الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
روزے کے مسائل
51. باب دُعَاءِ الصَّائِمِ لِمَنْ يُفْطِرُ عِنْدَهُ:
51. روزے دار جس کے پاس افطار کرے اس کے لئے دعا کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1810
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن انس بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا افطر عند اناس، قال: "افطر عندكم الصائمون، واكل طعامكم الابرار، وتنزلت عليكم الملائكة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ عِنْدَ أُنَاسٍ، قَالَ: "أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمْ الْأَبْرَارُ، وَتَنَزَّلَتْ عَلَيْكُمْ الْمَلَائِكَةُ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کے پاس افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے «أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ ...... عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ» یعنی تمہارے پاس روزے دار افطار کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور (رحمت کے) فرشتے تمہارے پاس آئیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1813]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3854]، [أبويعلی 4319، 4320]، [أحمد 118/3، 138]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1809)
سنن ابی داؤد میں «تَنَزَّلَتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ» کی جگہ «وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ» ہے جو زیادہ مناسب ہے، اور امام دارمی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے اس طرح روایت نہیں کیا، نیز یہ کہ اس دعا کے لئے ضروری نہیں کہ جس کے پاس افطار کیا جائے اسی کو یہ دعا دی جائے، بلکہ جس کے پاس بھی کھانا کھایا جائے یہ دعا دینی چاہیے (کما عند ابی داؤد)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
52. باب في فَضْلِ الْعَمَلِ في الْعَشْرِ:
52. ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں عمل کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1811
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن سليمان، قال: سمعت مسلما البطين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "ما العمل، في ايام افضل من العمل في عشر ذي الحجة". قيل: ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال:"ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله ثم لم يرجع بشيء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُسْلِمًا الْبَطِينَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا الْعَمَلُ، فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْ الْعَمَلِ فِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ". قِيلَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:"وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالحجہ کے دس دن کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں اتنی فضیلت نہیں، پوچھا گیا: کیا جہاد کی بھی اتنی فضیلت نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرے میں ڈال کر نکلا، اور کچھ بھی لے کر واپس نہ آیا۔ (یعنی جان و مال سب قربان کر دیا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1814]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 969]، [أبوداؤد 2438]، [ترمذي 757]، [ابن ماجه 1727]، [طيالسي 2631]، [أحمد 224/6]، [طبراني فى الكبير 12278]، [أبويعلی 7248]، [ابن حبان 5623]، [مجمع الزوائد 6007]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1812
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا اصبغ، عن القاسم بن ابي ايوب، عن سعيد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "ما من عمل ازكى عند الله عز وجل، ولا اعظم اجرا، من خير يعمله في عشر الاضحى". قيل: ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال:"ولا الجهاد في سبيل الله عز وجل، إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء". قال: وكان سعيد بن جبير إذا دخل ايام العشر، اجتهد اجتهادا شديدا حتى ما يكاد يقدر عليه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَصْبَغُ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا مِنْ عَمَلٍ أَزْكَى عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا أَعْظَمَ أَجْرًا، مِنْ خَيْرٍ يَعْمَلُهُ فِي عَشْرِ الْأَضْحَى". قِيلَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:"وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ". قَالَ: وَكَانَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ إِذَا دَخَلَ أَيَّامُ الْعَشْرِ، اجْتَهَدَ اجْتِهَادًا شَدِيدًا حَتَّى مَا يَكَادُ يَقْدِرُ عَلَيْهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله عزوجل کے نزدیک کوئی نیک عمل اتنا عظیم تر نہیں جتنا عمل بندہ عشرہ اضحیٰ میں کرتا ہے، عرض کیا گیا: الله عزوجل کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنا نفس اور مال لے کر (جہاد کے لئے) نکلا اور ان میں سے کچھ بھی ساتھ لے کر واپس نہ آیا۔ راوی نے کہا: اس لئے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ذوالحجہ کے شروع عشرے میں عبادت میں اپنی طاقت سے زیادہ محنت کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1815]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الطحاوي فى مشكل الآثار 113/4] و [البيهقي فى شعب الايمان 3752]، نیز سابقہ تخریج۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1810 سے 1812)
اس حدیث سے ذوالحجہ کے شروع دس دن کی فضیلت ثابت ہوئی جن میں کیا گیا عملِ صالح الله تعالیٰ کو اتنا پسند و محبوب ہے جتنا سال کے اور دنوں میں نہیں، اسی لئے علمائے کرام نے کہا کہ یہ دس دن ایامِ رمضان سے بھی عمل کے لحاظ میں افضل ہیں، ہاں راتیں رمضان المبارک کی سال کی تمام راتوں سے افضل ہوتی ہیں، ان دنوں میں تکبیر کہنا، روزہ رکھنا، صدقہ و خیرات کا بہت ثواب ہے، اور پہلی سے نو تاریخ تک کا روزہ رکھنا مستحب و مسنون ہے، کما فی سنن ابی داؤد۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
53. باب في فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ:
53. رمضان کے مہینے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1813
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الربيع الزهراني، حدثنا إسماعيل بن جعفر، حدثنا ابو سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا جاء رمضان، فتحت ابواب السماء، وغلقت ابواب النار، وصفدت الشياطين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ، فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، وَصُفِّدَتْ الشَّيَاطِينُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1816]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1899]، [مسلم 1079]، [ابن حبان 3434]، [ترمذي 682]، [نسائي 2101، 2102]، [ابن ماجه 1644]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1812)
اس حدیث میں ہے: آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، مسند احمد میں ہے: جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جنت، جہنم و آسمان کے دروازوں کا ذکر حقیقت ہے، مجاز نہیں، اور جنت یا آسمان کے دروازے کھلنا روزے داروں کے لئے بشارت اور جہنم کے دروازے بند ہونا ان کے لئے خوشخبری ہے، مقصود اس سے مؤمنین کو اعمالِ صالحہ پر اُبھارنا اور رمضان المبارک کی خیرات و برکات سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے، اور جو مؤمن توحید و اخلاص اور عملِ صالح کے ساتھ اس ماہِ مکرم میں اللہ کو پیارا ہو جائے وہ ان کھلے ہوئے دروازوں سے سیدھا اللہ کے رحم و کرم سے جنّت کا حقدار ہوگا، اور اسی کے لئے جہنم کے دروازے بند ہوں گے، کافر و منافق، عاصی و مجرم کے لئے نہیں، شیاطین قید کئے جانے اور زنجیروں میں جکڑ دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ غیر رمضان میں جس طرح عام مسلمان پر قابو پا لیتے ہیں رمضان میں قابو نہیں کر پاتے، اسی لئے دیکھا جاتا ہے کہ رمضان میں نماز پڑھنے، تلاوت کرنے، تراویح پڑھنے اور صدقہ و خیرات و عملِ صالح کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
«(هذا ما عندي واللّٰه أعلم و علمه أتم)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
54. باب في قِيَامِ رَمَضَانَ:
54. رمضان کے مہینے میں قیام کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1814
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من قام رمضان إيمانا واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر، غفر له ما تقدم من ذنبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی ایمان اور ثواب کی نیت سے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے، اور جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ نماز کے لئے کھڑا ہو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1817]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1901]، [مسلم 759]، [ترمذي 683]، [نسائي 2204]، [ابن ماجه 1641]، [أبويعلی 960، 5920، 5997]، [ابن حبان 3432، 3632]، [الحميدي 980، 1037]، بخاری میں «من صام» اور مسلم میں «من قام رمضان» ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1815
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا زكريا بن عدي، حدثنا يزيد بن زريع، عن داود بن ابي هند، عن الوليد بن عبد الرحمن، عن جبير بن نفير، عن ابي ذر، قال: صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم شهر رمضان، قال: فلم يقم بنا من الشهر شيئا حتى بقي سبع. قال: فقام بنا حتى ذهب ثلث الليل. قال: فلما كانت السادسة، لم يقم بنا، فلما كانت الخامسة، قام بنا حتى ذهب شطر الليل الآخر، قلنا: يا رسول الله، لو نفلتنا بقية هذه الليلة، فقال:"إن الرجل إذا قام مع الإمام حتى ينصرف من صلاته، حسب له قيام ليلته"، فلما كانت الرابعة لم يقم بنا، فلما كانت الثالثة، جمع اهله ونساءه، والناس فقام بنا حتى خشينا ان يفوتنا الفلاح. قلنا: وما الفلاح؟ قال: السحور، قال: ثم لم يقم بنا بقية الشهر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرَ رَمَضَانَ، قَالَ: فَلَمْ يَقُمْ بِنَا مِنْ الشَّهْرِ شَيْئًا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ. قَالَ: فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ. قَالَ: فَلَمَّا كَانَتْ السَّادِسَةُ، لَمْ يَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا كَانَتْ الْخَامِسَةُ، قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ الْآخِرُ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ، فَقَالَ:"إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ مِنْ صَلَاتِهِ، حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَتِهِ"، فَلَمَّا كَانَتْ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ، جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ، وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ. قُلْنَا: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ، قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے کے روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے مہینے کسی رات میں تراویح نہیں پڑھی یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں رات کو) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا یعنی تراویح پڑھی یہاں تک کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا، پھر جب چھ راتیں باقی تھیں (یعنی چوبیسویں رات کو) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کیا، جب پانچویں رات باقی تھی (یعنی پچیسویں شب) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا (تراویح پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم رات کے بقیہ حصہ میں بھی نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی امام کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے، پھر جب چار راتیں باقی رہ گئیں (چھبیسویں رات) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں فرمایا، اس کے بعد جب تین راتیں باقی رہ گئیں، یعنی ستائیسویں شب، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال (گھر والوں) کو جمع کیا اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا یہاں تک ہم کو ڈر ہوا کہ فلاح فوت ہو جائے گی، ہم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: فلاح سے کیا مراد ہے؟ جواب دیا: سحری کا کھانا، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ دنوں میں قیام نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1818]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1375]، [ترمذي 806]، [نسائي 1364]، [ابن ماجه 1327]، [عبدالرزاق 7706]، [ابن ابي شيبه 394/2]، [أحمد 159/5]، [طحاوي فى شرح معاني الآثار 349/1]، [ابن خزيمه 2206]، [بغوي فى شرح السنة 991، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1816
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اس سند سے بھی سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے حسب سابق مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1819]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1813 سے 1816)
پہلی حدیث سے قیام اللیل یا نمازِ تراویح کی فضیلت ثابت ہوئی اور لیلۃ القدر میں جاگنا، قیام و عبادت کرنا ثابت ہوا، اور اس کا اتنا ثواب ہے کہ اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، قیام، تراویح، تہجد سب ایک ہی چیز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین رات قیام فرمایا اور نمازِ تراویح پڑھی، بقیہ دنوں میں باجماعت تراویح اس لئے نہیں پڑھیں کہ خوف تھا امّت پر فرض نہ کر دی جائیں «(فِدَاهُ أَبِيْ وَأُمِّيْ)» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ تراویح یا تہجد نہیں پڑھی، ایک روایت میں 13 رکعت ہے اس لئے سنّت یہی ہے، 20 رکعت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ مبارک میں پڑھی گئیں اس لئے بیس رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب رات کی نفلی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَيٰ مَثْنَيٰ» رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکعات کی تحدید نہیں فرمائی اسی لئے حرمین شریفین میں 20، 36 اور چالیس رکعت تک تراویح پڑھی گئی ہیں لیکن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل 11 یا 13 رکعت تک محدود رہا ہے اس لئے یہ ہی سنّت اور بہتر و افضل ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
55. باب اعْتِكَافِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
55. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کا بیان
حدیث نمبر: 1817
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عاصم بن يوسف، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابي حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الاواخر، فلما كان العام الذي قبض فيه، اعتكف عشرين يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وأبو حصين هو: أبو عثمان بن عاصم، [مكتبه الشامله نمبر: 1820]»
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2044]، [أبوداؤد 2466]، [ابن ماجه 1769]، [أحمد 336/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1816)
اعتکاف مخلوق سے کٹ کر خالق کی عبادت کے لئے وقتِ محدود تک مسجد میں بیٹھنے کو کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدنی زندگی میں رمضان المبارک میں ہمیشہ اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امہات المؤمنین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے، ابن بطال نے کہا: اس حدیث سے یہ نکلا کہ اعتکاف سنّتِ مؤکدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف اس لئے کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا تھا کہ رب العالمین سے لقاء کا وقت قریب آگیا ہے۔
اعتکاف دس دن کا سنّت ہے، اس سے کم دنوں کا بھی ہو سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وأبو حصين هو: أبو عثمان بن عاصم
حدیث نمبر: 1818
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، اخبرني علي بن حسين، ان صفية بنت حيي اخبرته، انها جاءت النبي صلى الله عليه وسلم تزوره في "اعتكافه في المسجد، في العشر الاواخر من رمضان، فتحدثت عنده ساعة ثم قامت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ صَفِّيَةَ بِنْتَ حُيَيٍّ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا جَاءَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ فِي "اعْتِكَافِهِ فِي الْمَسْجِدِ، فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَتَحَدَّثَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً ثُمَّ قَامَتْ".
ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں جب کہ آپ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، تھوڑی دیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں اور کھڑی ہو گئیں۔ (یعنی واپسی کے لئے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1821]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے، اور تفصیل سے صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2035]، [مسلم 2175]، [أبوداؤد 2470]، [ابن ماجه 1779]، [أبويعلی 1721]، [ابن حبان 3671]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1817)
اعتکاف میں مسجد سے بلاضرورت باہر نکلنا، فضول باتیں کرنا ممنوع ہوتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کرنے والا اپنی بیوی سے بات کر سکتا ہے اور بیوی ملنے کے لئے مسجد جا سکتی ہے، مذکور بالا حدیث لمبی حدیث کا ایک جزء ہے، تفصیل بخاری شریف وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
56. باب في لَيْلَةِ الْقَدْرِ:
56. شب قدر کا بیان
حدیث نمبر: 1819
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا حميد، عن انس، عن عبادة بن الصامت، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يريد ان يخبرنا بليلة القدر، فتلاحى رجلان من المسلمين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إني خرجت إليكم، وانا اريد ان اخبركم بليلة القدر، وكان بين فلان وفلان لحاء فرفعت، وعسى ان يكون خيرا، فالتمسوها في العشر الاواخر: في الخامسة، والسابعة، والتاسعة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنِّي خَرَجْتُ إِلَيْكُمْ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَكَانَ بَيْنَ فُلَانٍ وَفُلَانٍ لِحَاءٌ فَرُفِعَتْ، وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ: فِي الْخَامِسَةِ، وَالسَّابِعَةِ، وَالتَّاسِعَةِ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لئے باہر تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس آ رہا تھا شب قدر کی تم کو خبر دینا چاہتا تھا کہ فلاں اور فلاں کے درمیان جھگڑا ہو گیا (سو میں بھول گیا وہ کونسی رات ہے) پس وہ بات اٹھا لی گئی اور شاید اس میں بہتری ہی ہے، پس اب تم اس کی تلاش آخری عشرے کی پانچویں ساتویں یا نویں رات کو کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1822]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2023]، [ابن حبان 3679]، [ابن ابي شيبه 514/2]، [التمهيد 200/2]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1818)
یعنی شبِ قدر کو پانے کے لئے ان مذکورہ راتوں (25، 27، 29) میں قیام و عبادت کریں جس کا ثواب ہزار مہینے کی راتوں سے بہتر ہے، جس میں رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور خیر و برکت لے کر آتے ہیں، اور جس رات میں سال بھر کے فیصلے اللہ تعالیٰ صادر فرماتا ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: «سورة الدخان: 3-6» اور «سورة القدر» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.