سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا پھر کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک آدمی تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے چھپائے ہوئے تھا پھر ایک شخص نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا ”نہیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (حج کرنے) تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر داخل ہونے سے انکار کیا اور (وجہ یہ تھی کہ) اس میں بت رکھے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ بت وہاں سے نکال دیے گئے پھر لوگوں نے ابراہیم و اسمٰعیل علیہ السلام کی تصویریں اس (بت) کے اندر سے نکالیں، ان دونوں کے ہاتھ میں فال نکالنے کے تیر تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے حالانکہ اللہ کی قسم! انہیں معلوم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور اسمٰعیل علیہ السلام نے کبھی تیر سے فال نہیں نکالی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے گرد تکبیر کہی اور اس میں نماز نہیں پڑھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ جب (حج کرنے مکہ) تشریف لائے تو مشرکوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے باہم) یہ چرچا کیا کہ اب ہمارے پاس ایک ایسا گروہ آنے والا ہے جس کو یثرب کے بخار نے کمزور کر دیا ہے پس (اس بات کی اطلاع پا کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان معمولی چال سے چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حکم کے دینے سے کہ لوگ تمام چکروں میں رمل نہ کریں یہ منظور تھا کہ لوگوں پر سہولت ہو، اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ تھی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف میں حجراسود کو بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے تین میں رمل کرتے۔
امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رمل سے کیا مطلب تھا، بات صرف یہ تھی کہ ہم نے مشرکوں کو اپنا زور دکھایا تھا اور (اب) اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا۔ پھر کہا کہ جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ہم نہیں چاہتے کہ اس کو ترک کر دیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے ان دونوں یمانی رکنوں کا چھونا خواہ سخت حالات ہوں یا نرم (غرض کسی حال) میں ترک نہیں کیا جب سے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کو چھوتے ہوئے دیکھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور لاٹھی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کو بوسہ دیا۔ (یعنی حجراسود کو لاٹھی لگا کر اسے چوم لیا)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے حجراسود کو بوسہ دینے کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کو چھوتے اور بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس شخص نے کہا ”اچھا بتائیے اگر اژدحام زیادہ ہو جائے، (یا) اگر لوگ مجھ پر غالب آ جائیں تو میں کس طرح حجراسود کو بوسہ دوں؟“ تو انہوں نے کہا کہ یہ اگر مگر کو یمن میں رکھو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کو بوسہ دیتے ہوئے اور اس کو چومتے ہوئے دیکھا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ سب سے پہلا کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں آتے ہی کیا یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر طواف کیا پھر صرف طواف کرنے سے کوئی عمرہ نہیں ہوا تھا۔ پھر امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے بھی اسی طرح حج کیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی طواف کے بارے میں حدیث ابھی گزری ہے(دیکھئیے باب: مکہ آ کر پہلے طواف میں حجراسود کو بوسہ دینا اور تین چکروں میں رمل کرنا مسنون ہے۔۔۔) یہاں اس روایت میں اتنا زیادہ کہا کہ طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے پھر صفا اور مروہ کے درمیان طواف کرتے تھے۔