الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
وضو اور طہارت کے مسائل
حدیث نمبر: 793
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو حاتم البصري روح بن اسلم، حدثنا زائدة، عن سليمان، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "يباشر وهو صائم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے اور اپنی بیویوں سے مباشرت کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 797]»
یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 1922، 1927]، [مسلم 1106]، [أبوداؤد 268]، [ترمذي 132]، [نسائي 285]، [ابن ماجه 636]، [مسند أبى يعلی 4428]، [ابن حبان 3537]

وضاحت:
(تشریح احادیث 791 سے 793)
مباشرت بدن سے بدن کے مساس کو کہتے ہیں جو روزے دار کے لئے اپنی بیوی سے جائز ہے۔
بخاری کی روایت میں بوسہ لینے کا بھی ذکر ہے، نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہشات پر سب سے زیادہ کنٹرول کرنے والے تھے، اس لئے جس کو غلبۂ شہوت کا عارضہ ہو تو وہ احتیاط کرے اور دور رہے تو اچھا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
82. باب الْحَائِضِ تَبْسُطُ الْخُمْرَةَ:
82. حیض والی عورت کے چٹائی بچھانے کا بیان
حدیث نمبر: 794
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، قال: سليمان اخبرني، عن ثابت بن عبيد، عن القاسم، عن عائشة رضي الله عنها، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لها: "ناوليني الخمرة"، قالت: إني حائض، قال:"إنها ليست في يدك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سُلَيْمَانُ أَخْبَرَنِي، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: "نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ"، قَالَتْ: إِنِّي حَائِضٌ، قَالَ:"إِنَّهَا لَيْسَتْ فِي يَدِكِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: مجھے چٹائی اٹھا دو۔ عرض کیا: میں تو حائضہ ہوں، فرمایا: حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 798]»
یہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [مسلم 298]، [أبوداؤد 261]، [ترمذي 134]، [نسائي 382]، [أبويعلی 4488]، [ابن حبان 1357]

وضاحت:
(تشریح حدیث 793)
اس حدیث سے عورت کا گھر کے کام کاج میں بحالتِ حیض ہاتھ لگانا ثابت ہوا، یعنی وہ برتن دھو سکتی ہے، کھانا بنا سکتی ہے، شوہر کی خدمت کر سکتی ہے۔
دوسری احادیث سے حائضہ عورت کے ساتھ کھانا، مباشرت کرنا، اس سے کنگھی کرانا وغیرہ سب کی وضاحت اور اباحت آئی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
83. باب في دَمِ الْحَيْضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ:
83. حیض کا خون کپڑے سے صاف کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 795
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد بن إسحاق، عن فاطمة بنت المنذر، عن جدتها اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنها، قالت: سمعت امراة وهي تسال رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف تصنع بثوبها إذا طهرت من محيضها؟، قال: "إن رايت فيه دما فحكيه، ثم اقرصيه، ثم انضحي في سائر ثوبك، ثم صلي فيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ جَدَّتِهَا أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ امْرَأَةً وَهِيَ تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ تَصْنَعُ بِثَوْبِهَا إِذَا طَهُرَتْ مِنْ مَحِيضِهَا؟، قَالَ: "إِنْ رَأَيْتِ فِيهِ دَمًا فَحُكِّيهِ، ثُمَّ اقْرُصِيهِ، ثُمَّ انْضَحِي فِي سَائِرِ ثَوْبِكِ، ثُمَّ صَلِّي فِيهِ".
فاطمہ بنت المنذر نے اپنی دادی (یا نانی) سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایک عورت کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر تے سنا، وہ کہہ رہی تھی کہ جب وہ حیض سے پاک ہو تو اپنے کپڑے کا کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس پر خون دیکھو تو پہلے کھرچ لو، پھر پانی سے مل کر دھو ڈالو، پھر سارے کپڑے پر پانی ڈال دو، پھر اس میں نماز پڑھ سکتی ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 799]»
یہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 356، 361]، [ابن خزيمه 276]، [مسند أحمد 345/6]، [مصنف ابن أبى شيبه 95/1] بلکہ یہ حدیث متفق عليہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 227، 307]، [مسلم 291]، [ترمذي 138]، [نسائي 294]، [صحيح ابن حبان 1396] و [مسند الحميدي 322]

وضاحت:
(تشریح حدیث 794)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کپڑے پر اگر حیض کا خون لگ جائے تو صاف کر کے دھو کر اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے، جیسا کہ دوسری صحیح روایات میں ہے: سیدہ عائشہ و سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انھیں ایسا ہوتا اور وہ کپڑا دھو کر اسی میں نماز پڑھتی تھیں، جیسا کہ باب نمبر 105 میں آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
84. باب في غُسْلِ الْمُسْتَحَاضَةِ:
84. زائد حیض والی (مستحاضہ) عورت کے غسل کا بیان
حدیث نمبر: 796
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا إسرائيل، عن إبراهيم بن مهاجر، عن صفية بنت شيبة بن عثمان، عن عائشة ام المؤمنين رضي الله عنها، قالت: سالت امراة من الانصار رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحيض؟، قال: "خذي ماءك وسدرك، ثم اغتسلي وانقي، ثم صبي على راسك حتى تبلغي شؤون الراس، ثم خذي فرصة ممسكة"، قالت: كيف اصنع بها يا رسول الله؟ فسكت، قالت: فكيف اصنع يا رسول الله؟ فسكت، فقالت عائشة: خذي فرصة ممسكة فتتبعي بها آثار الدم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم"يسمع، فما انكر عليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَأَلَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَيْضِ؟، قَالَ: "خُذِي مَاءَكِ وَسِدْرَكِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَأَنْقِي، ثُمَّ صُبِّي عَلَى رَأْسِكِ حَتَّى تَبْلُغِي شُؤُونَ الرَّأْسِ، ثُمَّ خُذِي فِرْصَةً مُمَسَّكَةً"، قَالَتْ: كَيْفَ أَصْنَعُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَسَكَتَ، قَالَتْ: فَكَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَسَكَتَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: خُذِي فِرْصَةً مُمَسَّكَةً فَتَتَبَّعِي بِهَا آثَارَ الدَّمِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَسْمَعُ، فَمَا أَنْكَرَ عَلَيْهَا".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک انصاری عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے غسل کے بارے میں دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیری کے پتوں کا پانی لو، خون کے مقام کو اچھی طرح صاف کرو، پھر سر پر پانی ڈالو تا آنکہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے (اس طرح غسل کرو)، پھر مشک لگا ہوا ایک روئی کا پھایا لے کر لگالو، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیسے پھایا لگاؤں؟ آپ خاموش رہے، انہوں نے پھر عرض کیا: پھایا کیسے لگاؤں؟ پھر آپ خاموش رہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سرگوشی کی کہ روئی کا پھایا مشک لگا ہوا لے کر خون کے مقام پر لگا لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور اس کا انکار نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 800]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 314]، [مسلم 332]، [أبوداؤد 315]، [ابن ماجه 642]، [مسند أبى يعلی 4733]، [صحيح ابن حبان 1199]، [مسند الحميدي 167]

وضاحت:
(تشریح حدیث 795)
اس حدیث سے دینی معاملات میں شرم نہ کرنے کی تعلیم ملتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدتِ حيا کا پتہ چلتا ہے، کیوں نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف ہی پہلی کتابوں میں یہ ہے کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکواس کرنے والے ہیں اور نہ بے حیائی کرنے والے، نہ فحش گو ہیں، بار بار پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف سبحان اللہ کہتے ہیں اور سکوت فرماتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان صحابیہ کو اپنی طرف کھینچا اور طریقہ سکھلایا، «صلى اللّٰه على نبينا وقدوتنا محمد بن عبداللّٰه وسلم تسليما كثيرا» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 797
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: جاءت فاطمة بنت ابي حبيش إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني امراة استحاض فلا اطهر، افادع الصلاة؟، قال: "لا، إنما ذلك عرق، فإذا اقبلت الحيضة، فدعي الصلاة، وإذا ادبرت، فاغسلي عنك الدم، وصلي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟، قَالَ: "لَا، إِنَّمَا ذَلِكِ عِرْقٌ، فَإِذَا أَقْبَلَتْ الْحَيْضَةُ، فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ، فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ، وَصَلِّي".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں مستحاضہ عورت ہوں، خون رکتا نہیں ہے تو کیا میں نماز چھوڑے رکھوں؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک رگ کا خون ہے (حیض نہیں) اس لئے جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب مدت حیض ختم ہو جائے تو خون کو دھو ڈالو اور نماز پڑھ لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 801]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 228]، [مسلم 333]، [ترمذي 125]، [نسائي 357]، [ابن ماجه 621]، [مسند أبى يعلی 4486]، [صحيح ابن حبان 1350]، [مسند الحميدي 193]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 798
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها: ان ابنة جحش استحيضت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فامرها رسول الله صلى الله عليه وسلم "بالغسل لكل صلاة، فإن كانت لتدخل المركن وإنه لمملوء ماء، فتنغمس فيه، ثم تخرج منه، وإن الدم فوقه لغالبه، فتصلي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: أَنَّ ابْنَةَ جَحْشٍ اسْتُحِيضَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "بِالْغُسْلِ لِكُلِّ صَلَاةٍ، فَإِنْ كَانَتْ لَتَدْخُلُ الْمِرْكَنَ وَإِنَّهُ لَمَمْلُوءٌ مَاءً، فَتَنْغَمِسُ فِيهِ، ثُمَّ تَخْرُجُ مِنْهُ، وَإِنَّ الدَّمَ فَوْقَهُ لَغَالِبُهُ، فَتُصَلِّي".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جحش کی بیٹی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں استحاضہ کی بیماری لاحق ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا۔ وہ جب پانی سے بھرے ہوئے (مرکن) ٹب میں بیٹھتیں ڈبکی لگاتیں اور پانی سے نکلتیں تو خون پانی کے اوپر چھا جاتا، پھر وہ نماز پڑھ لیتیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة محمد بن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 802]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید صحیحہ کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، بلکہ متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 327]، [مسلم 333]، [أبوداؤد 285]، [نسائي 203، 204، 205]، [ابن ماجه 626]

وضاحت:
(تشریح احادیث 796 سے 798)
اس حدیث سے بیماری کی حالت میں خون جاری رہے تو ہر نماز کے لئے غسل کرنا اور نماز پڑھنا ثابت ہوا۔
تفصیل آگے آ رہی ہے اور اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر کسی کو سلسل البول، ریاح یا ہوا یا مذی وغیرہ کی بیماری ہو تو وہ بھی اس مقام پر کپڑا لگا کر نماز کے وقت صفائی اور وضو کر کے نماز پڑھ لے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة محمد بن إسحاق
حدیث نمبر: 799
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن إسحاق، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: إنما هي فلانة، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "امرها بالغسل لكل صلاة، فلما شق ذلك عليها، امرها ان تجمع بين الظهر والعصر بغسل واحد، وبين المغرب والعشاء بغسل واحد، وتغتسل للفجر"، قال ابو محمد: الناس يقولون: سهلة بنت سهيل، قال يزيد بن هارون: سهيلة بنت سهل.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: إِنَّمَا هِيَ فُلَانَةُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "أَمَرَهَا بِالْغُسْلِ لِكُلِّ صَلَاةٍ، فَلَمَّا شَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهَا، أَمَرَهَا أَنْ تَجْمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ، وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ، وَتَغْتَسِلَ لِلْفَجْرِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: النَّاسُ يَقُولُونَ: سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلٍ، قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: سُهَيْلَةُ بِنْتُ سَهْلٍ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وہ فلاں عورت ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے لئے غسل کا حکم دیا تھا، اور جب ہر نماز کے وقت نہانا ان کے لئے مشکل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ظہر عصر ملا کر ایک غسل سے پڑھ لیں، اور مغرب و عشاء ایک غسل سے، اور فجر کے لئے علاحدہ غسل کریں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: وہ خاتون لوگ کہتے ہیں سہلہ بنت سہیل تھیں، اور یزید بن ہارون نے کہا وہ سہیلہ بنت سہل تھیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 803]»
اس سند سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن اس کے متابع اور شاہد موجود ہیں، لہٰذا متن صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 295] و [نسائي 213]، آگے (812) میں بھی یہ حدیث آرہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق
حدیث نمبر: 800
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، قال: سالت عبد الرحمن بن القاسم عن المستحاضة فاخبرني، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها: ان امراة استحيضت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فامرت، قال: قلت لعبد الرحمن: النبي صلى الله عليه وسلم امرها؟، قال: لا احدثك عن النبي صلى الله عليه وسلم شيئا، قال: "فامرت ان تؤخر الظهر، وتعجل العصر، وتغتسل لهما غسلا، وتؤخر المغرب، وتعجل العشاء، وتغتسل لهما غسلا، وتغتسل للصبح غسلا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ عَنْ الْمُسْتَحَاضَةِ فَأَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: أَنَّ امْرَأَةً اسْتُحِيضَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُمِرَتْ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهَا؟، قَالَ: لَا أُحَدِّثُكَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، قَالَ: "فَأُمِرَتْ أَنْ تُؤَخِّرَ الظُّهْرَ، وَتُعَجِّلَ الْعَصْرَ، وَتَغْتَسِلَ لَهُمَا غُسْلًا، وَتُؤَخِّرَ الْمَغْرِبَ، وَتُعَجِّلَ الْعِشَاءَ، وَتَغْتَسِلَ لَهُمَا غُسْلًا، وَتَغْتَسِلَ لِلصُّبْحِ غُسْلًا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مرض استحاضہ میں مبتلا ہوئیں تو انہیں حکم دیا گیا۔۔۔ شعبہ نے کہا: میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا؟ عبدالرحمٰن نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان نہیں کر رہا ہوں، انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ظہر کی نماز میں تاخیر کر کے عصر جلدی پڑھ لیں، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک غسل کر لیں، (اس طرح) مغرب میں تاخیر کر کے عشاء جلدی پڑھ لیں، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک غسل کریں، اور نماز فجر کے لئے ایک بار غسل علاحدہ کریں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 804]»
اس کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 798 سے 800)
اسلاف کرام کے اقوال و افعال میں گزر چکا ہے کہ وہ کسی بات کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔
عبدالرحمٰن بن قاسم کا بھی اس امر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کرنا غالباً اسی قبیل سے ہے، اوپر حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں صراحت سے مذکور ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کا حکم دیا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 801
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، حدثني الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: استحيضت ام حبيبة بنت جحش سبع سنين، وهي تحت عبد الرحمن بن عوف، فاشتكت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنها ليست بحيضة، إنما هو عرق، فإذا اقبلت الحيضة فدعي الصلاة، وإذا ادبرت، فاغتسلي وصلي"، قالت عائشة: فكانت تغتسل لكل صلاة، ثم تصلي، قالت: وكانت تقعد في مركن لاختها زينب بنت جحش حتى إن حمرة الدم لتعلو الماء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: اسْتُحِيضَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ جَحْشٍ سَبْعَ سِنِينَ، وَهِيَ تَحْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَاشْتَكَتْ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهَا لَيْسَتْ بِحِيضَةٍ، إِنَّمَا هُوَ عِرْقٌ، فَإِذَا أَقْبَلَتْ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ، فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي"، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، ثُمَّ تُصَلِّي، قَالَتْ: وَكَانَتْ تَقْعُدُ فِي مِرْكَنٍ لِأُخْتِهَا زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حَتَّى إِنَّ حُمْرَةَ الدَّمِ لَتَعْلُو الْمَاءَ.
اس حدیث کا ترجمہ اور تخریج بھی حدیث نمبر (797) میں گزر چکی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 805]»
مزید حوالے کے لئے دیکھئے: [مسند أحمد 83/6]، [مسند أبى 4405]، نیز حديث رقم (808)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 802
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، ان فاطمة بنت ابي حبيش، قالت: يا رسول الله، إني امراة استحاض، افاترك الصلاة؟، قال: "لا، إنما ذلك عرق، وليست بالحيضة، فإذا اقبلت الحيضة، فاتركي الصلاة، فإذا ذهب قدرها، فاغسلي عنك الدم وتوضئي وصلي"، قال هشام: فكان ابي يقول: تغتسل غسل الاول ثم ما يكون بعد ذلك، فإنها تطهر وتصلي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ، أَفَأَتْرُكُ الصَّلَاةَ؟، قَالَ: "لَا، إِنَّمَا ذَلِكِ عِرْقٌ، وَلَيْسَتْ بِالْحِيضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتْ الْحَيْضَةُ، فَاتْرُكِي الصَّلَاةَ، فَإِذَا ذَهَبَ قَدْرُهَا، فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَتَوَضَّئِي وَصَلِّي"، قَالَ هِشَامٌ: فَكَانَ أَبِي يَقُولُ: تَغْتَسِلُ غُسْلَ الْأَوَّلِ ثُمَّ مَا يَكُونُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِنَّهَا تَطَّهَّرُ وَتُصَلِّي.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فاطمہ بنت ابی حبیش نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ایسی عورت ہوں کہ استحاضہ کے خون میں مبتلا رہتی ہوں، تو کیا ایسی حالت میں نماز ترک کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ تو ایک رگ ہے حیض کا خون نہیں، لہٰذا جب ایام حیض شروع ہوں تو نماز چھوڑ دو، اور جب حیض کی مدت پوری ہو جائے تو خون دھو کر وضو کرو، اور نماز پڑھ لو۔ ہشام نے کہا: میرے والد (عروة) فرماتے تھے: حیض کی مدت پوری ہونے پر عورت پہلا غسل کرے گی اور اس کے بعد صفائی کر کے نماز پڑھے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 806]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج رقم (۸۰۱) میں گزر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.