الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
روزے کے مسائل
حدیث نمبر: 1800
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، عن محمد بن إسحاق، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "هذا يوم عاشوراء، وكانت قريش تصومه في الجاهلية، فمن احب منكم ان يصومه، فليصمه، فمن احب منكم ان يتركه فليتركه". وكان ابن عمر لا يصومه إلا ان يوافق صيامه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تَصُومُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ، فَلْيَصُمْهُ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ". وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَصُومُهُ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ صِيَامَهُ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ یوم عاشوراء ہے اور قریش زمانہ جاہلیت میں اس کا روزہ رکھتے تھے، پس تم میں سے جس کو پسند ہو عاشوراء کا روزہ رکھے، اور جو اسے ترک کرنا چاہے ترک کر دے۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خصوصیت سے عاشوراء کا روزہ نہ رکھتے تھے الا یہ کہ ان کے روزوں کے ایام میں عاشوراء آ جاتا تو اپنے روزے پورے کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ولكنه متابع عليه والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1803]»
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1892، 1893]، [مسلم 1126]، [ابن حبان 3622]، [أبوداؤد 2443]، [ابن ماجه 1737]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1796 سے 1800)
ابتدائے اسلام میں عاشوراء کے روزے کا حکم ہوا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کا روزہ بطورِ فریضہ چھوڑ دیا گیا اور اختیار دیا گیا کہ جو چاہے رکھے اور جو چاہے یہ روزہ نہ رکھے کما في البخاری، یہ روایت آگے آ رہی ہے لیکن اس روزے کی بھی بڑی فضیلت ہے کما مر۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ولكنه متابع عليه والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 1801
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الوهاب بن سعيد، حدثنا شعيب بن إسحاق، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت:"كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش في الجاهلية، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، صامه وامر بصيامه، حتى إذا فرض رمضان، كان رمضان هو الفريضة، وترك يوم عاشوراء فمن شاء صامه، ومن شاء تركه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، حَتَّى إِذَا فُرِضَ رَمَضَانُ، كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الْفَرِيضَةُ، وَتُرِكَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کے دن روزہ رکھا کرتے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا یہاں تک کہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ فریضہ ہو گئے اور عاشورا کو ترک کر دیا، جس نے چاہا روزہ رکھا اور جس نے چاہا چھوڑ دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1804]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1893، 2001، 2002]، [مسلم 1125]، [أبوداؤد 2442]، [ترمذي 753]، [أبويعلی 4638]، [ابن حبان 3621]، [الحميدي 202، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1800)
ان تمام احادیث سے عاشورا کے روزے کی فضیلت و اہمیت معلوم ہوئی اس لئے محرم کی دس تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے نیز ایک دن قبل یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھنا چاہیے۔
علمائے کرام نے اس کی تین صورتیں ذکر کی ہیں: نو دس گیارہ تین دن تک کا روزہ رکھے یا نو اور دس دو دن کا روزہ رکھے یا دس اور گیارہ کا روزہ رکھے۔
پہلی صورت سب سے افضل ہے، اور صرف دس محرم کا روزہ رکھنے کو علمائے کرام نے مکروہ کہا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں آئندہ سال بقیدِ حیات رہا تو نویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا۔
ایک اور حدیث ہے کہ یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو اور نو اور دس کا روزہ رکھو، اس روزے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ اس سے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، الله تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
47. باب في صِيَامِ يَوْمِ عَرَفَةَ:
47. عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1802
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا موسى بن علي، عن ابيه، عن عقبة بن عامر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يوم عرفة، وايام التشريق عيدنا اهل الإسلام، وهي ايام اكل وشرب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُلَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَوْمُ عَرَفَةَ، وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوم عرفہ اور ایام التشریق ہماری اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے ایام ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1805]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2419]، [ترمذي 773]، [نسائي 3004]، [ابن حبان 3603]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1801)
عرفہ کا دن نو ذوالحجہ اور ایام التشريق 10 ذی الحجہ سے 13 ذی الحجہ تک ہیں، ان دنوں میں حاجی کے لئے روزہ رکھنا درست نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے حاجی کے لئے مشقت ناقابلِ برداشت ہو جائے تو وہ کما حقہ دعا و اذکار نہ کر سکے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1803
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا المعلى بن اسد، حدثنا إسماعيل ابن علية، حدثنا ابن ابي نجيح، عن ابيه، قال: سئل ابن عمر عن صوم يوم عرفة، فقال: "حججت مع النبي صلى الله عليه وسلم فلم يصمه، وحججت مع ابي بكر فلم يصمه، وحججت مع عمر، فلم يصمه، وحججت مع عثمان، فلم يصمه، وانا لا اصومه، ولا آمر به، ولا انهى عنه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَقَالَ: "حَجَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَلَمْ يَصُمْهُ، وَحَجَجْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَصُمْهُ، وَحَجَجْتُ مَعَ عُثْمَانَ، فَلَمْ يَصُمْهُ، وَأَنَا لَا أَصُومُهُ، وَلَا آمُرُ بِهِ، وَلَا أَنْهَى عَنْهُ".
ابن ابی نجیح نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا، اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بھی حج کیا تو انہوں نے بھی روزہ نہیں رکھا، اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی حج کیا تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا، پھر سیدنا عثان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا، اور میں بھی اس دن روزہ نہیں رکھتا اور نہ روزہ رکھنے کا حکم دیتا ہوں اور نہ اس سے روکتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1806]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 751]، [أبويعلی 5595]، [ابن حبان 3604]، [موارد الظمآن 934]، [الحميدي 698]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1802)
ان احادیث سے حاجی کے لئے عرفہ اور ایامِ تشریق کا روزہ نہ رکھنا ثابت ہوا، اسی لئے ان دنوں میں حجاج کے روزہ رکھنے کو علماء نے مکروہ کہا ہے، ہاں وہ حاجی جس نے حج تمتع کیا اور قربانی کی استطاعت نہ ہو تو ایامِ تشریق میں روزے رکھ سکتا ہے جیسا کہ امام مالک، شافعی، احمد و اسحاق رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
48. باب النَّهْيِ عَنِ الصِّيَامِ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ:
48. ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1804
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن نافع بن جبير، عن بشر بن سحيم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امره او امر رجلا ينادي ايام التشريق:"انه لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وهي ايام اكل وشرب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ بِشْرِ بْنِ سُحَيْمٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَوْ أَمَرَ رَجُلًا يُنَادِي أَيَّامَ التَّشْرِيقِ:"أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ".
سیدنا بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یا کسی آدمی کو حکم دیا کہ ایام تشریق میں اعلان کر دیں کہ جنت میں صرف مومن بندہ داخل ہو گا، اور یہ تشریق کے دن کھانے اور پینے کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1807]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 5009]، [ابن ماجه 1720]، [أحمد 335/4]، [طبراني فى الكبير 1213]، [ابن خزيمه 2960، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1805
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يزيد بن عبد الله، عن ابي مرة مولى عقيل، انه: دخل هو وعبد الله بن عمرو على عمرو بن العاص، وذلك الغد او بعد الغد من يوم الاضحى، فقرب إليهم عمرو طعاما، فقال عبد الله: إني صائم. فقال عمرو:"افطر، فإن هذه الايام التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرنا بفطرها وينهانا عن صيامها. فافطر عبد الله، فاكل واكلت معه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلٍ، أَنَّهُ: دَخَلَ هُوَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو عَلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَذَلِكَ الْغَدَ أَوْ بَعْدَ الْغَدِ مِنْ يَوْمِ الْأَضْحَى، فَقَرَّبَ إِلَيْهِمْ عَمْرٌو طَعَامًا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنِّي صَائِمٌ. فَقَالَ عَمْرٌو:"أَفْطِرْ، فَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِفِطْرِهَا وَيَنْهَانَا عَنْ صِيَامِهَا. فَأَفْطَرَ عَبْدُ اللَّهِ، فَأَكَلَ وَأَكَلْتُ مَعَهُ".
عقیل کے آزاد کردہ غلام ابومرہ سے مروی ہے کہ وہ اور عبداللہ بن عمرو، ان کے والد سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عید الاضحیٰ کے بعد پہلے یا دوسرے دن (گیارہ یا بارہ ذوالحجہ کو) حاضر ہوئے تو سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کے لئے کھانا لگایا، عبداللہ نے کہا: میرا روزہ ہے، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: روزہ توڑ دو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ان دنوں میں روزہ افطار کرنے کا حکم دیا اور روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، لہٰذا عبداللہ بن عمرو نے روزہ توڑ دیا اور کھانا کھایا، میں نے بھی ان کے ساتھ کھانا کھایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح غير أنه لا ينفرد به فقد تابعه عليه شعيب بن الليث بن سعد وهو ثقة فقيه نبيل فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 1808]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری صحیح سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2418]، [ابن خزيمه 2149]، [مالك فى الحج 138]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1803 سے 1805)
ان احادیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ نے مطلقاً ایامِ تشریق کے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، لیکن اصح یہ ہے کہ عرفہ کے دن نو ذوالحجہ کو اور ایامِ تشریق 11، 12، 13 ذوالحجہ کو حاجی کے لئے روزہ رکھنا مناسب نہیں، ہاں متمتع جس کے پاس قربانی کرنے کے لئے پیسے نہ ہوں اور شروع ذوالحجہ میں اس نے روزے نہ رکھے ہوں تو ایامِ تشریق میں تین دن روزے رکھ سکتا ہے، اور عرفہ کا روزہ جو لوگ عرفات میں نہ ہوں ان کے لئے باعثِ خیر و برکت ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے، اور اگلے پچھلے ایک سال کے صغیرہ گناہ اس ایک روزے کی بدولت معاف کر دیئے جاتے ہیں، کما فی صحیح مسلم۔
سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی عرفے کے دن ہی روزہ رکھنا چاہیے، خواہ وہ ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ ہو یا نو، آج کل ذرائع اعلام سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عرفہ کا دن کب ہے۔
ہندوستان وغیرہ میں وہاں کے حساب سے نو ذوالحجہ کا لوگ روزہ رکھتے ہیں جو سعودی عرب میں 10 ذوالحجہ اور یوم النحر کا دن ہوتا ہے، عرفہ کا دن نہیں ہوتا۔
«(فَلْيَتَأَمَّلِ الْعَامِلُوْنَ)»، نیز ذوالحجہ کے ایک سے نو ذوالحجہ تک روزہ رکھنا افضل ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح غير أنه لا ينفرد به فقد تابعه عليه شعيب بن الليث بن سعد وهو ثقة فقيه نبيل فيصح الإسناد
49. باب الرَّجُلِ يَمُوتُ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ:
49. کوئی آدمی مر جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں اس کا بیان
حدیث نمبر: 1806
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان امراة نذرت ان تصوم، فماتت، فجاء اخوها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله عن ذلك، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لو كان عليها دين اكنت قاضيه؟"قال: نعم. قال: "فاقضوا الله، فالله احق بالوفاء". قال: فصام عنها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً نَذَرَتْ أَنْ تَصُومَ، فَمَاتَتْ، فَجَاءَ أَخُوهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ؟"قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: "فَاقْضُوا اللَّهَ، فَاللَّهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ". قَالَ: فَصَامَ عَنْهَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حج کی نذر مانی لیکن اس کا انتقال ہو گیا تو اس کا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بارے میں سوال کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اگر ان کے اوپر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرو، اللہ تعالیٰ وفا کا زیادہ حق دار ہے۔ راوی نے کہا: پس بھائی نے بہن کی طرف سے روزہ رکھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1809]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1953]، [مسلم 1148، 1149]، [أبوداؤد 3310]، [ترمذي 716]، [ابن ماجه 1758]، [ابن حبان 3530-3570]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1805)
اس حدیث میں سوال حج کی نذر پوری کرنے کا ہے اور جواب میں روزے کی قضا کا ذکر ہے، غالباً الگ الگ واقعات ہیں جو کسی راوی سے یکجا ہو گئے ہیں۔
کتبِ احادیث میں روزے کی قضاء کا ذکر ہے اور [مسلم 1149] میں ایک الگ حدیث میں حج کا ذکر ہے، علی کل حال علماء کا اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کسی میّت پر روزہ یا حج واجب الاداء ہو تو ولی کیا کرے؟ اگر نذر کا حج یا روزہ ہے تو اس کے ولی کو پورا کرنا چاہیے، اور اگر رمضان کے روزے ہیں یا فریضۂ حج میّت پر واجب ہو تو بعض ائمہ نے کہا کہ اس کی میراث سے روزے کا فدیہ ادا کیا جائے اور میّت کے پیسے سے ہی حج کیا جائے، لیکن صحیح یہ ہے کہ «مَنْ مَاتَ وَ عَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهّ.» [بخاري 1952] کے تحت میّت پر کوئی بھی روزہ ہو اس کا قریبی ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے، اور حج بھی کر سکتا ہے جیسا کہ احادیث میں وضاحت موجود ہے۔
(دیکھئے: حدیث رقم: 1874)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
50. باب في فَضْلِ الصِّيَامِ:
50. روزے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1807
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك، وللصائم فرحتان: فرحة عند فطره، وفرحة يوم القيامة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزے دار کے لئے دو وقت خوشی کے ہیں، افطار کا وقت دوسرے قیامت کے دن کی خوشی کا وقت۔ یعنی جب قیامت کے دن روزے کے ثواب کو دیکھے گا تو خوش ہوگا «كما فى البخاري» ۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1810]»
اس روایت کی سند حسن، لیکن حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1904]، [مسلم 1151]، [ترمذي 764]، [نسائي 2215]، [أبويعلی 5947]، [ابن حبان 3422]، [الحميدي 1040]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 1808
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا يزيد، اخبرنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يقول الله تعالى: كل عمل ابن آدم له: فالحسنة بعشر امثالها إلى سبع مئة ضعف، إلا الصيام هو لي وانا اجزي به، إنه يترك الطعام وشهوته من اجلي، ويترك الشراب وشهوته من اجلي، فهو لي وانا اجزي به".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ: فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِئَةِ ضِعْفٍ، إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، إِنَّهُ يَتْرُكُ الطَّعَامَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي، وَيَتْرُكُ الشَّرَابَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي، فَهُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم کے لئے ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو گنا ہے سوائے روزے کے، روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا کیونکہ وہ روزے دار اپنا کھانا اپنی شہوت میری وجہ سے چھوڑتا ہے، پینا اور اپنی خواہش نفسانی میری وجہ سے ترک کر دیتا ہے، پس روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1811]»
اس روایت کی سند حسن اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1904]، [مسلم 1151]، [ابن حبان 3416]، نیز دیکھئے: [فتح الباري 107/4]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1806 سے 1808)
روزے دار کو کتنا اجر ملے گا یہ اس حدیثِ قدسی میں ذکر نہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ روزے دار کا اجر بے حد اور بے حساب ہوگا، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: « ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ [الزمر: 10] » ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 1809
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث قدسي) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الصوم جنة".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الصَّوْمُ جُنَّةٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ ایک ڈھال ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1812]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1894، 1904]، [مسلم 1151/162]، [نسائي 2215]، [ابن حبان 3427]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1808)
روز ہ گناہوں سے بچنے کے لئے یا جہنم سے بچنے کے لئے ایک ڈھال ہے، جس طرح جنگ میں دشمن کے وار سے بچنے کی ڈھال ہوتی ہے۔
ان احادیث سے روزے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ قیامت کے دن اس کا ثوابِ عظیم دیکھ کر روزے دار خوش ہوگا۔
اور روزے کا ثواب بے حد و بے حساب ہے، اور روزہ دار کے لئے رب العالمین ارحم الراحمین کی طرف سے بشارت ہے «فَإِنَّه لِيْ وَ أَنَا أَجْزِيْ بِهِ» نیز یہ کہ روزہ ایک ڈھال کی طرح ہے جو جہنم کی آگ سے بچائے گا جیسے ڈھال دشمن کے وار سے بچاتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.