منه" , قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما رايت منظرا قط إلا والقبر افظع منه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق , حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ , عَنْ هَانِئٍ مَوْلَى عُثْمَانَ , قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ يَبْكِي حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ , فَقِيلَ لَهُ: تَذْكُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ , وَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا , قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ , فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ , وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ" , قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ".
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کبھی قبر سے زیادہ ہولناک کوئی چیز نہیں دیکھی۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزھد 5 (2308)، (تحفة الأشراف: 9839)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/63) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 4268
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا شبابة , عن ابن ابي ذئب , عن محمد بن عمرو بن عطاء , عن سعيد بن يسار , عن ابي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إن الميت يصير إلى القبر , فيجلس الرجل الصالح في قبره غير فزع , ولا مشعوف , ثم يقال له: فيم كنت؟ فيقول: كنت في الإسلام , فيقال له: ما هذا الرجل؟ فيقول: محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم , جاءنا بالبينات من عند الله فصدقناه , فيقال له: هل رايت الله؟ فيقول: ما ينبغي لاحد ان يرى الله , فيفرج له فرجة قبل النار , فينظر إليها يحطم بعضها بعضا , فيقال له: انظر إلى ما وقاك الله , ثم يفرج له قبل الجنة , فينظر إلى زهرتها وما فيها , فيقال له: هذا مقعدك , ويقال له على اليقين كنت , وعليه مت , وعليه تبعث إن شاء الله , ويجلس الرجل السوء في قبره فزعا , مشعوفا , فيقال له: فيم كنت , فيقول: لا ادري , فيقال له: ما هذا الرجل؟ فيقول: سمعت الناس يقولون قولا فقلته , فيفرج له قبل الجنة , فينظر إلى زهرتها وما فيها , فيقال له: انظر إلى ما صرف الله عنك , ثم يفرج له فرجة قبل النار , فينظر إليها يحطم بعضها بعضا , فيقال له: هذا مقعدك , على الشك كنت , وعليه مت , وعليه تبعث إن شاء الله تعالى".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا شَبَابَةُ , عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ , فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ , وَلَا مَشْعُوفٍ , ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ , فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ , فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ؟ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ , فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ , فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا , فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ , ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ , فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا , فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ , وَيُقَالُ لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ , وَعَلَيْهِ مُتَّ , وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ , وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ فَزِعًا , مَشْعُوفًا , فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ , فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي , فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا فَقُلْتُهُ , فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ , فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا , فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ , ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ , فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا , فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ , عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ , وَعَلَيْهِ مُتَّ , وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرنے والا قبر میں جاتا ہے، نیک آدمی تو اپنی قبر میں بیٹھ جاتا ہے، نہ کوئی خوف ہوتا ہے نہ دل پریشان ہوتا ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو کس دین پر تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں اسلام پر تھا، پھر پوچھا جاتا ہے کہ یہ شخص کون ہیں؟ وہ کہتا ہے: یہ محمد اللہ کے رسول ہیں، یہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ جواب دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھلا کون دیکھ سکتا ہے؟ پھر اس کے لیے ایک کھڑکی جہنم کی جانب کھولی جاتی ہے، وہ اس کی شدت اشتعال کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے: دیکھ، اللہ تعالیٰ نے تجھ کو اس سے بچا لیا ہے، پھر ایک دوسرا دریچہ جنت کی طرف کھولا جاتا ہے، وہ اس کی تازگی اور لطافت کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا ٹھکانا ہے، اور اس سے کہا جاتا ہے کہ تو یقین پر تھا، یقین پر ہی مرا، اور یقین پر ہی اٹھے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور برا آدمی اپنی قبر میں پریشان اور گھبرایا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ تو کس دین پر تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، پھر پوچھا جاتا ہے کہ یہ شخص کون ہیں؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تو میں نے بھی وہی کہا، اس کے لیے جنت کا ایک دریچہ کھولا جاتا ہے، وہ اس کی لطافت و تازگی کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ دیکھ! اس سے اللہ تعالیٰ نے تجھے محروم کیا، پھر جہنم کا دریچہ کھولا جاتا ہے، وہ اس کی شدت اور ہولناکی کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا ٹھکانا ہے، تو شک پر تھا، شک پر ہی مرا اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13387، ومصباح الزجاجة: 1527)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/140، 364، 6/139) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4269
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن علقمة بن مرثد , عن سعد بن عبيدة , عن البراء بن عازب , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت سورة إبراهيم آية 27 , قال: نزلت في عذاب القبر , يقال له: من ربك؟ فيقول: ربي الله , ونبيي محمد , فذلك قوله: يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ , عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ سورة إبراهيم آية 27 , قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ , يُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ , وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ , فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27".
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ آیت: «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت» عذاب قبر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس (مردے) سے پوچھا جائے گا کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہے گا کہ میرا رب اللہ ہے، اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یہی مراد ہے اس آیت: «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول پر ثابت رکھتا ہے دنیوی زندگی میں بھی آخرت میں بھی (سورة ابراهيم: 72) سے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 86 (1369)، التفسیرسورة ابراہیم 2 (4699)، صحیح مسلم/الجنة 17 (2871)، سنن ابی داود/السنة 27 (4750 سنن الترمذی/تفسیرالقران سورة ٕابراہیم 15 (3120)، سنن النسائی/الجنائز 114 (2059)، (تحفة الأشراف: 1762)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/282، 291) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4270
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا عبد الله بن نمير , حدثنا عبيد الله بن عمر , عن نافع , عن ابن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا مات احدكم عرض على مقعده بالغداة والعشي , إن كان من اهل الجنة , فمن اهل الجنة , وإن كان من اهل النار , فمن اهل النار , يقال: هذا مقعدك , حتى تبعث يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ عُرِضَ عَلَى مَقْعَدِهِ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ , إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ , فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ , وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ , فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ , يُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ , حَتَّى تُبْعَثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے، تو اس کے سامنے اس کا ٹھکانا صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت میں سے تھا تو اہل جنت کا ٹھکانا، اور اگر جہنمی تھا تو جہنمیوں کا ٹھکانا، اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8015)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز 89 (1379)، بدء الخلق 8 (3240)، الرقاق 42 (6515)، صحیح مسلم/الجنة 17 (2866)، سنن الترمذی/الجنائز 70 (1072)، سنن النسائی/الجنائز 116 (2072)، موطا امام مالک/الجنائز 16 (47)، مسند احمد (2/16، 51، 113، 123) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4271
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد , انبانا مالك بن انس , عن ابن شهاب , عن عبد الله بن كعب الانصاري , انه اخبره , ان اباه كان يحدث , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إنما نسمة المؤمن طائر يعلق في شجر الجنة , حتى يرجع إلى جسده يوم يبعث".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيِّ , أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يُحَدِّثُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ , حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يُبْعَثُ".
کعب رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درخت میں لٹکتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں لوٹ جائے گی۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد 13 (1641)، سنن النسائی/الجنائز 117 (2075)، (تحفة الأشراف: 1148)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز 16 (49)، مسند احمد (3/455، 456، 460) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4272
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن حفص الابلي , حدثنا ابو بكر بن عياش , عن الاعمش , عن ابي سفيان , عن جابر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" إذا دخل الميت القبر مثلت الشمس له عند غروبها , فيجلس يمسح عينيه , ويقول: دعوني اصلي".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ حَفْصٍ الْأُبُلِّيُّ , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ جَابِرٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا دَخَلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مُثِّلَتِ الشَّمْسُ لَهُ عِنْدَ غُرُوبِهَا , فَيَجْلِسُ يَمْسَحُ عَيْنَيْهِ , وَيَقُولُ: دَعُونِي أُصَلِّي".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مردہ قبر میں جاتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ سورج ڈوبنے کا وقت قریب ہے، وہ بیٹھتا ہے اپنی دونوں آنکھوں کو ملتے ہوئے، اور کہتا ہے: مجھے نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2334، ومصباح الزجاجة: 1528) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.